آسیان ممالک کا پارلیمانی وفد مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان پہنچ گیا

خصوصی رپورٹ  بدھ 6 نومبر 2019
وفد صدر، وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین اور پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر سے ملاقاتیں کرے گا (فوٹو: فائل)

وفد صدر، وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین اور پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر سے ملاقاتیں کرے گا (فوٹو: فائل)

 اسلام آباد: عالمی تنظیم آسیان کے اراکین ممالک کے پارلیمنٹ ارکان پر مبنی وفد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال جاننے کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق مسئلہ کشمیر کو اقوام عالم کے سامنے اجاگر کرنے کے مشن میں پاکستان کی زبردست سفارتی کامیابی کے نتیجے میں آسیان ممالک (ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشن) کے ممبران پارلیمنٹ پر مشتمل 17 رکنی پارلیمانی وفد حاجی محمد اعظمی عبدالحمید (صدر مجلس پروندگان اسلام ملائشیا) کی سربراہی میں 3 روزہ دورہ پر پاکستان پہنچ گیا۔

وفد میں ملائشیا، انڈونیشیا، برونائی دارالسلام، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، سنگا پور اور میانمار کے ممبران پارلیمنٹ شامل ہیں جن میں داتک طاہر خان ، فروش خان بن اکبر خان ، سینیٹر اسمک بتنی حسن ، محمد فخرالدین ، حسن الدین بن محمد یونس، ابو بکر بن عبدالجلال، مس رسنا بٹنی، عمر اسلم، یحییٰ اللہ منصور سٹوری ، حاجی اوانگ ادریس بن حاجی اوانگ محمد ، جمال عبدالناصر احمد ، ڈاکٹر ثروت آری ، محمد فیصل بھی شامل ہیں۔

وفد پاکستان میں اپنے قیام کے دوران صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان ، چیئرمین سینیٹ ، اسپیکر قومی اسمبلی ، چیئرمین اور پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے ممبران سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرے گا۔

آسیاں پارلیمنٹرین کا وفد مظفر آباد بھی جائے گا اور کنٹرول لائن کے دورہ کے علاوہ صدر آزاد ریاست جموں و کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرے گا، آسیان ممالک کے ممبران پارلیمنٹ کے پارلیمانی وفد کا یہ دورہ آسیان ممالک میں تنازعہ جموں و کشمیر کے بارے میں آگاہی کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف عالمی اور علاقائی پارلیمانی فورمز پر آواز اٹھانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

دفتر خارجہ نے وفد کے دورے کے پورے شیڈول کے انتظامات پہلے سے ہی مرتب کر رکھے ہیں جبکہ وفد کے ارکان کو دورے کے دوران فول پروف سیکیورٹی مہیا کی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔