ٹرین حادثہ؛ ہم کب سدھریں گے

محمد عمران چوہدری  جمعرات 7 نومبر 2019
حادثہ سلنڈر پھٹنے کی بدولت ہو یا شارٹ سرکٹ کی بدولت ہر صورت میں یہ ریلوے اہلکاروں کی غفلت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حادثہ سلنڈر پھٹنے کی بدولت ہو یا شارٹ سرکٹ کی بدولت ہر صورت میں یہ ریلوے اہلکاروں کی غفلت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میری آنکھ کھلی تو صبح کے ساڑھے تین بجے تھے اور سر میں درد تھا۔ میں نے مچھر دانی کے باہر جھانکا تو میرے اردگرد لوگ گہری نیند میں تھے، سوائے عرفان بھائی کے جو ہاٹ لائن پر رابطے میں تھے (تہجد دا کررہے تھے)۔ وسیع و عریض پنڈال پر ایک سکوت طاری تھا۔ آسمان پر چمکتے ستاروں کی مانند ہر حلقے میں کچھ لوگ اللہ رب العزت سے رابطے میں مصروف تھے۔ اس سے پہلے کہ سر درد شدت اختیار کرتا میں فارمیسی کو تلاش کرتے ہوئے پولیس چیک پوسٹ تک جا پہنچا۔ ایک پولیس اہلکار موبائل کی مدد سے وقت گزار رہا تھا، اور اسلحے کے بجائے جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔

’’مجھے فارمیسی کی تلاش ہے؟‘‘ میں نے سلام کے بعد اپنے آنے کا مقصد بتایا۔ ’’کافی دور ہے یہاں سے، مرکزی پنڈال میں‘‘۔

’’آپ کچھ مدد کرسکتے ہیں؟‘‘ میں نے درخواست کی۔

’’بھائی یہاں پر چھ اہلکاروں کی ڈیوٹی ہے اور صرف دو ہیں‘‘۔ انہوں نے بے اختیار ہنستےہوئے جواب دیا۔ ان سے معذرت کرتے ہوئے میں واپس لوٹا۔

واپس لوٹتے ہوئے میرے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا تھا کہ اگر اس وقت کوئی دہشت گرد آجائے تو وہ کتنی آسانی سے اپنے عزائم میں کامیاب ہوجائے گا، اس کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔

غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ہماری پولیس ہی ایسی ہے؟ اگر وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا جائے تو ہم سب ہی ایسے ہیں، چاہے دین ہو یا دنیا۔ جمعرات 31 اکتوبر کی صبح ٹرین کا بدترین حادثہ ہوا، (گزشتہ ایک سال میں سات بڑے حادثات ہوچکے ہیں، جن میں درجنوں افراد جاں بحق اور کرورڑوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے) اب تک کی اطلاع کے مطابق 72 افراد دارفانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ حادثے کی ابتدائی وجوہ میں یہ بیان کیا گیا کہ یہ حادثہ تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کی جانب سے ٹرین میں چولہا جلانے کی وجہ سے پیش آیا۔ اگرچہ اب بعض معتبر اطلاعات کے مطابق یہ حادثہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے پیش آیا۔ رائیونڈ کے سالانہ اجتماع میں شریک ہونے والا شائد ہی کوئی ایسا بندہ ہو جسے اس بات کی خبر نہ ہو کہ یہ واقعہ سلنڈر پھٹنے کی بدولت پیش آیا۔ منبر سے بار بار اعلان بھی کیا جاتا رہا کہ پنڈال کے اندر چولہے نہ جلائے جائیں، اگر چولہے جلانا ہی ہیں تو پنڈال سے دور جگہ مخصوص کی گئی ہے، وہاں پر چولہے جلائے جائیں۔

اجتماع سے پہلے رائیونڈ مرکز کی طرف سے تمام مراکز، ذیلی مراکز کے ذریعے ہر مسجد کے ہر فرد تک بار بار یہ اطلاع دی گئی کہ بہتر ہوگا کہ اجتماع میں سلنڈر نہ لائے جائیں۔ کینٹین پر سستا اور معیار ی کھانا دستیاب ہوگا (اور دستیاب بھی تھا)۔ اگر لانا ہی ہو تو خالی سلنڈر لے آکر آئیں، گیس یہاں سے بھروا کر استعمال کریں۔ اس کے باوجود میں تین دن اجتماع گاہ میں موجود رہا، جہاں پر ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے اس بات پر عمل کیا، ایک بڑی تعد اد ایسے لوگوں کی بھی تھی جو منبر سے یہ اعلان کہ انتہائی لجاجت سے عرض کیا جاتا ہے کہ پنڈال کے اندر چولہے نہ جلائے جائیں، چولہے جلا کر اس بات کی خلاف ورزی کرتی نظر آئی۔

میرے جیسے عام آدمی کےلیے یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ یہ لوگ جن ہستیوں کی بات سننے کےلیے اپنا گھر چھوڑ سکتے ہیں، ان کی لجاجت سے بار بار کی گئی گزارش کو ماننے پر تیار نہیں۔ شائد یہ لوگ حادثے کا انتظار کررہے ہیں، اور اگر سلنڈر پھٹنے کی وجہ سے یہ لوگ جاں بحق ہوگئے (پولیس اہلکاروں کی مانند فرض کے دوران موبائل پر گیم کھیلتے ہوئے دہشت گردی کا شکار ہوگئے، دنیا والوں کی نظروں میں شہید اور آخرت میں…) تو ان کے گھر والے کہیں گے ہمارے بھائی، بیٹے شہید ہوگئے۔ حالانکہ جو امیر کی ہدایت کے خلاف عمل کرتا ہوا مر گیا، اس کا معاملہ مشکوک ہے۔

آخر میں میری شیخ رشید صاحب سے گزارش ہے آپ نئی ٹرین چلائیں یا نہ چلائیں، ریلوے کے حفاظتی قوانین پر عملدآرمد ضرور یقینی بنائیں۔ کیونکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر یہ حادثہ سلنڈر پھٹنے کی بدولت ہو یا شارٹ سرکٹ کی بدولت ہر صورت میں یہ ریلوے اہلکاروں کی غفلت ہے۔

تبلیغی جماعت والوں سے بھی انتہائی لجاجت سے عرض ہے کہ بزرگوں کی بات سننے پر صرف اجر ہے، اور عمل کرنے پر دنیا آخرت میں کامیابی ہے۔ اور جیسے بزرگ فرماتے ہیں کہ ہدایت رائیونڈ کی جلیبی میں نہیں ہے، بلکہ رائیونڈ والے جو اعمال بتاتے ہیں ان کو کرنے میں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔