میں نے سیاست دانوں کا بھی میک اپ کیا

ندیم سبحان  اتوار 20 اکتوبر 2013
ششی کانت مہاترے اب بہت کم پروجیکٹس پر کام کرتے ہیں۔  فوٹو : فائل

ششی کانت مہاترے اب بہت کم پروجیکٹس پر کام کرتے ہیں۔ فوٹو : فائل

فلم ایک ایسا شعبہ ہے جس میں پردے پر نظر آنے والے چہرے ہی شہرت حاصل کرتے ہیں۔

عام شائقینِ فلم اس امر سے واقف نہیں ہوتے اور نہ اس جانب توجہ دیتے ہیں کہ جس فلم سے وہ لطف اندوز ہورہے ہیں اس کے پس پردہ کئی گم نام فن کار بھی ہوتے ہیں جن کے بغیر یہ فلم پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی تھی۔ میک اپ آرٹسٹوں کا شمار بھی ان ہی فن کاروں میں ہوتا ہے جو ہیرو اور ہیروئن کی طرح فلم کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ کئی اداکار ایسے ہیں جنھیں ان کے پرستار بغیر میک اپ کے دیکھ کر شاید شناخت بھی نہ کرسکیں۔ یہ میک اپ آرٹسٹ ہی کا کمال ہے جو انھیں خوب صورتی بخشتا ہے۔

فلم انڈسٹری کے یہ پس پردہ ہیرو فن کاروں کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں اور منظر عام پر نہ آنے والے ان گنت واقعات کے بھی شاہد ہوتے ہیں۔ ششی کانت مہاترے ہندی فلم انڈسٹری میں لیجنڈ میک اپ آرٹسٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھیں خوب صورت ہیرو اور ہیروئنوں کو غیرمعمولی حسین بناتے ہوئے چار دہائیاں گزرچکی ہیں۔ چالیس برس کے عرصے میں انھوں نے غیرمعروف اداکاروں سے لے کر نام ور ستاروں تک، ان گنت اداکاروں کے چہروں پر اپنے ہاتھوں کا جادو چلایا۔

ششی کانت مہاترے کا آبائی گھر وسطی ممبئی کے علاقے دادر میں پرتگالی چرچ کے قریب واقع ہے جہاں وہ اپنی شریک حیات سرایو کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کا ساتھ چونتیس برس پر محیط ہے۔

ششی کانت مہاترے نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز 1972ء میں پن دھاری جُوکر کے نائب کی حیثیت سے کیا تھا جو مانے ہوئے میک اپ آرٹسٹ تھے۔ پن دھاری ، ششی کانت مہاترے کے قریبی عزیز بھی تھے۔ اُن دنوں پن دھاری ہندوستانی فلم انڈسٹری کے نام ور ہدایت کار اور پروڈیوسر بلدیو راج چوپڑا کی فلم ساز کمپنی ’’بی آر فلمز‘‘ کے لیے کام کررہے تھے، چناں چہ ششی کانت کی عملی زندگی کی ابتدا بھی اسی کمپنی سے ہوئی تھی۔

ذیل کی سطور میں ہم ششی کانت کی کچھ یادیں ان ہی کی زبانی پیش کر رہے ہیں جو قارئین کے لیے یقیناً دل چسپی کا باعث ہوں گی:

میں نے پن دھاری دادا کے اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے دو برس گزارے۔ پھر 1974ء میں انھوں نے بی آر چوپڑا کی تمام فلموں کا کام میرے سپرد کردیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک میں آزادانہ طور پر کام کررہا ہوں۔ اگرچہ اب میں فری لانس کام کرتا ہوں، مگر میں نے اپنے کیریئر کا بیشتر عرصہ بی آر فلمز کے ساتھ گزارا ہے۔ آج بھی میں ترجیحی بنیادوں پر ان کا کام کرتا ہوں۔

میں اس پیشے کو اپنانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا، اس شعبے میں میری آمد محض ایک اتفاق تھی۔ جب مجھے اس فن کو اپنانے کا موقع ملا تو ان دنوں میں ایک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ میں زیرتعلیم تھا۔

’’ دھند‘‘ پہلی فلم تھی جس کے دوران میں نے میک اپ اسسٹنٹ کی ذمہ داری نبھائی۔ اس کے بعد امیتابھ بچن، سائرہ بانو اور شمی کپور کی سپرہٹ فلم ’’ زنجیر‘‘ تھی۔ اس فلم کی شوٹنگ راج کمار اسٹوڈیوز میں ہورہی تھی۔ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ پن دھاری دادا کسی وجہ سے سیٹ پر نہ پہنچ سکے۔

ان کی غیرحاضری کی وجہ سے شمی کپور یہ کہتے ہوئے شوٹنگ کروانے سے انکاری ہوگئے کہ وہ ایک اسسٹنٹ سے ہرگز میک اپ نہیں کروائیں گے۔ بعدازاں جب اسی فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے ٹیم بنگلور پہنچی تو والدہ کا انتقال ہوجانے کی وجہ سے ان کے ذاتی میک اپ آرٹسٹ کو گھر جانا پڑا۔ چناں چہ آخری لمحات میں میک اپ کی ذمہ داری مجھے سونپ دی گئی۔ شمی جی کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ مجھ ہی سے میک اپ کروائیں۔ کہاں تو وہ مجھ سے میک اپ کروانے سے انکاری تھے اور کہاں وہ میرے کام سے اتنا خوش ہوئے کہ آنے والی تمام فلموں کے لیے انھوں نے میری ہی خدمات حاصل کیں۔

میں نے راجیش کھنّا کی ’’کرم‘‘ اور راج ببّر اور سمیتا پاٹل کی ’’آج کی آواز‘‘ سمیت بی آر چوپڑا کی متعدد فلموں میں میک اپ آرٹسٹ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بی آر چوپڑا ’’دی برننگ ٹرین‘‘ کی عکس بندی کا آغاز کرنے والے تھے۔ اس فلم کا اسکرپٹ بھاری میک اپ کا متقاضی تھا۔ جیسا کہ نام ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اس فلم میں اداکاروں کے جسم پر زخم، خراشیں اور جلنے کے نشانات بھی دکھائے جانے تھے۔ فلم کی ٹیم میں شامل کچھ لوگ میری صلاحیتوں پر شکوک ظاہر کررہے تھے کہ میں اتنا بھاری میک اپ نہیں کرپاؤں گا۔ وہ کہتے تھے،’’یہ تو چھوٹا سا لڑکا ہے، یہ کیا کرپائے گا؟ ہم کسی بڑے آرٹسٹ کو بلالیتے ہیں۔‘‘ مگر بی آر چوپڑا نے یہ کہتے ہوئے ان کی تجویز رد کردی کہ انھیں میری صلاحیتوں پر پورا بھروسا ہے اور وہ کسی اور کو یہ ذمہ داری نہیں سونپیں گے۔

’’ دی برننگ ٹرین‘‘ میری پیشہ ورانہ زندگی کا یادگار تجربہ ثابت ہوئی جس کے دوران اپنے فن کے نئے پہلو مجھ پر آشکارا ہوئے۔ ہم نے جلی ہوئی کھال اور زخم دکھانے کے لیے مصنوعی اشیاء کا سہارا لینے کے ساتھ ساتھ میک اپ کی نئی تیکنیک کا بھی استعمال کیا تھا۔

مادھوری ڈکشٹ
میں نے متعدد فلموں کے دوران مادھوری کا میک اپ کیا ہے۔ اس کی جلد بہت خوب صورت ہے۔ وہ مجھے اپنا ذاتی میک اپ ایکسپرٹ رکھنا چاہتی تھی، مگر میں نے اس کی پیش کش مسترد کردی تھی۔ اس زمانے میں ذاتی میک اپ آرٹسٹ رکھنے کا تصور اتنا مقبول نہیں تھا۔ فلم ساز کمپنیاں میک اپ آرٹسٹوں کو باقاعدہ ملازم رکھتی تھیں اور وہ ان کی فلموں میں شامل اداکاروں کا میک اپ کرنے کے پابند ہوتے تھے۔

سلمیٰ آغا
’’ نکاح‘‘ میرے کیریئر کی ایک اور یادگار فلم تھی۔ فلم کی ہیروئن سلمیٰ آغا بہت گوری تھی، لہٰذا ہمیں شوٹنگ شروع ہونے سے قبل اس کی جلد پر میک اپ کے مختلف شیڈز آزمانے پڑے تھے۔ بالآخر دھرم چوپڑا نے جو اس فلم کے سنیماٹوگرافر تھے، میک اپ کا ایک اسٹائل منظور کرلیا اور پوری فلم میں یہی اسٹائل برقرار رکھا گیا۔ میں نے اس فلم میں سلمیٰ آغا کے میک اپ پر سخت محنت کی تھی جس پر مجھے ایک ایوارڈ بھی ملا تھا۔ اگر کسی اداکار کی جلد خراب ہے تو اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں انھیں اچھا دکھانا ہوتا ہے۔ اچھی جلد پر میک اپ کرنا آسان ہوتا ہے جب کہ مشکل جلد کے لیے زیادہ محنت اور زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔

رینا رائے
’’ گنج‘‘ کی شوٹنگ کے دوران رینا رائے کے چہرے پر مہاسے نکلے ہوئے تھے جنھیں بڑی کوشش کے بعد چھپایا جاسکا تھا۔اس فلم کی تکمیل کے بعد رینا رائے نے مجھے اپنا ذاتی میک اپ آرٹسٹ بننے کی پیش کش کی تھی مگر میں کسی ایک فرد کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مخصوص نہیں کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اس سے سیکھنے کے مواقع محدود ہوجاتے ہیں۔ جب آپ کسی فلم کمپنی کے ساتھ کام کررہے ہوتے ہیں تو آپ کو مختلف اداکاروں یعنی مختلف جلدوں پر میک اپ کرنا پڑتا ہے جس سے اس فن میں مہارت بڑھتی ہے۔

میناکشی
رینا کی طرح ایک بار میناکشی کے چہرے پر بھی بہت محنت کرنی پڑی تھی۔ 1989ء میں ایک اشتہار کی شوٹنگ کے لیے ہم روم گئے تھے۔ ان دنوں میناکشی کا چہرہ کیل مہاسوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں اور کیمرا مین ورن مکھرجی بڑی محنت اور کوششوں کے بعد اس کا بے داغ اور شاداب چہرہ دکھانے کے قابل ہوسکے تھے۔

گووندا
میں گووندا کا پہلا میک اپ آرٹسٹ تھا۔ میں نے پہلی بار اس کا میک اپ اس وقت کیا تھا جب فلم بیں اس کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ وہ کھادوں پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم تھی۔ اس دستاویزی فلم میں گووندا نے ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا تھا۔ اسے آج بھی یاد ہے کہ فلم انڈسٹری میں پہلی بار اس کا میک اپ میں نے ہی کیا تھا۔

نانا پاٹیکر
نانا پاٹیکر کی فلموں میں آمد میری سفارش پر ہوئی تھی۔ ( بی آر ) چوپڑا جی ایک روز اسٹوڈیو میں بیٹھے میرے ساتھ اپنی نئی فلم ’’آج کی آواز ‘‘ کی کاسٹ پر گفتگو کررہے تھے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کسی نئے اداکار کو جانتا ہوں جسے کاسٹ کیا جاسکے۔ میں نے اپنے دوستوں سے نانا پاٹیکر کے بارے میں سن رکھا تھا۔ اس کا ڈراما ’’ پُرش‘‘ ان دنوں بہت مقبول تھا۔ میں نانا کو تو نہیں جانتا تھا، البتہ اس کے والدین سے واقفیت ضرور تھی۔

میں نے اس کے گھر پر فون کیا مگر وہ اس وقت ناسک (شہر کا نام) میں تھا۔ ممبئی واپس آنے کے بعد وہ مجھ سے ملا۔ میں اسے آڈیشن کے لیے چوپڑا جی کے پاس لے کر گیا۔ روی چوپڑا ( بی آر چوپڑا کے بیٹے ) اس کی آواز اور اداکاری سے بہت متاثر ہوئے۔ اسی وقت سمیتا پاٹل بھی وہاں سے گزر رہی تھی۔ اس نے نانا کو دیکھا تو بہت گرم جوشی سے ملی۔ یہ دونوں تھیٹر کے حوالے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ قصہ مختصر روی چوپڑا نے نانا کو ’’آج کی آواز‘‘ میں سائن کرلیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

1980ء کی دہائی کے اواخر میں بی آر فلمز کے ساتھ میرے تعلقات عارضی طور پر خراب ہوگئے۔

اس عرصے کے دوران میں نے ہندوستان میں عکس بند ہونے والی ایک اطالوی فلم کی ٹیم میں بھی شامل رہا۔ اس فلم کا نام Mystery of the Dark Jungleتھا اور اس کے ہدایتکار کو بھارتی میک اپ آرٹسٹ کی تلاش تھی۔ اس سلسلے میں اس کی نظر انتخاب مجھ پر آ ٹکی۔ اس فلم کے بعد ’’زی ٹی وی شو‘‘ کے سلسلے میں مجھے لندن جانا پڑا۔ شوٹنگ کی تیاری کے دوران بہت سے لوگ موجود تھے۔ اسی دوران اس شو کے کوآرڈینیٹر نے آکر مجھ سے کہا کہ کیا میں ایک برطانوی اداکارہ کا میک اپ کردوں گا۔ میں نے ہامی بھرلی۔

وہ لڑکی میرے کام سے اتنی خوش ہوئی کہ مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا جب تک میں لندن میں ہوں اس وقت تک بہ وقت ضرورت اس کا میک اپ کرسکتا ہوں۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے رخصت ہوجانے کے بعد کوآرڈینیٹر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں جانتا ہوں یہ لڑکی کون تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ میرے لیے اجنبی تھی۔ بعدازاں پتاچلا کہ وہ شہرۂ آفاق اداکار انتھونی ہوپکنز کی موسیقار بیٹی ابیگیل ہوپکنز تھی۔ ابیگیل نے کچھ عرصے کے بعد مجھے ایک خط ارسال کیا تھا جس میں دو سال تک برطانیہ میں رہ کر اپنے لیے کام کرنے کی دعوت دی تھی۔ میں نہیں گیا کیوں کہ اپنے جمے جمائے کام کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ ہماری فلم انڈسٹری میں دو سال بہت طویل عرصہ ہوتا ہے۔ اور اگر آپ اتنے طویل وقت تک غائب رہیں تو لوگ آپ کو بھول جاتے ہیں۔ ابیگیل کا وہ خط آج بھی میرے پاس موجود ہے۔

مجھے چند سیاست دانوں کا میک اپ کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، مگر ان میں سے بیشتر نہیں چاہتے کہ یہ بات عام ہو۔ علاوہ ازیں میں نے ’’مہا بھارت‘‘ سمیت ٹیلی ویژن کے مختلف شوز کے لیے بھی میک اپ آرٹسٹ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ جب میں نے میک اپ کو بہ طور پیشہ اپنایا تھا تو اس وقت مجھے175 روپے ماہوار ملتے تھے۔ پھر جب ’’مہابھارت‘‘ نشر ہونا شروع ہوا تو اس وقت میرا ماہانہ مشاہرہ ڈھائی ہزار روپے تھا۔ اس زمانے میں بی آر فلمز اپنے ملازمین کو پروویڈنٹ فنڈ کی سہولت بھی فراہم کرتی تھی جسے شعبۂ مالیات کے کچھ اہل کاروں کی تجویز پر ختم کردیا گیا تھا۔ آج ایک پرسنل میک اپ آرٹسٹ بیس ہزار سے پچیس ہزار روپے یومیہ لیتا ہے۔

ششی کانت مہاترے اب بہت کم پروجیکٹس پر کام کرتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں انھوں نے پریتی زنٹا کی فلم ’’عشق اِن پیرس‘‘ اور ایک مراٹھی فلم کے اداکاروں کے چہروں پر اپنی فن کارانہ انگلیوں کا جادو چلایا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔