اپنا سر اپنے ہاتھ

سعد اللہ جان برق  جمعـء 8 نومبر 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

ہمارے پڑھنے والوں میں سے کچھ شاید ہماری اس ناجائز، نامناسب اور نامعقول حرکت پر معترض ہوں کہ ہم اپنا سر خود اپنے ہی ہاتھوں مونڈھتے ہیں۔ یعنی اپنی کتابوں پر خود ہی تبصرہ کرتے ہیں۔ لیکن ہم بھی کیاکریں سجن، مجبوری ہے بلکہ مادھوری بھی۔ جہاں تک کتاب لکھنے کا تعلق ہے تو وہ تو اتنا آسان ہے کہ ان پڑھ لوگ بھی دو چار کتابیں لکھ مار سکتے ہیں جس طرح کالم اور کالموں میں دانش اور دانش میں حماقت لکھی جا رہی ہے۔ لیکن کتاب چھپوانا؟

مت پوچھ کہ دل پرکیا گزرتی ہے۔ ورنہ آج کل صرف اپنے پچاس سالہ کالموں کو کتابی صورت میں چھاپنا چاہیں تو سو اونٹوں پچاس ٹرکوں کی ضرورت انھیں ڈھونے کے لیے پڑ جائے۔ چلیے چھپوانے کا بھی کچھ نہ کچھ جگاڑ ہو جاتا ہے اور دانا دانشوروں کے اس چھلکتے ہوئے ملک میں عبدالستار عاصم جسے سادہ دل، سادہ لوح پبلشر مل جاتے ہیں جو صرف ’’دین بیچنے‘‘ کے بجائے ’’کتاب‘‘ بھی چھاپتے اور بیچتے یا مفت تقسیم کرتے ہیں۔ یہ ’’دین بیچنے‘‘ کی اصطلاح ہم نے یونہی استعمال نہیں کی ہے بلکہ ہمارا چشم دید چشمہ دید اور گوش شنید واقعہ ہے۔

عرصہ ہوا پشاور کے ایک پبلشر اور ناشر نے ہمارا ایک اردو مسودہ دیکھا تو مشورہ دیا کہ اسے لاہور کے کسی ادارے سے چھپوانا چاہیے۔ پھر خود ہی فیصلہ بھی کیا کہ فلاں ادارہ آج کل زیادہ کتابیں چھاپ رہاہے۔ کچھ ’’ال فلاں‘‘ نام تھا اس ادارے کا۔ چنانچہ میرا وہ مسودہ اس نے خود اس ’’الفلاں‘‘ کو بھیج دیا۔کافی عرصہ تک کوئی پتہ نہیں چلا تو ایک دن جب میں کسی کام سے لاہور جا رہا تھا تو اردو بازار میں اس ادارے میں بھی گیا۔ سب سے پہلا انکشاف تو یہ ہوا کہ اس کا مالک سوکھا ان پڑھ تھا اور اس ان پڑھ نے ہمیں مژدہ سنایا کہ وہ مسودہ تو ناقابل اشاعت کا ٹیگ لگا کر ہم واپس بھیج چکے ہیں۔

اچھا ہوا پاس کھڑے ہوئے اس کے ایک شریف ملازم نے کہا کہ وہ مسودہ میں نے فلاں سیلز مین کو دیا ہے اور وہ ابھی پشاور نہیں گیا ہے، شاید اس کے پاس ہو۔ پھر وہ جا کر تھوڑی دیر بعد کہیں اور سے وہ مسودہ لے بھی آیا۔ اتنے میں میں نے دکان کا جائزہ لیا، اس کی فہرست کتب پڑھی تو انکشاف ہوا کہ وہ کتابیں نہیں بلکہ دین چھاپ اور بیچ رہا ہے۔ بھانت بھانت اور طرح طرح کی کتابیں اور وظائف اتنی احادیث، قرآنی دعائیں لگ بھگ تیس چالیس کتابیں تو وظائف پر چھاپی گئی تھیں۔ اتنی ہی نمازوں روزوں حج اور داڑھی پر تھیں۔

صحابہ پر کتابوں کا تو شمار نہیں تھا اور اولیاء اللہ کی کرامات پر اچھا خاصا ذخیرہ تھا۔ بزرگوں کے اقوال حکایت وغیرہ کی الگ دنیا تھی۔ جنت کی تفصیلات پر الگ سے ایک الماری بھری ہوئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے سارے لکھنے والے روزانہ اگلے جہاں کی سیاحت پر رہتے ہیں۔

مسودہ آ گیا تھا اور میں اسے لے کرنہایت احتیاط اور ڈرتے ڈرتے اس ادارے اور اس کوچے سے نکل آیا کہ ان لوگوں کو میرے بارے میں پتہ نہ چل جائے اور مجھے ’’کتاب سار‘‘ بروزن سنگسار نہ کر دیں کیونکہ وہاں پتھر نہیں صرف کتابیں ہی مارنے کے لیے دستیاب تھیں۔ کہ دیکھو اس زندیق مردود اور سگ دنیا کو جو دین کے علاوہ دوسری خرافات پر بھی لکھتا ہے۔ بعد میں وہ کتاب ’’روہانسے‘‘ کے نام سے چھپ گئی جس میں رونا اور ہنسنا ساتھ ساتھ چلتا ہے اور ساتھ ہی میرا بھی۔ کیونکہ چھاپنے کے بعد کے مراحل اس سے بھی زیادہ رونے اور ہنسنے کے ہوتے ہیں۔ تبصرے کے لیے بھی شرط ہے کہ

من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو

چنانچہ مجبوری ہے،اپنا سر خود ہی مونڈھنا پڑتا ہے، چاہے لہولہان ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اس ’’لہولہان‘‘ پر ایک حقیقہ دم ہلانے لگا ہے۔ ہمارے عزیزوں میں ایک باپ بیٹا ازحد کنجوس تھے، جو نہ صرف ایک دوسرے کے ’’اکلوتے‘‘ تھے بلکہ آخر تک یہ فیصلہ نہی ہو پایا تھا کہ کنجوسی میں اکلوتا یعنی نمبرون کون ہے چنانچہ دونوں کے درمیان ٹائی ہوگیا تھا۔ یوں تو ان کی کنجوسیوں پر ایک ہزار ایک صحفے کی کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن سر اور داڑھی مونڈھنے کا سلسلہ خاص ہے۔ دونوں نے ان تمام عزیزوں سے کہہ رکھا تھا جو سرکار میں ملازم تھے کہ تم جب شیو کر لو تو بیلڈوں کو پھینکا مت کرو بلکہ جمع کر کے ہمیں لادیاکرو۔ ان بیلڈوں سے وہ اپنا ایجاد کردہ استرا تیار کر دیتے تھے، ایک لکڑی کو درمیان سے چیر کر اس میں بلیڈ فٹ کر دیتے تھے اور دونوں اطراف سے ایک دھاگے سے مضبوط باند دیتے تھے۔

دھاگہ اپنے ’’آزاربند‘‘ سے نکالتے جو کسی مردے یا کباڑ میں خریدی ہوئی ’’شلوار‘‘ میں ہوتا تھا۔ لباس کے معاملے میں بھی وہ یکتا تھا، ان دنوں مصنوعی کھاد کپڑے کی بوریوں میں آتی تھی ، وہ کرتا سلوا لیتے تھے۔ چنانچہ آگے اور پیچھے دونوں کے ببر شیر لکھا ہوتا۔ ببرشیر جب ایک دوسرے کا سر اور داڑھی اپنے ایجاد کردہ استرے سے مونڈتے تھے تو چارپائی پر ایک دوسرے کے مقابل بیٹھ جاتے تھے۔ بیلڈز تو استعمال شدہ ہوتے تھے، اس لیے ’’زوربازو‘‘سے کام لیا جاتاتھا۔ چنانچہ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں لہولہان سر اور چہرے کے ساتھ یوں لگتے تھے جیسے ابھی ابھی پرانے زمانے کی کسی نیزہ تلوار والی جنگ سے لوٹے ہوں۔ ہاں صابن وہ استعمال کرتے تھے جو میتوں میں بانٹا جاتا تھا لیکن ہمارا تو کوئی دوسرا اکلوتا بھی نہیں۔ اس لیے اپنا سر خود اپنے ہاتھوں مونڈھنا پڑتا ہے جو ظاہر ہے کہ لال اور لہولہان ہی ہو سکتا ہے۔

پر کریں بھی تو کیا کریں، جب سے ’’نذیر سلمانی‘‘نے نائی خانوں کو ’’سیلون‘‘ اور حجاموں کو ہیئرڈریسر ڈیکلیر کیا ہوا ہے اور بچارے چٹائی والے حجام کہیں بھاگ گئے، تب سے یہی ایک چارہ کار رہ گیاہے کہ اسی استعمال شدہ بیلڈ کو اپنے اوپر استعمال کریں۔ جس سے کوئی اور فائدہ تو شاید نہ ہو کیونکہ کتابیں اور ان کے خریدنے والے سرکاری ادارے تو مخصوص لوگوں کی مخصوص کتابوں کے لیے مخصوص ہو چکے ہیں اور بچارے عوام میں ’’کسی نے‘‘ اتنی سکت کہاں چھوڑی ہے کہ دال ساگ کے علاوہ کچھ اور خریدنے کا سوچ بھی سکیں ع

چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا

ہے دل پر بار نقش محبت ہی کیوں نہ ہو

ڈالا نہ بے کسی نے کسی سے معاملہ

اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔