مفلوج زندگیاں

نسیم انجم  ہفتہ 19 اکتوبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

سابق صدر آصف علی زرداری موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے بے حد خوش ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے ایک بیان دیا ہے کہ گزشتہ حکومت نے سزائے موت پر عمل نہ کرنے کی جو پالیسی بنائی تھی نواز حکومت نے اسے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سابق صدر نے مزید کہا کہ ملک کے موجودہ حالات اور مذہبی لوگوں کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لینا ہوگا۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کرکے حکومت نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کسی دباؤ کے تحت گزشتہ حکومتوں کے فیصلوں کو بدلنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ سابق صدر نے اسی فیصلے کی حمایت کو حکومت کی عقلمندی اور سیاسی پختگی قرار دیا اور یہ بھی فرمایا کہ اس امر پر حکومت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

لیجیے جناب! جیسے کو تیسا، لوگ ٹھیک ہی کہا کرتے ہیں کہ چہرے بدل جاتے ہیں لیکن نظام حکومت ایک ہی انداز میں چلایا جاتا ہے، بلکہ نئی حکومت آنے کے بعد مزید ظلم غریب عوام پر ڈھائے جاتے ہیں۔ جیساکہ آج کل ہورہا ہے۔ کل بھی قاتل آزاد تھے اور آج بھی، آخر ہمارے صدور قاتلوں کو زندہ سلامت کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ ان کی زندگیاں انھیں کیوں عزیز ہیں؟ جب کہ اسلام میں قتل کا بدلہ قتل ہے، قصاص میں زندگی ہے۔ اسی اسلامی قانون پر اگر عمل کیا جائے تو قتل و غارت گری کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ کوئی انسان زندہ جیتے، بستے انسان کو بے دردی سے مار ڈالے، اس کے گھر والوں کو ایف آئی آر بھی درج کرانے کی اجازت نہ دی جائے، بلکہ اس پر مزید ظلم و ستم کرنے کا اعلان کیا جائے، تو یہ دکھ وہی برباد گھرانہ سمجھ سکتا ہے دوسرا کوئی نہیں۔ آج کتنے لوگ ایسے ہیں جو انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں لیکن انصاف کسی کو نہیں ملتا، بڑے بڑے مشہور کیس سامنے آئے لیکن وہ بھی انصاف سے محروم رہے۔ کسی نے صلح کرلی اور کوئی دیار غیر محض اس لیے چلا گیا کہ ان کی جان و مال، عزت و آبرو کو خطرہ لاحق تھا، چونکہ انھیں معلوم تھا کہ قاتلوں کے سر پرست بڑے لوگ ہیں، انھیں طرح طرح سے تنگ کیا جائے گا، ان حالات میں سکھ و چین ناپید ہوگا۔

قاتلوں کی پشت پناہی کرنے والوں نے مجرموں کی فہرست میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ بعض اوقات ان بااختیار اور طاقت کا استعمال کرنے والوں کے سامنے قانون کے محافظ بھی بے بس نظر آتے ہیں چونکہ انھیں قاتلوں کو مارنے کا حکم نہیں ہے، سزائے موت پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔ ہر روز آپریشن ہورہا ہے۔ مختلف علاقوں سے دہشت گرد گرفتار کیے جارہے ہیں، لیکن ٹارگٹ کلنگ، بینک ڈکیتی اور لوٹ مار میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے، جن علاقوں میں رینجرز کا آپریشن جاری رہتا ہے، وہاں کے مکینوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے، ضروریات زندگی کی چیزوں سے وہ محروم ہوجاتے ہیں۔ تخریب کار اور رینجرز میں باقاعدہ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے۔ چاروں طرف بھاگ دوڑ، افراتفری، ان حالات میں لوگوں کی زندگیاں مفلوج ہوکر رہ جاتی ہیں۔ تعلیم متاثر ہوتی ہے، علاج و معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے مزید بیماریاں بڑھتی ہیں، بعض اوقات مریض کی حالت نازک ہوجاتی ہے۔ کاروبار زندگی اتنا متاثر ہوتا ہے کہ سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے، شیرخوار بچے الگ ہلکان ہوتے ہیں۔

ان حالات میں آپریشن کرنے سے پہلے کھانے پینے کی اشیا  اور پانی کے ڈرم اور کین کا انتظام کرنا بھی ناگزیر ہے۔ رینجرز اشیائے ضروریہ کا بندوبست اپنے طور پر بھی کرسکتی ہے، آخر ان بے چاروں کا کیا قصور ہے؟ ایک طرف تو ملک و قوم کے دشمنوں نے ان کی زیست کو اذیت سے ہمکنار کیا ہے تو دوسری طرف ہر دوسرے روز ہونے والے آپریشنوں نے مشکلات کا شکار کیا ہے۔ تکلیف دہ امر یہ بھی ہے کہ شہر میں پولیس اور رینجرز دندناتی پھر رہی ہے لیکن بھتے کی پرچیاں تاجروں کو اسی طرح مل رہی ہیں، اغوا برائے تاوان اور معصوم بچیوں کی عصمت دری کا گھناؤنا کھیل بھی جاری ہے، گویا فورسز کا کوئی ڈر نہیں، گرفتار ہونے اور جیل جانے کا بھی خوف نہیں چونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے آقاؤں کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکے گا۔ وہ جس عزت کے ساتھ  گرفتار کیے جائیں گے اسی عزت و وقار کے ساتھ بری کردیے جائیں گے۔

ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں درندوں کے لیے نہ صرف سزائے موت ہے بلکہ اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے اور یہ خبریں آئے دن اخبار کی زینت بھی بنتی ہیں۔ مجرم کی پشت پناہی تو کسی بھی ملک میں نہیں کی جاتی ہے دوسرے معنوں میں ہم یہ کہنے کے لیے حق بجانب ہیں کہ غیر ملکوں میں اسلام ہے ہمارے ملک میں نہیں، جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا، اس کی مثال بالکل اسی طرح ہے کہ کسی شخص کا نام اسلامی ہو اور وہ ارکان اسلام کی پابندی نہ کرے تو وہ مسلمان تو نہیں رہا اور آج ہمارے معاشرے میں نام کے مسلمانوں کی کمی نہیں ہے۔ بے شمار لوگ تو ایسے ہیں جو صرف ’’توبہ‘‘ کا آسرا رکھتے ہیں اور دھڑا دھڑ گناہ اور گناہ کبیرہ میں ملوث ہوتے ہیں، توبہ کرنے کے مقصد سے ناواقف رہتے ہیں، ایک تائب انسان کا توبہ کرنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ آیندہ یہ گناہ نہیں کرے گا تب تو توبہ قبول ہوگی ورنہ نہیں۔ بعض گناہ کبیرہ ایسے ہیں جو اﷲ کے نزدیک ناقابل معافی ہیں جیسے ’’قتل‘‘ کو ہی لے لیجیے، قاتل کی بخشش نہیں ہے وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

صرف حصول دولت کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنالینا اور اپنی عاقبت کو بھلا دینا دانشمندی نہیں، دولت کے پجاریوں کو اس بات سے ہی عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ ان کے بزرگوں کا رشتے داروں اور دوستوں کا کیا انجام ہوا؟ دو گز کی قبر کی جگہ بھی میسر آگئی تو بڑی بات ورنہ آج کے دور میں تو قبریں بھی نصیب نہیں، جسم کے اعضا کا ہی پتہ نہیں چلتا ہے کہ کہاں ہاتھ ہے اور کہاں پیر، اور اگر مل بھی گیا تو یہ پتہ نہیں چلتا کہ کس کا ہے؟ اس کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاتا ہے تاکہ شناخت ہوسکے۔ انسان کی تخلیق اﷲ کی بہت بڑی اور عظیم ترین کاریگری ہے، ورنہ تو انسان کی پہچان بھی نہیں ہوسکتی کہ جسمانی سیلوں میں اﷲ نے کیا کیا نشانیاں پنہاں کردی ہیں اور اس کی بدولت اپنے پرایوں کی لاشیں اور اعضائے جسمانی کو اکٹھا کرکے تدفین کی جاتی ہے۔اسلام میں قتل کے بدلے قتل ہے، اللہ تعالیٰ نے مقتولوں کے بدلے کو فرض کردیا ہے اس طرح کہ آزاد کے بدلے آزاد،غلام یعنی قاتل جس طبقے سے ہو اسے قتل کیا جائے۔ پھر اگر قاتل کو اس کے ورثا (مقتول) کی طرف سے معاف کردیا جائے تو چاہیے دستور کے مطابق خون بہا طلب کیا جائے اور اسے خوش خلقی سے ادا کیا جائے اور یہ اﷲ کی طرف سے رحمت اور سہولت ہے۔سابق صدر نے بالکل درست فرمایا ہے کہ حکومت پچھلے ادوار کے ہر ظلم کا اعادہ کر رہی ہے بلکہ بے بس لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی بھی کی جارہی ہے۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی کہ لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں جو سازو سامان 6-5 ہزار میں آتا تھا وہی گھریلو استعمال اور کھانے پینے کی چیزیں 10 سے 15 ہزار میں فروخت ہورہی ہیں۔ ساتھ میں ہر چیز پر ٹیکس۔ یہ سراسر ظلم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔