پاکستان کا سیاسی دنگل

انیس باقر  جمعـء 8 نومبر 2019
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

مولانا فضل الرحمن ایک اعتبار سے بڑی اچھی قسمت رکھنے والوں میں سے ایک ہیں کہ وہ مرکزی حکومت کی بنیادی ساخت کے خلاف اسلام آباد میں اپنے ہم نواؤں کے ساتھ مارچ کر رہے ہیں اور انھوں نے طویل و عریض رقبوں سے اپنے نظریاتی ساتھیوں کو جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایک طرف قافلے فاٹا سے تو دوسری جانب کوئٹہ کے گرد و نواح سے براستہ سکھر اسلام آباد پہنچ گئے۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت لیڈر ہیں کہ حکومت وقت نے ان کو اسلام آباد میں مارچ پاسٹ کرنے کا موقع دینے میں کسی قسم کی مزاحمت نہ کی۔

بدقسمتی سے میں نے بھی طالب علموں اور مزدوروں کی سیاست میں پندرہ برس سے زیادہ گزارے اور اکثر و بیشتر مظاہروں اور مارچ پاسٹ کی ضرورت پیش آئی، مگر جوں ہی مظاہروں یا جلسوں کا اعلان کیا گیا اور طلبا مزدور کسانوں کی ریلی کا اہتمام ہوا تو سروں اور پیروں پر ڈنڈوں کی بارش ہوئی اور دفعہ 144 کا نفاذ بھی کیا گیا۔ پی آئی اے کی یونین کے ارکان نے جب اپنے مطالبات کے لیے گزشتہ چند سال پہلے اہتمام کیا تو ان کی ریلی کو بھی زمین بوس کر دیا اور اہم لیڈر جان کی بازی ہار گئے۔

آج بھی مزدوروں اور کسانوں کی ریلی کے مواقعے مسدود ہیں۔ ریلوے ورکرز یونین اور ٹریڈ یونین کی راہوں میں لاٹھیوں ،بندوقوں اور آنسو گیس  کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ جہاں تک طالب علموں کی ریلی کا تعلق ہے تو وہ چالیس برس سے پابند سلاسل ہے، اگر تاریخ کے صفحات کوکچھ اور پیچھے پلٹا جائے تو سجاد ظہیرکو حکمران ملک بدر کرنے کے بعد افسانہ نگار اور ناول نگار قرۃ العین حیدر کو بھی ملک چھوڑنے پر مجبورکیا گیا۔ ایوب خان کے دور میں حسن ناصر کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

حسن ناصر وہ لیڈر تھے جو کم ازکم پچاس ہزار مزدوروں کا جلوس سائٹ مل ایریا سے لے کر چلتے تھے۔ ضیا الحق کے دور میں بھی بے شمار عوام دوست جان سے گئے۔ کیونکہ ان لوگوں نے عوامی مطالبات پیش کیے۔ جن میں میڈیا کی آزادی، ٹریڈ یونینوں کی کارکردگی پر قدغن نہ ہونے کی یاددہانی، طلبا اور کسانوں کی انجمنوں کا تحفظ اور عام آدمی کو بلا کسی رنگ نسل اور مذہب کی تفریق کے ملازمتوں میں مواقع جیسے مطالبے تھے۔ ان سب پر جلوس نکالنے پر ناکہ بندی اور جلوسوں پر بندوق کی بوچھاڑ رہی ہے۔

مگر آج جو کچھ اسلام آباد کی شاہراہوں پر ہو رہا ہے جمہوری اعتبار سے میں اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ یہ یقینا روا ہونا چاہیے تاکہ دنیا کو اس کا علم ہوکہ پاکستان میں فوجی آمریت نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کا غیر جمہوری اقتدار عوام پر نازل ہے۔ مگر جب بھی عوامی مطالبات کا بیڑا کوئی تنظیم اٹھاتی ہے تو اسے ہزاروں قسم کی مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے۔ حالانکہ اداروں کی مضبوط یونین نہ صرف یہ کہ عوامی دفاع کرتی ہیں بلکہ عوامی حقوق کی بھی ضامن ہوتی ہیں۔ اگر آج ریلوے یونین اتنی ہی مضبوط ہوتی جتنا کہ مرزا ابراہیم کے دور میں تھی تو کوئی مائی کا لال چولہے لے کر اے سی میں نہیں بیٹھ سکتا تھا اور ان لوگوں کے اعتراض پر نہ ریلوے انتظامیہ پر کوئی حرف زنی کرتا اور نہ حکمرانوں پر۔

موجودہ اسلام آباد کے دھرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریلی کے منتظمین تمام حدود و قیود سے آزاد ہیں اور یہ وہ جمہور ہیں جو جمہوریت کے سزاوار ہیں۔ اگر آپ ان کی باتیں سنیں تو آپ حیرت و استعجاب میں دھنس جائیں گے۔ کیونکہ مولانا صاحب کا کہنا یہ ہے کہ پہلے وزیر اعظم مستعفی ہوں پھر گفت و شنید کا معاملہ شروع ہوسکتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ جب وزیر اعظم مستعفی ہوجائیں گے تو پھر کسی بھی قسم کی گفتگوکی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔

جلوس کے شرکا کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یقینا وہ پاکستانی ہیں۔ لیکن پیشے کے اعتبار سے وہ کسی فیکٹری کے ملازم ہیں اور نہ کسی اسکول کالج کے طلبا یا اساتذہ ہیں۔ البتہ وہ ایک ایسی تنظیم سے وابستہ ہیں جو قرآن و سنت کا درس دیتی ہے اور لائق تحسین ہے مگر یہ جلوس تمام شعبہ جات کے افکار کا احاطہ نہیں کرتا۔ ظاہر ہے بائیس کروڑ مرد و زن کی نمایندگی کا فرض ایک مخصوص گروہ اگر حکومت گرانے میں بھی کامیاب ہوجائے تو حکومت چلانے کی اہلیت کہاں سے لائے گا۔ مگر یہ گروہ یا تنظیم تن تنہا نہیں، ان کے ساتھ دور دور سے وہ لیڈران اکٹھے ہیں جن پر عمران خان نے قومی دولت لوٹنے کے الزامات لگا رکھے ہیں۔

ان میں پنجاب کے وہ لیڈر بھی شامل ہیں جن پر بے تحاشا قومی دولت لوٹنے کا الزام ہے اور وہ بیماری ہیں ، مگر یہاں (ن) لیگ کے ایک لیڈرکی شان میں یہ چند جملے ضرور لکھوں گا جو کراچی کے ایک پرانے مزدور دوست نے لاہور پہنچ کر مجھے فون پر بتایا ’’میں مال روڈ پر کھڑا کافی دیر سے رو رہا ہوں، مجھے یہاں ایسا لگ رہا ہے کہ میں لندن کے کسی علاقے میں ہوں یا دبئی کی کسی سڑک پر۔ کہ لاہور اس قدر سربلند ہوگیا کہ کراچی ایک کوڑا خانہ لگتا ہے۔ فون پر مزید یہ بھی کہا کہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے قومی خزانے سے کچھ خرد برد توکیا ہوگا جو مجھے نہیں معلوم ہے۔ لیکن ہیلتھ، ایجوکیشن اور ٹرانسپورٹ میں بین الاقوامی معیار کا کام کیا گیا ہے۔ جب کہ کراچی کا تصور آتے ہی سندھ کی خانماں بربادی کا عکس نظر آتا ہے۔ بقول مجاز مرحوم کے:

اے غمِ دل کیا کروں‘ اے وحشت دل کیا کروں

لیکن مرکزی حکومت ہاتھ میں ہونے کے باوجود دیگر شہروں میں بنیادی ضروریات کے وہ کام مرکزی حکومت نے نہیں کیے جو اس کا فرض تھا۔ کراچی کے لیے صرف ایک راستے کو ٹرانسپورٹ کا ٹوٹا پھوٹا کام دیا جو اب تک ادھورا پڑا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے حکمران ملکی سطح پر سوچنے کے قابل نہیں ہیں۔ خود مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے اور دیگر عہدوں پر فائز تھے مگر عوامی اعتبار سے انھوں نے کوئی کام نہ کیا اور آج بھی ان کے نعروں میں عوامی مطالبات کی کوئی فہرست نہیں اور اگر ہوگی بھی تو اخبارات نے ان کو اپنے اخبار کی زینت نہیں بنایا۔

مولانا فضل الرحمن اس بلند پایہ مذہبی عالم مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں جن کے متعلق میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انھوں نے کتنا علم اکتساب کیا۔ 1979 میں میری ملاقات جناب مفتی محمود اور ان کے صاحبزادے فضل الرحمن سے کوہاٹ میں ہوئی تھی۔ جب میں این ایس ایف کی طرف سے طالب علموں کا ایک وفد لے کر گیا تھا۔ اس وقت مفتی صاحب سے گفتگو ہوگئی۔ وہ بھی صرف ان کی علمی اور سیاسی جدوجہد کے موضوع پر۔ اس وقت تک مولانا فضل الرحمن کی سیاسی زندگی شروع نہیں ہوئی تھی۔ البتہ ان کی ایک تصویر کراچی یونیورسٹی کے طلبا کے ساتھ کتاب ’’سورج پہ کمند‘‘ میں موجود ہے۔ اس کے بعد کبھی رابطہ نہیں رہا۔ البتہ خبروں اور تبصروں کے ذریعے ذہن میں ان کا ایک خاکہ بنتا رہا۔

مولانا فضل الرحمن نے زرداری صاحب اور (ن) لیگ کے خلاف کوئی تحریک نہ چلائی۔ البتہ بی بی نے ان کے بارے میں کوئی مثبت رائے نہ رکھی۔ جب کہ عمران خان نے ان پر پرمٹ اور ڈیزل کی کمائی کے الزامات عائد کیے ہیں جب کہ عوام الناس کو اس کے شواہد پیش نہیں کیے۔ اور نہ کوئی فرد جرم عائد کی۔ اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور حکومت کے مابین ایسا لگتا ہے کہ مدارس کے نصاب اور آڈٹ پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے غالباً یہی بنیادی اختلافی امور ہیں اور دیگر امور جو موجودہ ہوسکتے ہیں ان کا کوئی تذکرہ پریس میں موجود نہیں۔

بہرحال مولانا صاحب جس جرأت سے حکومت کو للکار رہے ہیں اس کو عرف عام میں ہم سیاسی سنگل سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اب اس دنگل کا کیا انجام ہوگا یہ کہنا قبل ازوقت ہے مگر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مولانا اتنے لوگوں کو خالی ہاتھ واپس لے جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جب کہ آئی ایس پی آر کی اشاعت کو اگر مد نظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قانون حرکت میں آسکتا ہے۔ فوجی ترجمان کا عمل اور مظاہرہ یقینا جمہوریت کے آداب کے مطابق ہے اور ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ آیندہ بھی ہر قسم کی جمہوری جدوجہد میں ایسے ہی اصول و ضوابط کو عمل میں لایا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔