دھرنا رومانس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

فرحان تنیو  جمعـء 8 نومبر 2019
پاکستان میں دھرنا سیاست یا پھر دھرنا رومانس اپنی بنیادیں مضبوط کرچکا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں دھرنا سیاست یا پھر دھرنا رومانس اپنی بنیادیں مضبوط کرچکا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وفاقی دارالحکومت میں ایک بار پھر آزادی مارچ کے بعد دیا گیا دھرنا اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے اور حالیہ دھرنا کب تک جاری رہے گا اس بارے میں بھی حتمی طور پر کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ کیوں کہ مولانا فضل الرحمان شروع دن سے جس لب و لہجے میں کپتان سرکار یا پھر سلیکٹرز کو ببانگ دہل للکار رہے ہیں، اس سے امکان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اب کی بار چونکہ پس پردہ قوتیں حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں تو اگر مولانا اور ان کے پیروکار ڈی چوک یا پھر پی ایم ہاؤس کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ایکشن ضرور ہوگا۔

خیر! ہم آتے ہیں اصل نکتے پر کہ آخر اس ملک کا سیاسی نظام 72 برس پر محیط طویل مدت گزر جانے کے باوجود سیدھا کیوں نہیں ہورہا؟ باوجود اس کے کہ اس ملک میں پارلیمنٹ،جمہوری نظام و ادارے بھی موجود ہیں، تو سیاسی معاملات افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کے بجائے ہر حکومت میں، ہر دور میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اندر دھرنا دینے کی روایت کیوں ڈالی گئی ہے۔ کیا ملک کے سیاستدانوں نے یہ ٹھان لیا ہے کہ مذاکرات کو پس پشت ڈال کر صرف لانگ مارچ اور دھرنے دینے سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ اگر ایسا مائنڈسیٹ بنالیا گیا ہے تو پھر یہ پارلیمنٹ کس مرض کی دوا ٹھہری؟

میرے کہنے کا مقصد یہ قطعاً نہیں کہ مولانا فضل الرحمان کے مطالبات غیر سیاسی، غیرآئینی یا ناجائز ہیں اور انہیں تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ماضی قریب میں جب جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں آئینی ترمیم المعروف ایل ایف او کا معاملہ سامنے آیا تھا، تب ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت تھی اور مولانا فضل الرحمان قائد حزب اختلاف تھے، تب انہوں نے مشرف کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ بات چیت کے کئی مراحل طے کرکے ایک معاہدہ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ الگ بات کہ اس معاہدے پر پرویز مشرف کی جانب سے من و عن عمل نہیں کیا گیا تھا۔

بہرحال اب جب کہ پاکستان میں دھرنا سیاست یا پھر دھرنا رومانس اپنی بنیادیں مضبوط کرچکا ہے اور ایک دہائی سے ہر نئی آنے والی حکومت کو ایک نئے دھرنے کا سامنا ہے، تو اس صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کےلیے لمحہ فکریہ ہے کہ دھرنوں کی روایت سے سیاست، ریاست، جمہوریت، معیشت اور سب سے بڑھ کر اس ملک کا فائدہ ہورہا ہے یا پھر نقصان؟ کیوں کہ مولانا فضل الرحمان منجھے ہوئے سینئر سیاستدان ہیں، انہیں تمام سیاسی داؤ پیچ سے بخوبی آشنائی ہے اور وہ جمہوریت میں ڈائیلاگ کی اہمیت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ لہٰذا تمام معاملات کے حل کےلیے مذاکرات کا آپشن ہی زیادہ بہتر رہے گا۔ کیوں کہ دھرنا دے کر بیٹھ جانے والی جو روایت پڑچکی ہے اس سے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا۔ جس کی سب سے بڑی مثال عمران خان کی موجودہ حکومت ہے جو کہ 126 دن کے طویل دھرنے کے بعد وجود میں آئی ہے، مگر عوام اب اسی حکومت سے تنگ آچکے ہیں۔ کیوں کہ کپتان نے دوران دھرنا جتنے بھی وعدے کیے تھے اقتدار میں آنے کے بعد سب کام اس کے الٹ کرکے دکھایا ہے اور عوام اپنے مسیحا کو کوستے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تو جناب! سو باتوں کی ایک بات، یہ جو تمام سیاسی جماعتیں ایک ایک کرکے دھرنا رومانس کی دلدل میں پھنستی چلی جارہی ہیں، اس سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ دھرنا دینے کی روایت اس قدر خطرناک بن جائے گی کہ پہلے سے مسائلستان بنے اس ملک کا ٹھیک سے چلنا مشکل ہوجائے گا اور خانہ جنگی کی صورتحال بھی جنم لے سکتی ہے، جو کہ بہت خطرناک اور خونخوار ثابت ہوگی۔ جس کے نتائج کا اندازا آج شاید ہم میں سے کوئی نہیں لگاسکتا۔

دھرنا رومانس کی جو حالیہ روایت ہے اس کی بنیاد علامہ طاہرالقادری کی جانب سے پیپلز پارٹی کی سابقہ وفاقی حکومت کے دور میں اس وقت قائم ہوئی یا پھر قائم کروائی گئی جب راجا پرویز اشرف وزیراعظم کی مسند پر بیٹھے تھے اور پھر یوں ہوا کہ یہ روایت پی ٹی آئی، تحریک لبیک سے ہوتی ہوئی ایک نظریاتی سیاسی مذہبی جماعت جے یو آئی تک آن پہنچی ہے۔ اب اس کا خاتمہ کہاں اور کیا ہوگا، اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، مگر جن قوتوں نے اس روایت کی بنیاد ڈلوائی ہے وہ خود اس بار مولانا کے لانگ مارچ و دھرنے سے کافی پریشان، خفا خفا اور خائف سی نظر آرہی ہیں۔ کیوں کہ مولانا فضل الرحمان پیپلز پارٹی و مسلم لیگ (ن) کی مکمل حمایت نہ ہونے کے باوجود اپنے مطالبات سے ٹس سے مس نہیں ہورہے۔

اس بار ان تمام پس پردہ قوتوں کا بھی امتحان ہے کہ آیا جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی الیکٹڈ حکومتوں کے خلاف دھرنے دیے جارہے تھے، تب ان کی ٹون مختلف تھی اور جب مولانا کی باری آئی تو ان عناصر نے نہ صرف اپنا موقف بلکہ کیمپ بھی تبدیل کرلیا ہے، جس پر تمام غیرجانبدار تجزیہ کار حیرت کا اظہار بھی کرتے نظر آرہے ہیں۔ عوام بھی اس بات کو لے کر شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کب اس ملک میں یکساں نظام نافذ کیا جائے گا؟ کب اس ملک میں کوئی حقیقی مسیحا آئے گا جو اپنے تمام تر وعدوں پر من و عن عمل کرکے دکھائے گا۔ جس سے سات دہائیوں سے اذیت، کرب، مشکلات، تکالیف اور ان گنت مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں کو حقیقی اور مستقل ریلیف نصیب ہوگا؟

یہ سب وہ سوال ہیں جو حسب معمول عوام ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں، مگر نہ ہی حکومتی نمائندے معقول جواب دینے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی دھرنا رومانس میں مبتلا اپوزیشن کچھ بتانے کی ہمت کر رہی ہے۔ بہرحال میری ناقص سوچ اور رائے کے مطابق سیاسی معاملات کے حل یا پھر مطالبات تسلیم کروانے کےلیے دھرنا دینے کی روایت کو مثبت نہیں کہا جاسکتا، چاہے وہ موجودہ دھرنا ہو، طاہرالقادری کا دھرنا ہو، مولانا خادم رضوی کا دھرنا ہو یا پھر وزیراعظم عمران خان کا طویل دھرنا ہی کیوں نہ ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

فرحان تنیو

فرحان تنیو

بلاگر شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور مختلف اخبارات اور چینلز میں کام کرچکے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی /farhantunyostv اور ٹوئٹر ہینڈل @khantunio943 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔