لوح ایام

رفیع الزمان زبیری  ہفتہ 19 اکتوبر 2013

مختار مسعود آر سی ڈی کے سیکریٹری جنرل تھے، تہران میں قیام تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران اپنی تاریخ کے ایک بڑے انقلاب سے گزر رہا تھا۔ حالات بہت پرآشوب تھے۔ دفتر میں ملاقاتی بہت کم آتے ، ایسے میں ایک دن انھیں بتایا گیا کہ مینو بھنڈارا ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ مینوکے والدین سے مختار مسعود کی کچھ شناسائی تھی، وہ انھیں لینے کے لیے دفتر کے دروازے تک گئے۔ مینو بھنڈارا ایک کامیاب تاجر اور کارخانہ دار تھے، کاروبار کے سلسلے میں تہران آئے ہوئے تھے۔

اپنی کتاب ’’لوح ایام‘‘ میں جو درحقیقت انقلاب اسلامی ایران کی آنکھوں دیکھی کہانی ہے، مختار مسعود لکھتے ہیں:

’’بھنڈارا نے کہا، میں پاکستان اور ایران کی باہمی تجارت کے فروغ اور پاکستان کی برآمد میں اضافے کی ایک اہم تجویز لے کر آیا ہوں۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے آر سی ڈی کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ کچھ عرصے سے میں اپنے کارخانہ شراب کی بنی ہوئی بیئر ایران برآمد کر رہا ہوں۔ سڑک کے راستے بھیجتا ہوں اور مشہد میں فروخت کرتا ہوں۔ اس علاقے کے لوگوں کو اس بیئر کا ذائقہ پسند آیا اس لیے کھپت میں بہت اضافہ ہوگیا۔ ولایتی شراب بیچنے اور مقامی آب جو بنانیوالوں کو تشویش ہوئی۔ دونوں نے مل کر وزارت بازرگانی سے کسٹم ڈیوٹی میں تبدیل کرادی ہے تاکہ میرے کارخانے کا مال آنا بند ہوجائے۔ پہلے کسٹم ڈیوٹی قیمت پر لگتی تھی، اب وزن پر لگائی جاتی ہے۔  بیئر شیشے کی بوتل میں بھری جاتی ہے جب کہ ولایتی اور ایرانی بیئر ٹین کے ہلکے پھلکے ڈبے میں بند ہوتی ہے۔ شراب کا وزن ایک ہوتا ہے مگر ظرف کے وزن کے فرق کی وجہ سے ہماری شراب پر دگنا چوگنا محصول پڑجاتا ہے۔ جب سے یہ نیا قاعدہ رائج ہوا ہے پاکستان سے ایران کے لیے بیئر کی برآمد بند ہوگئی ہے۔ ایران کی وزارت بازرگانی سے قاعدہ میں یہ تبدیلی کرانی ہے کہ کسٹم ڈیوٹی میں ظرف کے وزن کی کٹوتی دی جائے، محصول خالص شراب پر لیا جائے۔ یہ بڑا اہم اور ضروری کام ہے۔

پاکستان کی برآمدات اور زرمبادلہ میں اضافے کا مسئلہ ہے۔ آپ تہران آنے سے پہلے پاکستان کی وزارت تجارت کے سیکریٹری تھے اس لیے ایران کی وزارت بازرگانی میں آپ کے تعلقات سے کام چل سکتا ہے۔ شنید تو یہی ہے‘‘۔ مختار مسعود یہ سن کر حیران رہ گئے۔ بھنڈارا سے کہنے لگے: ’’آپ نے دو باتوں پر غور کیا ہے؟ پہلی تو یہ کہ تبریز کے بلوے میں سب سے زیادہ زور شراب خانے تباہ کرنے پر تھا۔ جب وہ سارے کے سارے جلا دیے گئے تو ہجوم نے اپنا باقی غصہ جدید طرز کے ہیئر کٹنگ سیلون جلاکر اتارا۔ جہاں حجام کی دکان تک محفوظ نہ ہو وہاں آپ کی شراب کے گودام کیسے سلامت رہیں گے؟ حالات اگر ایسے ہی رہے تو کسی دن تہران کی شمس ہرئیوری کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ آج کل رمضان کا مہینہ ہے‘‘۔ مختار مسعود فارسی داں ہیں انھوں نے مینو بھنڈارا کو قاآنی کے ایک قصیدے کے مناسب حال اشعار سنانے چاہے۔ مگر مینو اگرچہ پارسی ہونے کے ناطے ایرانی النسل تھا لیکن فارسی سے نابلد تھا، اس لیے مختار مسعود نے ان اشعار کا ترجمہ سنانے پر اکتفا کیا جو شبلی نعمانی نے کیا تھا۔ شاعر اپنے غلام کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ رمضان کا مہینہ آگیا ہے۔ میری تسبیح اور جا نماز اٹھالا، مجلس میں عیش کے جو سامان ہیں وہ اٹھا لے جا۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی مولوی آجائے۔ اس مہینے میں شراب پینی ناجائز ہے۔

بھنڈارا نے جواب دیا ’’میں ان دونوں باتوں پر غور کرچکا ہوں۔ شراب بنانے، بیچنے، برآمد کرنے اور زرمبادلہ کمانے کے بعد میری کوئی ذمے داری باقی نہیں رہ جاتی۔ درآمد کرنے والا جانے اور اس کا کام۔ رسد اور طلب کا اصول آپ جانتے ہوں گے۔ شراب کی جتنی دکانیں جلائی جائیں گی اور جتنے کارخانے اور گودام تباہ کیے جائیں گے اسی قدر شراب کی تجارت میں منافع بڑھتا جائے گا۔ تبریز میں بلوے کے بعد یہی ہوا۔ تہران اور مشہد میں بھی یہی ہوگا۔ رہی آپ کی دوسری بات تو اس کا جواب یہ ہے کہ شعر گھڑنے اور تجارت کرنے میں بڑا فرق ہے۔ اگر رمضان میں کچھ لوگ روزہ کھولنے کے لیے بیئر پسند کرتے ہیں تو کیا انھیں روکنے کے لیے قاآنی اپنی قبر سے اٹھ کر آئے گا؟‘‘

ان ہی دنوں کی بات ہے صدر ضیا الحق اپنے چار وزیروں کے ساتھ تہران پہنچے۔ ہوائی اڈے پر ان کو لینے کے لیے ایران کے شاہی محکمہ تشریفات کا ایک نوجوان آیا ہوا تھا، استقبالی صف میں کابینہ کا کوئی وزیر نہیں تھا۔ مختار مسعود نے جو صدر پاکستان کی آمد پر ہوائی اڈے پر موجود تھے وزیر خزانہ غلام اسحق سے علیحدگی میں پوچھا۔ آپ لوگ کیا کرنے اور کیا لینے آئے ہیں؟ غلام اسحق نے کہا کہ ہم مذاکرات کے لیے آئے ہیں۔ مختار مسعود نے کہا کہ آپ لوگ کس سے مذاکرات کریں گے، یہاں نہ کسی کو اس کی فرصت ہے اور نہ اختیار۔ غلام اسحق خاں نے یہ بات آغا شاہی، وزیر خارجہ کو بتائی۔ مختار مسعود لکھتے ہیں ’’آغا شاہی مضطرب ہوکر میرے پاس آئے اور شکایت بھرے لہجے میں بولے، یہ آپ نے غلام اسحق سے کیا کہہ دیا۔ میں نے کہا، کوئی خاص بات تو نہیں کی۔ ہاں اگر آپ وزارتی سطح پر باضابطہ مذاکرات کے لیے آئے ہیں تو وہ شاید ممکن نہ ہو۔ آر سی ڈی میں میرا واسطہ چھ سات وزارتوں کے ساتھ رہتا ہے۔ وہاں روزمرہ کے کام بند ہیں۔ ایسے میں بین الاقوامی مذاکرات کون کرے گا۔

اتنے میں شاہی تشریفات کے نئے نوجوان نائب نے آکر میری بلکہ سب کی مشکل حل کردی۔ اس نے اعلان کیا کہ سارا پروگرام تبدیل کردیا گیا ہے۔ تہران میں قیام بھی صرف رات بھر کا ہوگا۔ صدر پاکستان اور ان کے چند ساتھی مہمان خانے میں ٹھہریں گے باقی سب لوگ ہلٹن ہوٹل میں ٹھہرائے جائیں گے۔ مہمان ہوٹل سے باہر نہ جائیں کیونکہ رات نو بجے سے کرفیو لگ جائے گا۔ صدر اور وزراء رات کا کھانا شہنشاہ کے ساتھ کھائیں گے۔ محل میں صرف کھانا ہے۔ گفت و شنید کا کوئی باضابطہ اجلاس نہیں ہے۔ کل صبح ایک خصوصی پرواز آپ لوگوں کو مشہد لے جائے گی۔ زیارت کے بعد آپ وہاں سے براہ راست اسلام آباد کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔

اس اعلان کے بعد بہت سے چہرے لٹک گئے اور ان پر جمی ہوئی گرد اور زیادہ نمایاں ہوگئی‘‘۔تہران میں جب حالات تیزی سے بگڑنے لگے اور یوں لگا کہ ملک میں اب خانہ جنگی کسی وقت بھی شروع ہوسکتی ہے تو مختار مسعود نے اپنی اہلیہ عذرا سے کہا کہ جب ایسی صورت حال ہو کہ حکومت پاکستان کو سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے انخلا کا کوئی خصوصی انتظام کرنا پڑے، تو تم صاحبزادے اور صاحب زادی، دونوں بچوں کو لے کر چلی جانا۔ میں کچھ دیر اور یہاں ٹھہرنے کی کوشش کروں گا۔ اس ناگہانی سفر کے لیے تین دستی تھیلے تیار کرلو جنھیں ہاتھ میں اٹھاکر چلنا ممکن ہو۔ عذرا نے کہا ’’آپ فکر نہ کریں۔ اگر یہاں سے اچانک رخصت ہونے کی نوبت آئی تو ہم تینوں جس حالت میں ہوں گے اسی میں چل دیں گے۔ ہینڈ بیگ میں رکھنے کے لیے میرے پاس ڈالر ہیں نہ زیور۔ تنخواہ آپ کو آر سی ڈی کے لندن اکاؤنٹ سے ملتی ہے۔ کپڑے لتے کی گٹھڑی سر پر اور جوتیاں بغل میں دباکر بھاگنے کی میں قائل نہیں۔ صرف ایک چیز ہمراہ لے جانا چاہوں گی اور وہ ہاتھ میں آجائے گی۔ یہ جو آپ نے اپنے معمول کے خلاف آغاز انقلاب سے روزنامچہ لکھنا شروع کیا ہوا ہے اس کا مسودہ جاتے ہوئے مجھے دے دیجیے گا‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔