ہفتے کی چھٹی ختم کرو

طارق محمود میاں  ہفتہ 19 اکتوبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

یہ جو چھٹیاں آپ ان دنوں گزار رہے ہیں اور گزار گزار کے آپ کے جسم کے کڑاکے نکل گئے ہیں مجھے ان کے بارے میں کچھ کہنا ہے، یہ سب نوکر شاہی کے شوق ہیں اور اس سے کوئی کب تک جھک مارے۔ نہ کوئی اسے سمجھ سکا اور نہ ہی اس کا مقابلہ کرسکا۔ اس کے پاس اپنے ہر فیصلے کا ایک نپا تلا اور سائنسی جواز موجود ہوتا ہے۔ عوام کی رائے سے طاقت حاصل کرکے مسند اقتدار پر فروکش ہونے والے خود کو کتنا ہی مختار کل اور سرکار کل سمجھتے ہوں لیکن وہ اس طبقے کے سامنے بھیگی بلی بن کے کھڑے ہوتے ہیں۔ جس نے فائل بنانی بھی ہے، دکھانی بھی ہے اور سنانی بھی ہے اس کی محتاجی سارے اختیار کا جلوس نکال دیتی ہے۔

ہفتے والے دن کی اضافی چھٹی ایک عارضی چھٹی تھی۔ اسے گزشتہ حکومت نے بجلی کی بچت کا بہانہ بنا کے شروع کیا تھا۔ کہا گیا کہ آپ لوگ فضول میں اعتراضات مت کریں۔ یہ چھٹی ہم نے مغرب کی نقالی میں شروع نہیں کی ہے اور نہ ہی افسران کو لمبے ویک اینڈ کا شوق ہے۔ وقتی مشکلات کے پیش نظر یہ ایک وقتی چھٹی ہے، چند ہفتوں کے بعد ختم کردی جائے گی۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ دو برس بیت گئے۔ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد ایک تیسری حکومت آگئی۔ یہ چھٹی ہنوز اپنی جگہ پر موجود ہے۔ کسی کو خیال ہی نہیں آیا کہ اسے ختم بھی کرنا تھا۔ چھٹی نہ ہوئیکوئی صدیق الفاروق ہو گیا جسے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والے جمہوری حکمران کو حراست میں لینے کے بعد رہا کرنا بھول گئے تھے۔ یہ میری خوش لفظی نہیں ہے بلکہ  سرکار کا موقف تھا کہ چونکہ ہم دوسرے اہم کاموں میں مصروف ہوگئے تھے اس لیے صدیق الفاروق کا معاملہ دیکھنا یاد نہ رہا۔ اب میں یاد دلا دیتا ہوں کہ ہفتے کا دن گزشتہ دو برس سے زیر حراست ہے، کسی بندی خانے میں گندے فرش پر بیٹھا، گھٹنوں میں سر دیے رو رہا ہے۔ اسے رہا کیا جائے۔

یہ حکومت بھی دوسرے بہت سے ضروری کاموں میں مصروف ہے۔ انھیں نپٹانے میں لگ گئی تو میری درخواست کی باری آتے آتے چالیس پچاس سال لگ جائیں گے۔ بجلی کی کمی پوری نہ ہوسکی تو اس وقت تک ہفتے کے باقی دن بھی قطار باندھے ماتم کناں ہوں گے۔ کتنا آسان حل ہے کہ بجلی استعمال کرنے کے مواقعے ختم کرتے جاؤ، کمی خود بخود پوری ہوجائے گی۔ خیر، میں چونکہ اس حکومت سے تھوڑی بہت خیر کی توقع رکھتا ہوں اس لیے امید کرتا ہوں کہ وہ نوکر شاہی کی چال کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔ بجلی کی پیداوار کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے چھٹی کے ذریعے بچا کے آیندہ کے لیے اسٹور کرلیا جائے۔ یہ نہ تو بڑے پیمانے پر بیٹریوں میں اسٹور کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اسے کسی فریزر میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ تو جب جب پیدا ہوتی ہے اسی وقت استعمال بھی ہوتی ہے۔ پھر چھٹی کرنے کی کیا تک ہے۔ شاید وہی بات درست ہے کہ نوکر شاہی کا شوق ہے۔ وہ مغرب کی نقالی میں پانچ دن کام کرے یا نہ کرے اس نے دو دن کی چھٹی ضرور کرنی ہے۔

مغرب کی اسی نقالی کے شوق میں ہمارے ہاں کئی بار Daylight Saving کا تصور بھی متعارف کیا جاچکا ہے۔ اس میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کردی جاتی تھیں تاکہ دن کا آغاز جلدی ہو۔ ایسا جب بھی کیا گیا، ہمارے ہاں بہت کنفیوژن پھیلا۔ حالانکہ جغرافیائی اعتبار سے ہمارا ملک ایک ایسے ریجن میں ہے جہاں دن اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ایسے کسی انتظام کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ فقط قانون پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ تمام دکانیں اور شاپنگ سینٹرز رات آٹھ بجے بند کروانے پر سختی سے عمل ہونے لگے تو صبح کے جو چھ روشن گھنٹے ضایع ہورہے ہیں وہ خودبخود استعمال ہونے لگ جائیں گے۔ آج کل تو صورت حال یہ ہے کہ کسی دکاندار دوست کو دن کے بارہ بجے بھی فون کرو تو آگے سے خراٹا سنائی دیتی ہے اور دوستی خراب ہوجاتی ہے۔

اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ رات کے دس بارہ بجے کے بعد ٹی وی کی چھٹی کرنے کی تجویز دی جاسکے۔ ایمرجنسی میں فون اور انٹرنیٹ بند کرسکتے ہیں لیکن ٹی وی بند کرنے کی بات ہوگی تو بات کرنے والے کو بہت مار پڑے گی۔ لیکن ذرا ایمانداری سے بتائیے! جب کبھی رات کو لمبے عرصے کے لیے ٹی وی کیبل بند ہوجائے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ بہت سے بھولے بسرے کام یاد آجاتے ہوں گے۔ کچھ کام ان میں سے کرتے ہوں گے، کسی سے، بہت دنوں بعد کچھ میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہوں گے اور پھر جلدی سو جاتے ہوں گے۔ جلدی سونے والا اٹھتا بھی جلدی ہے اور اس کی صبح خوبصورت ہوتی ہے۔ وہ ایک اچھا آدمی ہوتا ہے۔

وہ بات اب پرانی ہوگئی۔ ٹی وی کے ابتدائی دن تھے۔ بلیک اینڈ وائٹ۔ ان دنوں دس بجے کے لگ بھگ قومی ترانہ بجتا تھا اور ملک رات کے سکون میں ڈوب جاتا تھا۔ تب وی سی آر بھی نہیں تھا، موبائل فون بھی نہیں اور انٹرنیٹ بھی نہیں۔ بس یوں سمجھیے کہ طالبان جیسا راج تھا۔ پھر یوں بھی ہوتا کہ ہر ہفتے ایک شام بہت کمال کی ہوتی۔ یہ پیر کی شام تھی۔ اس روز ٹی وی کی مکمل چھٹی ہوتی۔ لیجیے ’’چھٹی‘‘ کا ذکر پھر آگیا۔ یہ ایک مفید چھٹی تھی جو سماجی رابطوں کی تجدید میں معاون تھی۔ لیکن کچھ چھٹیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا نہ ہونا مفید ہوتا ہے۔

اب تو شاید ہی کسی کو یاد ہو لیکن ایک وقت وہ بھی تھا جب ڈاک کی چھٹی نہیں ہوتی تھی۔ ڈاکیا اتوار کو بھی اپنا کام جاری رکھتا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج بھی ریلوے کی چھٹی نہیں ہوتی اور جہاز کی سروس بھی بند نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ اصول بھی طے تھا کہ بینک مسلسل دو روز سے زیادہ کبھی بند نہیں ہوں گے۔ عید ہو یا کوئی اور تہوار، بینک دو روز کے بعد چھٹی میں بریک ضرور کرتا تھا۔ یہ کاروباری اور سماجی ضرورت آج بھی اس طرح موجود ہے لیکن ہائے ری نوکر شاہی، اس نے اس دفعہ مسلسل چھ روز تک بینک بند کرواکے ریکارڈ قائم کردیا ہے، ایسے میں اگر میں نے چھٹیاں کم کرنے کا ذکر چھیڑا ہے تو کیا برا کیا ہے۔ اگر حکومت کی قوت سماعت کمزور نہیں ہے اور یہ واقعی ایک بزنس فرینڈلی حکومت ہے تو اسے فوری طور پر ہفتے والے دن کی چھٹی ختم کردینی چاہیے۔ صدیق الفاروق کو تو اپنا قصہ یاد ہوگا، وہی حکومت کو یاد دلادے کہ ہفتے کا ایک دن گزشتہ دو برس سے کسی گمنام بندی خانے میں بیٹھا رہائی کا منتظر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔