دو ٹکے کی پرفارمنس

محمد یوسف انجم  جمعرات 7 نومبر 2019
پاکستانی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف اپنی خراب کارکردگی سے قوم کو سخت مایوس کیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستانی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف اپنی خراب کارکردگی سے قوم کو سخت مایوس کیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج پھر وہ بہت غصےمیں تھا۔ میں نے کئی بار اس کو بلا کر بات کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ پاس نہیں آیا۔ کہتے ہیں کہ انسان غصے میں ہو تو بجائے اس سے بات کرنے کے، کچھ وقت کےلیے اسے اکیلے چھوڑ دینا چاہیے۔ میں نے بھی یہ فارمولا اپنایا۔ میں نے سکون سے کھانا کھایا اور لیپ ٹاپ پر کام میں مصروف ہوگیا، ایک گھٹنے بعد وہ میرے پاس خود ہی آکر بیٹھ گیا۔

کہنے لگا ’’آج پھر بہت مایوس کیا‘‘۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ کس کی بات کر رہا ہے، اس لیے میں خاموش اور اپنے کام میں مشغول رہا۔

’’آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا، کب تک رسوا ہوتے رہیں گے، کیا خوشیاں منانے کا ہمیں کوئی حق نہیں؟ پہلے انتظار رہتا ہے کہ کب وہ وقت آئے گا، جب وہ گھڑی آتی ہے تو دعائیں مانگ مانگ کر نہیں تھکتے کہ آخر عزت اور پہچان تو اپنی ہے، جیت ملے گی تو سب کا مان بڑھے گا۔ لیکن اب تو حد ہی ہوگئی ہے۔ آخر کب تک ایسا چلے گا؟‘‘ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر بولتا رہا اور میں سنی اَن سنی کرتا رہا۔

آگے کا قصہ بیان کرنے سے پہلے، میں اس کا تعارف کرادوں۔ اس کا نام خلیل ہے اور اس کا قد چھ فٹ سے زیادہ ہے مگر گھر والے اس کو ’کاکا‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ عمر کوئی ستائیس برس ہوگی لیکن کرکٹ کے بارے میں اتنی معلومات کہ بڑے بڑے ماہرین کھیل کو چپ کرادے۔ پاکستانی ٹیم کے جب بھی میچز قریب ہوتے ہیں، کاکا جی نے پوری گلی کی ناک میں دم کیا ہوتا ہے۔ جو بھی ملتا ہے، اس سے سلام دعا بعد میں ہوتی ہے پہلےمیچ کا ذکر ہوتا ہے کہ فلاں تاریخ کو کرکٹ میچ ہے۔ کاکا کے گھر میں اس وقت کا ایک ٹی وی ہے جب ٹیم میں وسیم اکرم، وقاریونس، شعیب اختر، انضمام الحق، محمد یوسف جیسے نامی گرامی کرکٹرز موجود تھے، جن کی موجودگی میں پاکستانی ٹیم کی فتوحات کا ریکارڈ بھی بہت اوپر تھا۔ جس دن میچ ہو تو کاکا کے ٹی وی پر اسپورٹس چینل ہی آن ہوتا ہے۔ گھر والوں کی کیا مجال کہ وہ کوئی اور چینل لگانے کی جسارت کریں۔

’’جب سری لنکا سے ہارے تو آپ نے کہا تھا کہ فکر نہ کرو، آسٹریلیا میں ٹیم اچھا پرفارم کرے گی۔ لیکن اب وہاں جاکر بھی نتیجہ نہیں بدلا۔ آخر ٹیم کو اچانک کیا ہوجاتا ہے؟ فخرزمان چند ماہ پہلے تک بڑا اچھا پرفارم کررہا تھا، لیکن اب تو لگتا ہے کہ جیسے اس کو کھیلنا ہی نہیں آتا۔ حارث سہیل کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی ہے، فخر اور حارث میں تو ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ شاید ایک ہی طرح کے شارٹس مار کر آؤٹ ہونے کا مقابلہ ہورہا ہے۔ محمد رضوان بھی ابھی تک وہ پرفارم نہیں کرپائے جیسی ان سے توقع تھی۔ آصف علی نے فیصل آباد میں تو ٹی ٹوئنٹی میچ میں دس چھکے مار کر خود کو ہارڈ ہٹر منوایا تھا، لیکن آسٹریلوی بولرز کے سامنے تو وہ ٹک ہی نہیں پارہا۔ کپتان بابر اعظم کا بھلا ہو جس نے ایک بار پھر نصف سنچری بناکر ٹیم کی پوزیشن کو کچھ بہتر بنایا۔ بھلا ہو افتخار احمد کا، جس نے وکٹ پر کھڑے ہوکر کچھ لاج رکھ لی، ورنہ تو لگ رہا تھا کہ ٹیم سو کا ہندسہ بھی عبور نہیں کرپائے گی۔‘‘

وہ بولتا رہا اور میں چپ کرکے سنتا رہا۔ جب اس نے پانی پینے کےلیے سانس لیا تو میں نے کہا ’’آسٹریلیا میں ہماری بیٹنگ لائن کا ہمیشہ سے ایسا ہی حال ہوا ہے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘

’’آپ بھی عجیب ہیں۔‘‘ اس نے پھر سے اپنے غصے کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ اب تو آسٹریلیا کی وکٹیں وہ پہلے والی نہیں رہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ بگ بیش میں کتنے رنز بن رہے ہیں، بولرز کی کتنی پٹائی ہورہی ہے۔‘‘

’’ہاں پٹائی تو ہورہی ہے ناں، لیکن ہمارے بولرز کی‘‘۔ میں نےلقمہ دیا۔

’’عرفان کو لمبے قد کا ایڈوانٹیج لینے کےلیے ساتھ لے کر گئے تھے لیکن لگتا ہے کہ اب یہ نسخہ بھی بیکار ہوگیا ہے۔ اسپیڈ ہوگی تو ہی وہاں کی وکٹوں پر ملنے والے باؤنس سے فائدہ ہوگا۔ اسپیڈ تو ہے نہیں، پھر پیچھے پھینکی جانے والی گیندوں نے باؤنڈری لائن کے پار ہی جانا ہے ناں۔ وہاب ریاض اور محمدعامر کی تو لگتا ہے کہ اب واقعی بس ہوچکی ہے۔‘‘

’’ایک مشورہ ہے کہ کرکٹ بورڈ کو بولیں کہ وکٹوں پر بیلز کی جگہ ہزار ہزار والے امریکی ڈالرز رکھ دیں کہ جتنے ڈالرز گراؤ گے وہ آپ کے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ نسخہ پاکستانی ٹیم اور ان دونوں بولرز کےلیے کارگر ثابت ہو۔‘‘ وہ بے تکان بولتا جارہا تھا اور میرے پاس اس کی باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔

’’موسیٰ خان اور محمد حسنین کو کیوں نہیں کھلاتے؟ مصباح خود ہیڈ کوچ ہیں، خود ہی انہوں نے ان کو سلیکٹ کرتے وقت دعویٰ کیا تھا کہ یہ دونوں بہت تیز اور آسٹریلوی کنڈیشنز میں کامیاب ہوں گے۔ سرپرائز پیکیج حسنین کو پورے ورلڈکپ میں پانی پلانے تک محدود رکھا۔ مصباح چاچا، اگر ان کو کھلا نہیں سکتے، تو پھر سلیکٹ ہی کیوں کرتے ہیں؟‘‘

’’تسلی رکھو، شاید اگلا میچ جیت جائیں۔‘‘ میں نے ہمیشہ کی طرح امید دلا کر جان چھڑانے کی کوشش کی۔

’’یوسف صاحب! مجھے نہیں لگتا کہ یہ ٹیم آسٹریلیا سے جیت کر آئے گی۔ آپ اس دو ٹکے کی ٹیم کی اتنی طرف داری نہ کیا کریں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا اور میں بند درواز ے کو دیکھ کر سوچتا رہا کہ کاکا کہتا تو سچ ہی ہے کہ اب تک ٹیم کی پرفارمنس تو واقعی دو ٹکے والی ہی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Muhammad Yousuf Anjum

محمد یوسف انجم

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے، سینئر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں اور اسپورٹس رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پچھلے کئی سال سے ’’ایکسپریس نیوز‘‘ سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔