فیصلہ ہمیں کرنا ہے

مقتدا منصور  ہفتہ 19 اکتوبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ماہرین جینیات کاکہنا ہے کہ کسی فرد یا افراد کے گروہ کی نفسیات کی تعمیر و تشکیل میں موروثیت کے علاوہ بیرونی عوامل بھی اثر اندازہوتے ہیں۔ جنوبی ہند میں کوئی شخص اعتمادمیںکمی کا مظاہرہ کرے تواسے دھیڑنفسیات کا شکار کہاجاتا ہے۔ اس پورے خطے میںدراوڑوں کو دھیڑ کہا جاتاہے۔چونکہ دراوڑ صدیوں کے نسلی اور طبقاتی استحصال کاشکار ہونے کی وجہ سے اعتماد سے عاری ہوتے ہیں،اسی مناسبت سے ہر اس شخص کو دراوڑوںسے تشبہیہ دی جاتی ہے،جس میں اعتماد کی کمی ہو۔ دراصل صدیوں سے محکوم اور کچلے ہوئے طبقات کو اگر آزادی ملتی ہے،تو ان میں کئی نسلوںتک وہ اعتمادپیدا نہیں ہوتا،جو کسی آزاد انسان کا خاصاہواکرتاہے۔ اس سلسلے میں راز مرادآبادی  کی غزل کا یہ شعر اس احساس کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔

اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے

اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے

تاریخ عالم کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جن اقوام نے اپنی محرومیوں پر قابو پانے کے لیے بالادست اقوام سے جنگ وجدل کی بجائے حصول علم پر توجہ دی ، وہ اپنے قومی تشخص، ثقافتی ورثہ اور ماں بولی کو زمانے کی تند وتیز ہوائوں کی یلغار سے بچا کر انھیں امر کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس کے برعکس وہ تمام اقوام ،خواہ انھوں نے تاریخ کے کسی مخصوص دور میں بیشک ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی ہو،مگر جب انھوں نے تحقیق کی جگہ تقلید اور تدبیرکی جگہ تقدیر پر بھروسہ کرلیا، تو انھیں دنیا میں ذلت ورسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آسکا۔وہ جو کل معتبر ومعروف تھے، آج بدنام و رسوا ہیں اور جوکل در درکی ٹھوکریں کھارہے تھے، آج بااثر وبااختیار ہیں۔یعنی اگر چشم بینا سے حوادث زمانہ کے اقوام پر مرتب ہونے والے اثرات کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات صاف طورپر سمجھ میں آتی ہے کہ جن اقوام نے بنا کسی امتیاز علم کو اوڑھنا بچھونا بنایا ، وہ تاریخ کے ہر بدترین دور سے سرخرو و شادماں گذرگئیں اور جنھوں نے علم کا راستہ ترک کیا وہ جہل کی تاریک وادیوں میں کھوکر اپنا تشخص بھی گنوابیٹھیں۔

تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ جن قوموں نے علم و آگہی کی راہ اپنائی،انھوں نے دنیاکو ایک نئی تہذیب بھی دی مگر جب علم وآگہی کا راستہ چھوڑاتو ان کی یہ تہذیب جمود کا شکار ہوکر تاریخ کے صفحات کاحصہ بن گئی۔ دنیا میں کسی تہذیب کے قائم رہنے کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔اول، اس تہذیب میں عوامی قبولیت کا کتنا پوٹینشل ہے۔دوئم، حملہ آورقوتوں سے تحفظ کی کیا حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔اس سلسلے میںکیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق وہی تہذیبیں طویل عمر پاتی ہیں، جن کو جنم دینے والی قوموں میں تاریخ کے ارتقاء کو سمجھنے کی اہلیت ہوتی ہے اور وہ دنیاکے بدلتے رجحانات کے مطابق اپنی ترجیحات تبدیل کرنے کی صلاحیت اور لچک رکھتی ہیں۔ معروف تاریخ دان پروفیسر ٹوئین بی کا کہنا ہے کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں28 تہذیبوںنے جنم لیا، جن میں سے20وقت کی گرد تلے دب کر فنا ہوچکی ہیں۔صرف8تہذیبوں کے اثرات باقی ہیں۔ لیکن ان سب میںنمایاںصنعتی انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والی تہذیب ہے، جس میں اتنا پوٹینشل ہے کہ وہ صدیوں تک نہ صرف زندہ رہ سکے گی،بلکہ نسل انسانی کی مقبول تہذیب کے طورپر پہچانی جائے گی۔

اب ذرا چند مثالوں سے ان حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔2 ہزار برس قبل جب بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کیا تو یہودیوں کا قتل عام ہوا۔کئی ہزاروں نوجوان قتل ہوئے اور قوم بنی اسرائیل پر دنیا میں زندگی جہنم بن گئی۔ اس لیے جسے جہاں موقع ملا،اس نے وہاں نکل جانے میں عافیت جانی۔ایک بہت بڑی تعداد یورپی ممالک کی طرف گئی، جب کہ سیکڑوں خاندانوں نے حجازکے بعض شہروں کو اپنا مسکن بنایا۔خاص طورپر یثرب (مدینہ) اور اس کے اطراف میں اپنی بستیاں قائم کیں۔تتربتر ہوجانے کے بعد قومِ بنی اسرائیل نے چند فیصلے کیے، جس نے انھیں زندہ رکھنے اور عالمی سطح پر ہر لحاظ سے ممتاز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اول،انھوںعلم وآگہی کے حصول کو اپنی زندگیوں کے لیے اولین ترجیح بنالیا۔ دوئم، اپنے عقیدے،ثقافت اور ماں بولی (عبرانی) کوہر حال میں تحفظ دینے کی قسم کھائی۔ سوئم،کاروبار کوذریعہ روز گار بنانا۔چہارم، اپنے آبائی وطن کی واپسی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کرنا۔

ان دوہزار برسوں کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے یہودیوں نے ان اہداف کے حصول کو اولین ترجیح بنائے رکھا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ ایک ہزار برس کے دوران جن فلسفیوں، سائنسدانوں اور سوشل انجینئروں نے دنیا میں دھوم مچائی،ان کی اکثریت کا تعلق یہودی کمیونٹی سے تھا۔ جدیددنیا میں قائم ہونے والی بڑی کاروباری فرمیں اورکارپوریشنز یہودی سرمایہ کاروں کی ملکیت ہیں۔اس وقت دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی 13.46ملین (تقریباً ایک کروڑ 34 لاکھ 60 ہزار)ہے۔جوایک انتہائی قلیل تعداد ہے، مگر اس کے باوجود یہودی اپنی علمی قابلیت، پیشہ ورانہ حیثیت اورکاروباری بصیرت کے باعث دنیا کے معاشی اور سیاسی نظام میں فیصلہ کن حیثیت کے حامل ہیں۔یہ مقام انھوں نے علم سے حاصل اہلیت وصلاحیت کے نتیجے میں حاصل کیا۔

اب دوسری طرف آئیے۔مسلمانوں نے آٹھویں صدی سے تیزرفتار پرواز کا آغاز کیا ۔طب سے ریاضی کے کلیوں تک، فلسفہ سے فلکیات کی گتھیوں تک اور ادب سے مذہب کی تفاسیر تک کوئی ایسا علم نہیں تھا جس کے حصول اور اسے بامِ عروج تک پہنچانے میں اپنا حصہ نہ ڈالاہو۔ اپنے اسی علم وفضل کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب و تمدن کی بنیادڈالی۔ اغلب گمان تھا کہ اگر ریاست کی سرپرستی جاری رہتی اور اہل علم یونہی تحقیق وتخلیق میں جتے رہتے تو تبدیلی کا ایک نیا سورج وسط ایشیاء سے طلوع ہوتا۔ مگر یہ ہونہ سکا، کیونکہ ریاست اور قدامت پسندوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اہل علم پر عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔تحقیق و تخلیق پر قدغن لگنے لگے۔ یوں علم وفضل کے سوتے سوکھنے لگے، جہل کی جھاڑیاں پھلنے پھولنے لگیں۔ نتیجتاًتحقیق کی جگہ تقلید ،تدبیر کی جگہ تقدیر اور تفکر کی جگہ لاپرواہی پروان چڑھنے لگی۔1258ء مسلمانوں کی دانش کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی، جب تاتاری افواج نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس کے بعد مسلمان سنبھل نہ سکے۔ مگر ان میں کوئی ایسا ذی ہوش اور دور اندیش بھی پیدا نہ ہوسکا، جوانھیں یہ سمجھاتا کہ مصائب کے اس دورسے نکلنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیارصرف اور صرف علم ہے ۔جیسا کہ بخت نصر کے حملہ کے بعد تتربترہوتے یہودیوں کو ان کے علماء نے سمجھایا تھااور جسے انھوں نے پلوسے باندھ لیاتھا۔ علم وآگہی کو اپنی اولین ترجیح بنانے کا نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا کی نفرتوں کے باوجود یہودی عالمی منظر نامے پر فیصلہ کن حیثیت میں چھائے ہوئے ہیں۔

برصغیر میں دراوڑوں نے جو صدیوں آریائی اقوام (ہندو، مسلم دونوں) کے ظلم وستم اورامتیازی سلوک کا شکار رہے، جب انگریزی دور میں انھیں علم تک رسائی کے مواقعے ملے تو انھوں نے صدیوں کے طوق غلامی کو اپنے گلے سے اتارپھینکااور ڈاکٹر امبیدکر جیسی نابغہ روزگار ہستیاںاورجگ جیون رام جیسے لیڈر پیدا ہوئے۔ مگربرصغیرکے مسلمانوں نے سرسیداحمد خان ،جسٹس امیر علی اور حسن علی آفندی جیسے صاحب بصیرت مصلحین کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان قدامت پرستوں کے لیے اپنی آنکھیں فرش راہ کیں، جومذہب کے نام پر قبائلی کلچر کے تسلسل کو جاری رکھنے پر اصرار کرتے تھے۔جو تعلیمِ نسواں کے اس لیے دشمن ہیں کہ خواتین مساوی سماجی حیثیت کی طلب گارہوجائیں گی۔جوآزادیِ اظہار پر قدغن عائد کرکے فکری فاشسزم کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ جن کی نظر میں اللہ کی مخلوق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔جسے وہ کبھی بم دھماکوں اور کبھی خود کش حملوں میںہلاک کردینا معمولی بات سمجھتے ہیں۔

ایک ایسے گلے سڑے اور فرسودگی کے مارے معاشرے میںایک نو عمر طالبہ جب اپنے اوراپنی ہم جولیوں کے لیے حصولِ علم کا حق مانگتی ہے، تو اس پرشدت پسند عناصرآتشیں اسلحے سے حملہ آور ہوتے ہیں۔وہ عناصر جو پولیوکے قطروں کے خلاف مہم چلاکر اس قوم کی آنے والی نسل کو مفلوج بنانے کے خواہشمند ہیں۔جومذہب کا نام لے کر پوری قوم کو جہل کے اندھیروں میں دھکیلنے کی آرزو رکھتے ہیں۔اس عمل میں صرف قبائلی شدت پسند ہی نہیں بلکہ شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مذہب کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اورجن کے اپنے بچے مغرب میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ بچ جاتی ہے اور دنیا اسے اپنی آنکھوں پربٹھاتی ہے،تو جہل کے ماروں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔اپنی بزدلی اور کم مائیگی کااعتراف کرنے کی بجائے اس کے بارے میں مختلف طریقوں سے بدگمانیاں پھیلانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ آج ملالہ یوسف زئی ہمارے معاشرے کے لیے ترقی و کامرانی کا استعارہ بن چکی ہے۔ وہ ہماری مشرقی روایات کی ترجمان، ’’اقراء بسم ربک‘‘ کی تفسیراور دلیری، جرأت مندی اورحق گوئی کی امین بن کر ابھری ہے۔جب کہ اسلحہ بردار شدت پسندبزدلی،جہل اورکوتاہ بینی کی علامت ہیں۔فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ علم کی روشنی سے اپنے وطن کو منور کرنا ہے یا شدت پسندوں کے دبائو میں آکر تاریکیوں میں ڈبونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔