عید پردیس کی

شیریں حیدر  ہفتہ 19 اکتوبر 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’الارم کی آواز پرمیری آنکھ کھلی…میں نے کروٹ بدل کر فون اٹھا کر الارم بند کیا، وقت دیکھا، مندی مندی آنکھوں سے دیکھا، کئی پیغامات تھے، انھیں وہ حسب معمول ملازمت کے لیے جاتے سمے ٹرین میں بیٹھے ہوئے پڑھنے کا ارادہ کر کے میں اٹھا، بستر سمیٹا، دانت صاف کرنے کے دوران میں نے چائے کی کیتلی چولہے پر دھری اور ٹوسٹر میں چار سلائس سینکنے کو رکھ کر میں نے غسل کر کے جلدی جلدی ہر روز کی طرح گھسی پٹی جینز چڑھائی اور ناشتہ جلدی جلدی حلق میں انڈیل کر گھر سے روانہ ہوا۔ دل میں ہر روز کی طرح خیالات کا ایک مجمع تھا اور دماغ میں پریشانیاں، جن میں سے زیادہ کا تعلق میرے گھر والوں سے تھا جن کے حالات کو بدلنے کی خاطر میں پردیسی ہوا تھا۔

عمر بھر محنت اور مشقت کرنے والے باپ کا خیال آیا … اس عمر میں اس کو میں سکھ نہ دیتا تو اور کون دیتا، تین بیٹیوں کے جوان ہوتے وجود اور اس کا کھانسی کے ساتھ خون تھوکتا ہوا ناتواں وجود… سادہ سی میری اماں جسے ہمہ وقت اس بات کی فکر رہا کرتی تھی کہ ایک دن کا کھانا کھا کر اگلے دن کھانا بھی نصیب ہو گا کہ نہیں۔ انھوں نے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر بہنوں کو کم مگر مجھے اتنی تعلیم دلوا دی تھی کہ میں ان سب کی ذمے داریوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جاؤں، اس خواہش کی تکمیل میں ماں کے زیورات بھی ایک ایک کر کے بک گئے تھے مگر میں سوچتا تھا کہ کسی قابل ہو جاؤں گا تو ماں کا ہر احسان لوٹا دوں گا… یہ جانے بغیر کہ کوئی اولاد کبھی اپنے ماں باپ کا احسان لوٹانے کے قابل نہیں ہوتی۔

اپنی محنت سے حاصل کی گئی ڈگری کو لے کر میں نے سو در کھٹکھٹائے مگر اندازہ ہوا کہ جس ڈگری کو سفارش کی پشت پناہی نہ ہو اس کی وقعت کاغذ کے ایک حقیر سے ٹکڑے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں… ایک دن پرانے اخبار کی طرح اس سے لفافے تک نہیں بنائے جا سکتے۔ میں دیار غیر میں ہوں، یہاں تک کیسے پہنچا اور کیا کیا اس کے لیے بکا، جو میں نے چند برسوں میں دن رات مشقت اور مزدوری کر کے کسی نہ کسی طرح لوٹا دیا ہے… ابھی بہنوں کی شادیوں کا فریضہ ہے، ماں اور باپ کے کئی خواب ہیں جن کی تکمیل کرنا ہے، ان میں سے کئی خواب میرے حوالے سے ہیں، مگر اپنے حوالے سے دیکھے جانے والے خوابوں کی تکمیل سے پہلے مجھے ان کو وہ چھت دینی ہے جو مجھے باہر بھجوانے کے لیے ان سے چھن گئی تھی۔

یہاں میں کبھی کبھار پرانے اخبارات پڑھتا ہوں، جب کبھی غم روزگار سے فرصت ملے یا جو کبھی دیس کی گلیوں کی یاد ستائے۔ آپ کے کالم بھی پڑھتا ہوں آپی، ان میں آپ اکثر آپ لکھتی ہیں کہ ملک سے نوجوان کتنی تعداد میں باہر چلے گئے ہیں اور جا رہے ہیں، کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ان میں سے کتنے شوقین ہیں جنھیں باہر کے ملکوں کی چکا چوند بلاتی ہے، کتنے ایسے ہیں جن کے والدین کو اس بات کا شوق ہے کہ ان کے بچے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھیں تو وہ فخر سے اپنے حلقہء احباب میں یہ بتا سکیں کہ ان کا بیٹا یا بیٹی باہر پڑھتے ہیں… ہمارے جیسا طبقہ تو مجبوریوں کی ایک ایسی زنجیر میں بندھا ہوا ہے کہ ملک چھوڑے بنا چارہ نہیں ہوتا۔ ہماری جڑیں زمین کے اندر کتنی بھی گہری کیوں نہ ہوں، ہمیں اس سے ناتا توڑ کر آنا پڑتا ہے، اب ہمیں ملک کی ان گلیوں میں پڑے کوڑے کے ڈھیروں سے بھی محبت محسوس ہوتی ہے جو ہمیں وہاں رہتے ہوئے برے لگتے ہیں۔‘‘

یہ ای میل مجھے امریکا سے مجاہد نامی نوجوان نے بھیجی ہے، میں نے اسے کچھ مختصر کر کے، کالم کی شکل دی ہے آپ بھی اس کی مجبوریوں کو پڑھیں اور دیکھیں کہ ملک سے جانے والے اس طبقے کے نوجوانوں کا طرز زندگی کیا ہے۔

’’ہاں تو آپی میں بتا رہا تھا کہ میں گھر سے نکلا، میں نے اپنے دھونے والے کپڑے عمارت کے تہہ خانے میں ایک الماری میں رکھے جس کے باہر میرا نام لکھا تھا، میں کام سے واپسی پر آؤں گا تو نیچے ہی ان کپڑوں کو دھو کر پھر اپنے فلیٹ میں جاؤں گا، کیونکہ ایک دفعہ فلیٹ میں لوٹ جاؤ تو پھر نکلنے کو دل نہیں چاہتا۔ جونہی میں ٹرین میں بیٹھا، میں نے حسب عادت اپنا فون اپنے سامنے کیا اور اس پر پیغامات کھولے۔ ’’عید مبارک ہو بھائی! ابا اور اماں بھی آپ کو دلی عید مبارک کہہ رہے ہیں…‘‘ چھوٹی بہن کا پیغام تھا، ’’میں نے آپ کو عید کی کچھ تصویریں بھجوائی ہیں، جب وقت ملے تو دیکھیں اور ہمیں بھی بتائیں کہ آپ کی عید کیسی گزری، اماں پوچھ رہی ہیں کہ عید کی نماز پڑھنے گئے تھے آپ؟‘‘ میں نے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر اپنی آنکھیں مسل دیں، ان میں کون ایسا تھا جسے میری آنکھوں میں امڈ آنے والے سیلاب کا باعث معلوم ہوتا۔

میں نے فون پر ہی تصویریں کھولیں اور دیکھنا شروع کر دیں… ابا، اماں اور بہنوں کے شاد چہرے دیکھ کر مجھے اپنے اندر کا دکھ مدہم پڑتا دکھائی دینے لگا، میں نے جواب میں بہن کو عید مبارک کا پیغام بھیجا۔ بہنوں کے ہاتھوں پر مہندی کا گہرا رنگ اور ان کی چوڑیوں کے رنگوں کی ساری تاب ان کے چہروں پر منعکس تھی۔ ان کے لال روپہلے آنچل دیکھ کر میں مسرور ہو گیا، ان ہی کی خوشیوں کی خاطر تو میں یہ جوگ جیسی زندگی گزار رہا تھا۔ میں نے اپنی گھسی ہوئی پتلون کو دیکھا، جیکٹ کو اتنے ہی سال ہو گئے تھے جتنے سال مجھے دیار غیر میں آئے ہوئے ہو گئے تھے۔ عید مبارک لکھتے وقت لگا کہ جیسے کوئی انوکھی سی بات لکھ رہا تھا… عید مبارک… عید ہوتی کیا ہے، اب تو یہ بھی بھول چلا ہے۔

آنکھیں موند کر میں کرب کے کئی دریا عبور کر گیا تھا، وہ کرب جو ان یادوں کے ساتھ منسلک تھا، وہ کرب جو پردیس کی ٹھنڈی صبحوں اور شاموں میں ایک عجیب سی اجنبیت کا احساس دیتا ہے۔ یہاں ماں کی گود کی نرمی اور گرمی ہے نہ باپ کا شفقت بھرا ہاتھ، جو اولاد کے چہرے پر غم کی ہلکی سی رمق بھی نہیں دیکھ سکتا، بہنوں کی معصوم شرارتیں ہیں نہ ان کے چھوٹے چھوٹے مطالبات۔ میرا دل چاہا کہ ٹرین نہ ہو… میں کہیں کسی بیابان میں کھڑا ہوں، جہاں میں کم از کم اپنی تنہائی کو رولتے ہوئے دھاڑیں مار مار کر رو سکوں … ماں کو فون کروں اور اسے بتاؤں کہ ماں تیرے لال کو تو یہ بھی علم نہ تھا کہ آج عید تھی، غم روزگار نے اسے دنیا کی ہر خوشی سے دور کر دیا ہے۔

تصویریں دیکھنا دو بھر ہو گیا کہ آنکھیں بالکل دھندلا گئی تھیں… میرا اسٹیشن آ گیا تھا، میں ٹرین سے اترا، ٹیلی فون کو بند کر کے جیب میں رکھا اور جیب میں موجود رقم نکال کر گنی۔ اس ہفتے کی تنخواہ ملنے میں تین دن باقی ہیں… شام کو کپڑے دھونے کے لیے جن سکوں کی ضرورت تھی انھیں علیحدہ کیا، دوپہر کو کافی کا ایک کپ… رات کے کھانے کے لیے… اگلے دو دن… گن کر رقم علیحدہ کی، کیا اس باقی ماندہ رقم سے میں گھر فون کر سکوں گا؟

’’مجاہد یار تجھے پتا ہے آج بقر عید ہے؟‘‘ ایک بے تکلف دوست کا ٹیلی فون اس وقت آیا جب میں کام سے فارغ ہو کر کافی کا ایک کپ لے کر بیٹھا تھا… ’’ہاں پتا چلا ہے…‘‘ میں نے دل کی کسک کو دل ہی میں دبا کر کہا تھا۔

’’کیا پروگرام ہے پھر… ہو جائے کوئی کھانا وانا آج رات کو…‘‘ اس کی طرف سے تجویز آئی۔

’’ہاں ہاں …‘‘ کہتے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ میری جیب میں تو چند سکے بھی مشکل سے کال کرنے کو بچے تھے… ’’دیکھتا ہوں یار!‘‘ اس کی طرف سے پرزور اصرارہوا تو میں مشکل میں پڑ گیا۔ کافی کا کپ ختم کیا، مجھے اپنے منیجر سے بات کرنا تھی کہ کوئی اوور ٹائم مل جاتا تو، اس روز گھر پر کال ملا کر بات کرنا تھی، اس سے یہ ہونا تھا کہ تیسرے دن مجھے ٹرین کا پاس خریدنے کے لیے بھی رقم کم پڑتی۔ دوست کو میں نے انکار کر دیا تھا، ہمیں تو کام کام اور بس کام کرنا ہے… تا کہ ہمارے گھر والے آرام کر سکیں۔ ہماری لیے کیا عید اور کیا تہوار، ہر دن ایک جیسا ہے، عید کا دن بھی۔ میں نے آنکھوں میں امڈنے والے آنسوؤں کو بہنے دیا، اب کوئی مجھے دیکھنے والا اور پوچھنے والا نہیں… ’’چل میاں مجاہد! چل جہاد کر، تیری زندگی تو پوری جہاد کی طرح ہے… تجھے اپنی تنہائی اور اپنوں سے دوری کے عفریت سے لڑ لڑ کر ایک ایک پل گزارنا ہے!!‘‘

میں نے ای میل پڑھ کر مکمل کی، میری اپنی آنکھیں بھی مجاہد کے لیے نم ہو گئی تھیں… ایک مجاہد نہیں، ہمارے ملک سے لاکھوں کی تعداد میں ایسے مجاہد ہیں جو اپنوں سے دور ہیں اور اپنی اور اپنے گھر والوں کے لیے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں… ان سب کو بیتی ہوئی عید مبارک ہو!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔