مرد کتنے ٹکے کا؟

نصیب خان  ہفتہ 9 نومبر 2019
کتنے مرد ایسے ہیں جو عورت پر ذومعنی جملے نہ بھی کسیں تو ذو معنی نظروں سے دیکھنے سے باز نہیں آتے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کتنے مرد ایسے ہیں جو عورت پر ذومعنی جملے نہ بھی کسیں تو ذو معنی نظروں سے دیکھنے سے باز نہیں آتے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج کل ایک ڈرامہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے ایک ڈائیلاگ ’’دو ٹکے کی عورت‘‘ پر بحث چل رہی ہےـ جس میں ایک عورت جو پیسے کےلیے اپنے خاوند کو چھوڑ جاتی ہے کو ’’دو ٹکے‘‘ کی عورت پکارا گیا ہےـ اس ڈائیلاگ کو سننے کے بعد کچھ سوالات نے ذہن میں جنم لیا اور کچھ حقائق و خیالات دماغ میں گردش کرنے لگے، جن سے ہمارا معاشرہ خصوصاً مرد حضرات نظریں چراتے ہیں۔ ممکن ہے اسے مردوں کی بے ادبی بھی سمجھا جائے لیکن ان حقائق اور سوالات پر بات کرنا بہرحال ضروری ہے۔

ہمارے جوانوں میں ایسے لڑکوں کا تناسب کتنا ہے جو عورت کو دیکھتے ہی ایسے نظریں جھکا لیتے ہیں جیسا وہ دوسروں سے اپنی ناموس کےلیے توقع رکھتے ہیں؟ اور وہ جوان کتنے ہیں جو عورت کو دیکھ کر ذُو معنی فقرے نہ بھی کسیں لیکن ذومعنی نظروں سے دیکھ کر نظریں ملانے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا کھلے عام محفلوں میں جوان ایک دوسرے کو یہ قصے سنا کر اپنے ہر فن مولا ہونے کا ثبوت فراہم نہیں کرتے کہ میری ’’اُس‘‘ سے بھی بات چل رہی ہے اور کبھی ’’دوسری‘‘ سے بھی بات کرتا ہوں؟ اور ساتھ بیٹھے دوست اس کی قسمت پر اش اش کر اٹھتے ہیں۔ ایک دوسرے کو فخریہ انداز میں موبائل دکھاتے ہیں کہ یہ وہ تصاویر ہیں جو میں نے اس کو ’’اس کی قسم‘‘ دے کر منگوائی ہیں اور یہ پکچرز دوستوں کو دکھا کر ایسے لطف اندوز ہوا جاتا ہے جیسے چڑیا گھر سے لی گئی تصاویر سے بچے محظوظ ہوتے ہیں۔

کبھی آپ نے ’’لیڈیز سیکریٹری‘‘ کی شرائط اور اس کے لیے ’’لیڈی‘‘ ہی ہونے کی وجہ پر غور کیا ہے؟ کبھی آپ نے اپنے گھروں میں ایسے سخت طبیعت والوں جو اپنی بیوی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے، کو گھر سے باہر غیر عورتوں کی آواز پر پگھلتے نہیں دیکھا؟

کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں جب مرد پبلک ٹرانسپورٹ میں اپنی حرکات کی وجہ سے عورتوں سے مار کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا تو اب آیا ہے، ایسے کتنے واقعات ہوتے ہوں گے جو سوشل میڈیا پر نہیں آئے۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہر دوسرے نہیں تو دسویں بندے نے ہمارے ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا ہوگاـ بہت سی عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ایسے مواقعوں پر اپنی عزت کے ڈر سے چپ ہوجاتی ہیں۔ ایسی حرکت کرنے والے مرد ہی ہوتے ہیں اور کبھی عورت کو ایسی حرکت کرتے ہوئے آپ نے دیکھا یا سنا ہے؟ میں کچھ عرصہ پہلے ایک نجی ٹرانپسورٹ کمپنی میں لاہور جارہا تھا۔ سواریاں کچھ کم تھیں۔ بس ہوسٹس سواریوں کو کولڈ ڈرنکس دے رہی تھی۔ میری پچھلی نشست پر بیٹھے ایک آدمی کے پاس گئی تو وہ کہنے لگا ’’اجی آج تو بہت کھانس رہی ہو گرمی میں سردی تو نہیں لگ رہی‘‘۔ وہ پیچھے دیکھ کر چلتی بنی اور وہ مرد اور اس کا دوست قہقہے لگا کر ہنس پڑے۔ نہ جانے بس ہوسٹس کتنے ٹکے کی ہوگی اور وہ مرد کتنے ٹکے کے ہوئے ہوں گے؟

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ عورت شادی کے بعد بچوں اور گھر کے کاموں میں مشغول ہوجاتی ہے جبکہ مردوں کی اکثر یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے آپ کا ’’شادی شدہ‘‘ ہونا چھپائے رکھیں تاکہ ’’نیا رشتہ‘‘ بنانے میں دقت نہ ہو۔ اکثر ایسے رشتے بن جاتے ہیں اور لڑکی کو ایسے وقت میں مرد اپنا شادی شدہ ہونا بتاتے ہیں جب اس سے جان چھڑانی ہو۔ یہ بہت عام ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر بیوی کو اپنے شوہر کے ایسے تعلقات کا علم ہوتا ہے، لیکن مجبوریوں کی وجہ سے خاموش رہتی ہے۔ لیکن سوچیے اگر شادی کے بعد ایسا ہی عورت کرے تو پتہ چلنے پر مرد کی غیرت کا تھرمامیٹر کہاں تک جائے گا؟

شادی سے پہلے لڑکی کو کتنی لیباریٹریز کو پاس کرنا پڑتا ہے جیسے جہیز، لڑکے کی پسند، عمر، رنگت، ذات، کردار اور نہ جانے کون کون سے معیارات پر پورا اترنا لازمی ہوتا ہے۔ ان سب کے بعد سسرال میں اس کی ہر حرکت کو مائیکرو اسکوپ سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ لڑکے کےلیے اِن شرائط کی ضروت نہیں ہوتی، فقط ’’لڑکا‘‘ ہونا کافی ہوتا ہے اور نہ شادی کے بعد لڑکے کے سسرال والے اس کی کسی حرکت پر انگلی اُٹھا سکتے ہیں۔ لڑکی کے سر پر طلاق کی اور میکے دوبارہ بھیجنے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ اس کی چھوٹی سی غلطی بھی سسرالیوں کو یا خاوند کو پسند نہیں آئے یا شوہر کہیں اور دل دے بیٹھے تو لڑکی کو میکے دوبارہ جاکر ایسے مہمان کی صورت میں رہنا پڑتا ہے جس سے گھر والے تنگ ہوں اور اس کے جانے کا انتظار کررہے ہوں اور مہمان کا بھی کوئی اور ٹھکانہ نہ ہوـ

لاتعداد لڑکیوں کو ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے جو کہ انہیں پسند نہیں ہوتا۔ اس شادی سے پہلے اس کے ناپسندیدہ کردار کا علم ہوتا ہے لیکن لڑکی ہونے کے جرم میں اسے زندگی کا سمجھوتہ بہرحال کرنا پڑتا ہےـ اس طرح اسلام نے جو نکاح کی صورت میں پسند اور ناپسند کا اختیار مسلمانوں کو دیا ہوتا ہے وہ محض ایک رسمی کارروائی ثابت ہوتی ہے۔

میں عورت کو فرشتہ نہیں بنارہا۔ عورتوں کی غلطیوں کی وجہ سے گھرانے تباہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی غلطی کی وجہ سے ان کے گھر والے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ لیکن میرا سوال غیرت کے اس معیار پر ہے جو عورت کی غلطی کی صورت میں جاگ جاتا ہے اور اسے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے نام سے پکارنے لگتا ہے۔ جبکہ مرد جب غلطی کرتا ہے تو وہ بھائی، باپ، بیٹا اور شوہر کیوں نہیں ہوتا؟ اگر عورت بے وفائی کرے تو دو ٹکے کی، لیکن مرد ایسا کرے تو ایسا پیمانہ کوئی نہیں جو ٹکوں کو شمار کرے کہ ایسا کرنے پر وہ کتنے ٹکے کا ہوگا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔