دہشت کی فضاء میں پنپتی تحفظ کی صنعت

سید بابر علی  اتوار 20 اکتوبر 2013
اسلحہ ڈیلرز نے ’’قانونی‘‘ طور پر فروخت کئے گئے اسلحے میں اضافے کے حوالے سے بات کرنے سے اجتناب کیا۔ فوٹو : فائل

اسلحہ ڈیلرز نے ’’قانونی‘‘ طور پر فروخت کئے گئے اسلحے میں اضافے کے حوالے سے بات کرنے سے اجتناب کیا۔ فوٹو : فائل

 پاکستان میں امن وامان کی صورت حال کبھی مثالی نہیں رہی، خاص طور پر گذشتہ کچھ عشروں کے دوران عوام وخواص کو جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے سنگین مسائل کا سامنا ہے، مگر لگ بھگ ایک دہائی سے ہمارا ملک جس خوف ناک بدامنی سے دوچار ہے اور پاکستانی جس طرح عدم تحفظ کا شکار ہیں، یہ حالات پہلے کبھی نہ تھے۔

کہیں دہشت گرد اور خود کش بم بار جانوں سے کھیل رہے ہیں تو کہیں ٹارگٹ کلر لوگوں کا خون بہارہے ہیں، کسی شہر میں بھتاخور گینگ شہریوں پر دہشت طاری کیے ہوئے ہیں تو کسی علاقے میں اغواکار، ڈاکو اور راہ زن لوگوں کی زندگی اور اموال پر بے دھڑک ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔

اس صورت حال میں ملک کے سب سے بڑے شہر اور صنعت وتجارت کا مرکز کراچی ہر قسم کے خوف کے سائے میں جی رہا ہے۔ تاہم خوف کی فضا نے اس شہر کی صنعتی وتجارتی زندگی میں ایک نئی صنعت کو فروغ دیا ہے اور یہ ہے ’’تحفظ فراہم کرنے کی صنعت‘‘، جس کا ایک حصہ بُلٹ پروف گاڑیاںہیں، اس کے ساتھ سیکیوریٹی کمپنیاں اور مختلف حفاظتی آلات فراہم کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔

ایک وقت تھا جب پاکستان اور خصوصاً عروس البلاد کراچی امن کا گہوارہ کہلاتا تھا۔ یہ وسیع القلب شہر پورے ملک کے لیے جائے امان اور وسیلۂ روزگار تھا۔

لیکن ایک دہائی قبل دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ میں فریق نہ ہونے کے باوجود پاکستان کو سب سے زیادہ دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا، آئے دن ہونے والی تخریب کاری کی وارداتوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو موت سے ہم کنار اور لاکھوں پاکستانیوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا، دوسری جانب ’’منی پاکستان‘‘ کہلائے جانے والے شہر قائد کی رگوں میں سرایت کرنے والے تعصب کے زہر نے کراچی کو لسانی، گروہی اور فرقہ وارانہ فسادات کا مرکز بنا دیا۔ اندھیرے عروس البلاد کراچی کا مقدر بن گئے۔

لسانی اور گروہی تصادم کے نتیجے میں ہونے والے خون خرابے نے عروس البلاد کراچی کو خون میں نہلا دیا جو کبھی پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے جائے امان سمجھا جاتا تھا، جو کبھی اپنے دامن میں بلا رنگ و نسل سب کو سمو لیتا تھا۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتا خوری، اغوا برائے تاوان اور ڈاکا زنی کی مستقل وارداتوں نے کراچی کے کاروباری طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا متعدد صنعت کار سرمایہ کار اپنا کاروبار اور سرمایہ سمیٹ کر ملک کے دیگر شہروں یا بیرون ملک منتقل ہوگئے۔

صنعتوں اور کاروبار کی منتقلی سیِ کراچی کے مزدور اور متوسط طبقے کو بے روزگاری کے عفریت نے جکڑلیا اور سماجی مشکلات کا شکار مزدور معاشی مشکلات میں بھی مبتلا ہوگئے، لیکن امن و امان کی خراب صورت حال نے پاکستان خصوصاً کراچی میں لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کیے۔ کراچی میں سیکیوریٹی کمپنیوں، آرمرڈ گاڑیاں بنانے والے مقامی اداروں، اسلحہ ڈیلرز اور حفاظتی آلات فراہم کرنے والی کمپنیوں نے ہنرمند اور غیرہنرمند افراد کے لیے روزگار کے وسیع مواقع فراہم کیے۔ امن و امان کی مخدوش صورت حال نے گذشتہ چند سالوں میں کراچی میں ایک نئے کاروبار کو بھی فروغ دیا، اور یہ کاروبار ہے آرمرڈ گاڑیوں کو درآمد کرنے کے بجائے پاکستان میں ہی موجود گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانا۔ پاکستان میں اس وقت چھے ملکی اور غیرملکی کمپنیاں یہ کام کر رہی ہیں، جن میں تین کمپنیاں سر فہرست ہیں۔

چند سال قبل تک پاکستان میں آرمرڈ(بلٹ پروف) گاڑی استعمال کرنا ’’عیاشی‘‘ سمجھی جاتی تھی، کیوں کہ باہر سے اس گاڑی کو منگوانا بہت منہگا پڑتا تھا اور ان گاڑیوں کی درآمد کے لیے حکومت سے خصوصی منظوری لینی پڑتی تھی۔ پاکستان میں لگژری گاڑیاں درآمد کرنے والے ایک ادارے کے مطابق ایک بلٹ پروف ’’مرسیڈیز‘‘ کار کی قیمت ساڑھے تین کروڑ سے گیارہ کروڑ روپے تک ہے۔ یہ گاڑیاں زیادہ تر گورنمنٹ سیکٹر کے لیے ہی درآمد کی جاتی ہے، جب کہ گذشتہ سال صرف ایک آرمڈ ’’مرسیڈیز‘‘ نجی سیکٹر میں فروخت کی گئی تھی۔ بلٹ پروف ’’رینج روور‘‘ کی قیمت بھی تین سے چھے کروڑ روپے کے درمیان ہے اور ان منہگی گاڑیوں کی خریداری اتنی آسان بھی نہیں ہے، لیکن حکومت کی جانب سے ملکی اور غیرملکی کمپنیوں کو مقامی سطح پر گاڑیاں آرمرڈ کرنے کی منظوری ملنے کے بعد ان کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی۔ پاکستان میں آرمرنگ کی سہولیات نے صنعت کاروں اور سیاست دانوں کو کم خرچ میں آرمڈ گاڑی میں سفر کرنے کی سہولت فراہم کردی ہے اور وہ اب امن و امان کی مخدوش صورت حال میں بھی بلا خوف و خطر سفر کر سکتے ہیں۔

رواں سال پاکستان میں اپنا پروڈکشن پلانٹ شروع کرنے والی کینیڈا کی بین الاقوامی آرمرنگ کمپنی کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر خالد یوسف کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور مقامی سطح پر کم قیمت پر گاڑیوں کی آرمرنگ نے ملک کے طبقہ اشرافیہ میں آرمرڈ گاڑیوں کی طلب میں کافی اضافہ کردیا ہے۔ اس سے قبل اعلیٰ حکام اور چند سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہی آرمرڈ کاروں میں سفر کرتے تھے، لیکن چند برسوں سے پاکستان خصوصاً کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہت خراب ہو گئی ہے اور جو لوگ افورڈ کرسکتے ہیں وہ اپنی گاڑیوں کو بلٹ پروف کروا رہے ہیں۔

خالد یوسف کا کہنا ہے کہ ہمارا بزنس توقع سے تین گنا زیادہ ہو چکا ہے اور اب ہم ہر ماہ تقریباً15گاڑیاں آرمرڈ کر رہے ہیں، اب تک ہم 70گاڑیوں کو آرمرڈ کر چکے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر کسٹمرزکا تعلق کراچی اور چند کا تعلق لاہور اور اسلام آباد سے ہے۔ اور ہمارا بزنس بڑھنے سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی بڑھے ہیں، جب کہ ٹیکس کی مد میں حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانے کے طریقۂ کار کے بارے میں ایک اور کمپنی کے آرمرنگ ڈویژن کے ڈائریکٹر عمرخان کا کہنا ہے کہ امن و امان کی مخدوش صورت حال نے گاڑیوں کو بلٹ پروف کرانے والے افراد کی تعداد میں کافی اضافہ کردیا ہے اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ 2011 میں ہم نے40گاڑیوں کی آرمرنگ کی تھی، 2012میں ان کی تعداد میں 50 فی صد اضافہ ہو گیا تھا اور رواں سال کے اختتام تک ہم تقریباً سو گاڑیوں کو بلٹ پروف بنا چکے ہوں گے۔

گاڑی کی آرمرنگ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اس کام کے لیے سب سے پہلے وزارت داخلہ سے این او سی درکار ہوتا ہے، گاڑی کو بلٹ پروف بنانے کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ گاڑی کم از کم 1600 سی سی اور دس سال سے پرانی نہ ہو اور انجن کی کنڈیشن اچھی ہو۔ وزارت داخلہ کے این او سی کی تصدیق کے بعد گاڑی کے دروازے، سیٹیں، ڈیش بورڈ اور شیشے اتار کر صرف انجن اور ڈھانچا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں گاڑی کے فرش، دروازوں، پلرز اور اندرونی حصوں کی پیمائش کرنے کے بعد اسٹیل بلیسٹک شیٹ کو لیزر کٹنگ کے ذریعے مطلوبہ سائز میں کاٹنے کے بعد ویلڈ کر دیا جاتا ہے۔ ویلڈنگ کے لیے وہ ہی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جو بحری جہازوں کی تعمیر میں استعمال ہوتی ہے، جب کہ اسٹیل پلیٹ اور بلٹ پروف شیشے لگنے کے بعد گاڑی کے دروازے بھی بھاری ہوجاتے ہیں جنہیں سہارا دینے کے لیے زیادہ مضبوط قبضے لگائے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسٹیل کے وزن اور موٹائی کا تعلق آرمرنگ کے اسٹینڈرڈ سے بھی ہو تا ہے، B4لیول کی گاڑی بنانے کے لیے 3ملی میٹر، B5لیول کے لیے4.2ملی میٹر اور B6 لیول سیکیوریٹی کے لیے 6.5ملی میٹر موٹی بیلسٹک اسٹیل کی شیٹ استعمال کی جاتی ہے، جب کہ ونڈ اسکرین، دروازوں، اور پچھلے حصے میں برازیل سے درآمد کیا گیا اے جی پی گلاس لگایا جاتا ہے، اسٹیل شیٹ کی طرح شیشے کے وزن اور موٹائی کا تعلق بھی صارف کے منتخب کردہ سیکیوریٹی لیول کے حساب سے ہوتا ہے،B4 لیول کے لیے 23ملی میٹر، B5لیول کے لیے 32ملی میٹر اور B6 سطح کی سیکیوریٹی کے لیے40ملی میٹر موٹا شیشہ استعمال کیا جا تا ہے، جب کہ کسی بھی گاڑی کی آرمرنگ میں شیشے کا کردار بہت کلیدی ہے اور ہر گاڑی کے لیے شیشہ وزارت داخلہ کے این اوسی پر ہی ملتا ہے، کیوں کہ ایک این او سی پر ایک ہی گاڑی کا بلٹ پروف شیشہ ریلیز ہوتا ہے۔

یہ شیشہ بظاہر عام شیشے جیسا ہی نظر آتا ہے لیکن در حقیقت یہ کئی تہوں پر مشتمل ہوتا ہے گولی اس بلٹ پروف شیشے سے ٹکراکر اوپری سطح کو چیرتی ہوئی درمیان میں موجود ’’پولی کاربونیٹ گلاس میٹریل‘‘ کی تہہ سے ٹکراتی ہے، جو گولی کی توانائی کو اپنے اندر جذب کرکے اگلی تہ تک نہیں پہنچنے دیتی۔ عمر خان کا کہنا ہے کہ گاڑی کو پورا کھول کر اسے اصلی شکل میں اسمبل کرنا بہت ہی نفاست اور محنت طلب کام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آرمرنگ کے بعد گاڑی کے ماڈل اور ساخت کے حساب سے اس کے وزن میں 600سے 13سو کلو گرام تک اضافہ ہوجاتا ہے۔

جس کا براہ راست اثر گاڑی کے سسپنشن اور بریک سسٹم پر بھی پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آرمرڈ کی گئی گاڑی میں باہر سے درآمد کیا گیا سسپنشن اور بریک سسٹم بھی لگایا جاتا ہے، جب کہ ایک گاڑی کو بلٹ پروف بنانے میں 4سے6ہفتے لگتے ہیں اور ایک گاڑی پر آنے والی لاگت 27 سے 32 لاکھ روپے علاوہ ٹیکس ہے، اس وقت ہم ہر ماہ تقریباً 8سے 10 گاڑیاں آرمرڈ کر رہے ہیں۔ گاڑی کو آرمرڈ کرانے والے زیادہ تر افراد کا تعلق کارپوریٹ سیکٹر، ملٹی نیشنل کمپنیوں، سیاست دانوں اور طبقۂ اشرافیہ سے ہیں۔ مشہور سیاسی شخصیات میں ’’شیخ رشید ‘‘ کرولا کار، وزیر اعلیٰ سندھ ’’قائم علی شاہ‘‘ لینڈ کروزر، ’’شرجیل انعام میمن‘‘ لینڈ کروزر،’’مکیش چاؤلہ ‘‘ لینڈ کروزر اور ٹویوٹا ہائی لکس ویگو،’’منظور احمد وسان‘‘ لینڈ کروزر اور رکن سندھ اسمبلی ’’فصیح شاہ‘‘ ٹویوٹا ہائی لکس ویگو کو آرمرڈ کراچکے ہیں۔

گاڑی کو آرمرڈ کرنے کے عمل میں فیول ٹینک، ریڈی ایٹر اور خصوصی طور پر اس کام کے لیے بنائے گئے ’’رن فلیٹ‘‘ ٹائرز لگائے جاتے ہیں۔ ’’رن فلیٹ‘‘ ٹائر کی خاص بات یہ ہے کہ گولی لگنے کے بعد گاڑی کو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تقریباً 35کلومیٹر فاصلے تک لے جایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم B4سے B6 سیکیوریٹی لیول کی گاڑیاں بناتے ہیں، جب کہ صارف کو گاڑی میں استعمال کیے گئے میٹریل کی ایک سال کی وارنٹی اور فری سروس دی جاتی ہے، کیوں کہ آرمرڈ گاڑی اور ایک عام گاڑی کی سروس میں بھی بہت فرق ہوتا ہے، آرمرڈ گاڑی کی سروس میں بریک، سسپنشن، ایئر فلٹر اور آئل فلٹر پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ بلٹ پروف ہونے کے بعد گاڑی کے ایندھن کے خرچ (مائلیج) پر 20 سے25 فی صد تک فرق پڑتا ہے۔ آرمرنگ مکمل ہونے بعد گاڑی کا ’’شاور ٹیسٹ‘‘ کیا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد بارش میں پانی کا رساؤ چیک کرنا ہے۔

دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی لاقانونیت نے سیکیوریٹی ایکوئپمنٹ (حفاظتی آلات) فروخت کرنے والے اداروں کے کاروبار اور ان سے وابستہ افراد کے لیے روزگار کے مواقع میں بھی کافی اضافہ کردیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں ’’بلٹ پروٖف جیکٹس‘‘، ’’واک تھرو گیٹس‘‘، ’’میٹل ڈی ٹیکٹر‘، ’’ایکسپلوزو ڈی ٹیکٹر‘‘،’’بم بلینکٹ‘‘ اور’’لیٹر بم ڈی ٹیکٹر‘‘ فراہم کرنے والی ایک کمپنی کے سی ای او شہباز علی خان کا کہنا ہے کہ دن بہ دن خراب ہوتی ہوئی امن وامان کی صورت حال نے لوگوں میں حفاظتی آلات کے استعمال کا کافی شعور اجاگر کردیا ہے اور ہر گزرتے سال سیکیوریٹی آلات کی فروخت میں40 سے50 فی صد اضافہ ہو رہا ہے اور حفاظتی آلات میں سب سے زیادہ اضافہ ’’کلوز سرکٹ ٹی وی کیمروں‘‘ اور ’’میٹل ڈی ٹیکٹر‘‘ کی فروخت میں ہوا ہے، جس سے تیکنیکی ماہرین کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔

شہباز علی کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی مخدوش صورت حال نے کراچی میں سیکیوریٹی آلات کی فروخت میں کافی اضافہ کردیا ہے اور ہماری مجموعی سیل کا 60 سے 70فی صد حصہ کراچی کا ہے، جب کہ دہشت گردی کے شکار ملک پاکستان میں کچھ نئے حفاظتی آلات بھی متعارف ہوئے ہیں، جن میں ’’بم بلینکٹ‘‘ اور ’’لیٹر بم ڈی ڈیٹیکشن‘‘ شامل ہیں۔ ’’بم بلینکٹ‘‘ کے بارے میں شہباز علی کا کہنا ہے کہ اگر کسی جگہ پر موجود مشکوک بیگ یا کسی اور شے پر بم کی موجودگی کا شبہہ ہو تو اس صورت حال میں بچاؤ کا بہترین راستہ ’’بم بلینکٹ‘‘ ہے، کیوں کہ خصوصی طور پر بنائے گئے اس بلینکٹ کو اگر بم کے اوپر ڈال دیا جائے تو بم پھٹنے کے بعد یہ کمبل تمام ’’دھماکہ خیز مواد‘‘، ’’بیرنگس‘‘، ’’نٹ بولٹ‘‘ اور ’’کیلوں‘‘ کو اپنے اندر جذب کرکے باہر آنے سے روک دیتا ہے۔

دنیا کے کافی ملکوں میں اس ٹیکنالوجی کا کام یابی سے استعمال کیا جا رہا ہے تاہم پاکستان میں ’’بم بلینکٹ‘‘ کے حوالے سے شعور کافی کم ہے جب کہ ’’لیٹر بم ڈیٹیکشن‘‘ بذریعہ ڈاک بھیجے گئے خطوط میں موجود بم شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم ان دونوں نئے آلات کے خریدار فی الوقت غیرملکی سفارت خانے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ ’’میٹل ڈی ٹیکٹر‘‘ کے حوالے سے لوگوں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ ’’میٹل ڈی ٹیکٹر‘‘ بارود کو بھی شناخت کرسکتا ہے، لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے کیوں کہ ’’میٹل ڈی ٹیکٹر‘‘ صرف دھاتی اشیا کو ہی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بارود کی شناخت کے لیے ’’ایکسپلوزو ڈی ٹیکٹر‘‘ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ’’ایکسپلوزو ڈی ٹیکٹر‘‘، ’’اسنیفنگ ٹیکنالوجی‘‘ پر کام کرتا ہے یہ ہوا کو اپنے اندر جذب کر کے دھماکاخیز مواد کی شناخت کرتا ہے۔

تاہم اس کی رینج صرف چند فٹ ہی ہوتی ہے اس کی کارکردگی کا انحصار لوگوں کی تعداد اور موسم پر بھی ہوتا ہے۔ بلٹ پروف جیکٹ کی فروخت کے حوالے سے شہباز علی کا کہنا ہے کہ خراب حالات نے بلٹ پروف جیکٹس کی طلب میں بھی کافی اضافہ کیا ہے لیکن ہم یہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی کو فروخت کرتے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی ان جیکٹس کو خریدنے کی خواہش مند ہوتی ہیں، لیکن وزارت داخلہ سے این او سی کے بعد ہی ہم ’’بلٹ پروف جیکٹ ‘‘ فروخت کر تے ہیں۔لاقانونیت نے کراچی میں سیکیوریٹی کمپنیوں اور اسلحہ ڈیلرز (قانونی) کے کاروبار کو بھی بہت فروغ دیا ہے۔

وزارت داخلہ سندھ کی ویب سائٹ کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں صرف سندھ میں230 سیکیوریٹی کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے گئے۔ وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق2001 میں تین، 2002 میں اسی، 2003 میں پچیس، 2004 میں آٹھ، 2005میں پندرہ، 2006 میں بائیس، 2007 میں چھبیس، 2008 میں چودہ، 2009 میں پچیس، 2010 میں چار اور2011 میں آٹھ کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے گئے، جب کہ حیرت انگیز طور پر2012اور2013میں ایک بھی سیکیوریٹی کمپنی رجسٹرڈ نہیں کی گئی، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 2012 اور2013 میں بھی کئی سیکیوریٹی ایجنسیز رجسٹر کی گئی ہیں۔ حال ہی میں ایک نئی کمپنی کو رجسٹر کیا گیا ہے،دوسری جانب ’’آل پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن‘‘ کے چیئر مین کرنل (ریٹائرڈ) توقیر الاسلام کا کہنا ہے کہ ہماری ایسوسی ایشن کے پاس پاکستان بھر کی تقریباً 500 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے 270 کا تعلق صرف سندھ سے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سیکیوریٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات نے اس کام میں حکومت کو ناکام قرار دے دیا ہے۔ مجبوراً صنعت کاروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، آئل ریفائنریز، سفارت خانے، بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کو سیکیوریٹی ’’خریدنی‘‘ پڑ رہی ہے، جو سیکیوریٹی کمپنیاں فروخت کرتی ہیں، جب کہ اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے لوگوں کو ذاتی حفاظت کے لیے باڈی گارڈز رکھنے پر بھی مجبور کردیا ہے۔

دوسری جانب گلی محلوں میں شروع ہونے والے چوکی داری نظام سے بھی سیکیوریٹی کمپنیوں کے کاروبار میں اضافہ اور لوگوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے سیکیوریٹی کمپنیوں پر عاید کیے جانے والے دس فی صد جنرل سیلزٹیکس نے بہت سی سیکیوریٹی کمپنیوں کو اپنا کاروبار بند کرنے یا ملازمین کو فارغ کرنے پر مجبور کردیا ہے، جس سے یقیناً ایسے ملک میں جہاں روزگار کے مواقع پہلے ہی بہت کم ہیں، بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا، کیوں کہ ہر ادارے کا اپنا ایک مخصوص بجٹ ہوتا ہے اور وہ اس سے تجاوز نہیں کرتے اور اس صورت حال میں وہ گارڈز کی تعداد کم کر دیتے ہیں مثال کے طور پر ایک ادارے نے پندرہ گارڈز کو رکھا ہے تو وہ ان کی تعداد کم کر کے دس یا بارہ کر دیں گے۔ حال ہی میں ایک بڑے ادارے نے ای میل کی ہے کہ آپ ہمارے پاس موجود 120سیکیوریٹی گارڈز کی تعداد گھٹاتے ہوئے80 کردیں۔ 40 لوگوں کا روزگار بچانے کے لیے ہم نے اپنے ریٹ کم کردیے بہ صورتِ دیگر 40 افراد کے گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے۔

کرنل (ر) توقیر کے مطابق کراچی میں بد امنی سے پنجاب میں سیکیوریٹی کمپنیوں کے کاروبار میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی سے بہت سے سرمایہ کار اپنا کاروبار سمیٹ کر پنجاب منتقل ہوگئے ہیں۔

پاکستان اور کراچی میں لاقانونیت نے اسلحہ ڈیلرز کے کاروبار اضافہ اور لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے ہیں اور اس سلسلے میں متعدد اسلحہ ڈیلرز سے ’گذشتہ چند سالوں میں ذاتی حفاظت کے لیے فروخت کیے جانے والے ’’قانونی‘‘ اسلحے کے اعدادوشمار حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے کسی بھی قسم کی بات چیت اور صحیح اعداد و شمار دینے سے گریز کیا۔

ہر شخص کو روزگار کی فراہمی اور امن و امان برقرار رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے، جس میں وہ ناکام نظر آرہی ہے، یہی وجہ ہے کہ وسائل رکھنے والے لوگ خود اپنی حفاظت کا انتظام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، خواہ یہ انتظام بلٹ پروف گاڑیوں کی صورت میں ہو یا پرائیویٹ سیکیوریٹی گارڈز کی شکل میں۔ یوں عملاً عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے شعبے کی ’’نجکاری‘‘ ہو چکی ہے۔ متمول طبقہ تو اپنی حفاظت کا سامان کرلیتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ عام لوگ اپنی حفاظت کے لیے کیا کریں؟

وزارت داخلہ سے این او سی کے حصول کا طریقۂ کار
گاڑی آرمرڈ کرانے کے لیے سب سے پہلے وفاقی وزارت داخلہ کو ایک خط لکھا جاتا ہے، جس میں کمپنی/ذاتی تعارف،گاڑی کا نام، ماڈل، رنگ، انجن نمبر، چیسز نمبر، رجسٹریشن نمبر، استعمال کنندہ کا نام، استعمال کنندہ کا عہدہ اور قومی شناختی کارڈ نمبر تحریر کیا جاتا ہے۔
اس خط کے ساتھ درج ذیل دستاویزات منسلک کی جاتی ہیں۔
گاڑی استعمال کرنے والے کا Resume
اگر کاروبار ہے تو کمپنی کی ’’آرٹیکل ایسو سی ایشن‘‘ اور میمورنڈم کی کاپی
نیشنل ٹیکس سرٹیفکیٹ کی کاپی
کمپنی بروشر (اگر ہو)
سیلز ٹیکس رجسٹریشن کی کاپی
چیمبر آف کامرس کی ممبر شپ کی کاپی
استعمال کنندہ کے قومی شناختی کارڈ کی کاپی
درج بالا دستاویزات منسلک کرنے کے بعد خط کو وزارت داخلہ کے پتے ’’سیکشن آفیسر (سیکیوریٹیI-)، وزارت داخلہ، پاک سیکریٹریٹ، اسلام آباد پر ارسال کردیں، جب کہ اس خط کی ایک کاپی منسٹری آف کامرس کو بھی بھیجی جائے گی۔
این او سی ملنے کے بعد اسے متعلقہ آمرنگ کمپنی میں جمع کرادیں۔ کسٹم سے میٹریل (گلاس، اسٹیل، سسپینشن، رن فلیٹ ٹائرز وغیرہ) کی کلیرینس کے بعد اصلی این او سی گاڑی کے مالک کو واپس کردی جاتی ہے۔

آرمرنگ کے سیکیوریٹی لیول
گاڑیوں کی آرمرنگ کرنے کے لیے انہیں تین سیکیوریٹی لیول ’’لائٹ آرمڈ وہیکل‘‘، ’’فلی آرمڈ وہیکل‘‘ اور ’’آرمر پیئرسنگ‘‘ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ’’لائٹ آرمڈ وہیکل‘‘ کی درجہ بندی B2,B3اورB4 میں کی گئی ہیں۔ اس سیکیورٹی لیول میں گاڑی ’’نائن ایم ایم‘‘،’’میگنم357‘‘اور ’’میگنم44‘‘کی پانچ میٹر کے فاصلے سے کی گئی فائرنگ سے محفوظ رکھتی ہے، جب کہ ’’فلی آرمڈ وہیکل‘‘ کو چار درجوں ’’B4+,B5,B6اور B6+‘‘ میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ B4+سےB6 تک دس میٹر کے فاصلے سے کی جانے والی AK47,G3,M16 رائفل اورB6+ تیس میٹر فاصلے سے فائر کی جانے والی ’’لیڈ 193‘‘ گولی روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ’’آرمر پیئرسنگ‘‘ کو B7کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔ یہ AK-47اور دیگر رائفل کے تیس میٹر فاصلے سے کیے گئے فائر سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ تاہم 4×4گاڑیوںکو ہی B7 لیول پر تیار کیا جاتا ہے۔

اسلحہ ڈیلرز کا اجتناب
اس فیچر کی تیاری میں کئی اسلحہ ڈیلرز سے گذشتہ چند سالوں میں ’’قانونی‘‘ طور پر فروخت کیے گئے اسلحے کی فروخت میں اضافے کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن انہوں نے اس بارے میں بات چیت کرنے اور اعداد و شمار دینے سے اجتناب کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔