کارکنوں کی زباں بندی

طاہر محمود اعوان  ہفتہ 9 نومبر 2019
مولانا صاحب نے مبینہ طور پر اپنے کارکنان کو میڈیا سے بات چیت سے روک دیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مولانا صاحب نے مبینہ طور پر اپنے کارکنان کو میڈیا سے بات چیت سے روک دیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مولانا صاحب نے مبینہ طور پر اپنے کارکنان کو میڈیا سے بات چیت سے روک دیا، جبکہ ان کے باوردی فورس کے ڈنڈا بردار میڈیا سے بات کرنے والے کارکنوں کو دھکیلتے ہوئے ویڈیو میں دیکھے گئے۔

آزادیٔ اظہار رائے نہ صرف ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے بلکہ جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ وہی جمہوریت جس کے نام پر مولانا صاحب یہ دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ عجب المیہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے اپنے لیے جمہوری اصول الگ اور دوسروں کےلیے الگ ہیں۔ گویا ہمارے ہاں کی جمہوریت کو ہر جماعت اور ہر قائد اپنی اپنی عینک سے دیکھنے کا عادی ہے۔

ہمارے اسمارٹ وزیراعظم جب اپوزیشن میں تھے تو ان کی جمہوریت پسندی اور جمہوری سوچ کا ایک عالم گواہ تھا، لیکن حکومت میں آتے ہی ان کو جمہوریت کا نیا ذائقہ مل گیا، جس کے مطابق ان کےلیے دھرنا، احتجاج حلال تھا اور اب ایسا کرنا حرام ہے۔ جس میڈیا کی آزادی کے وہ گن گاتے تھے آج اس پر نادیدہ سنسرشپ لگائے بیٹھے ہیں۔

یہی حال آج کل کی اپوزیشن کا ہے۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی، محمود اچکزئی، اسفندیار ولی اور خود مولانا نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں کی کھل کر مخالفت کی اور انہیں غیرجمہوری، غیر آئینی اور ناجائز قرار دیا۔ مولانا تو اس سے بھی کچھ آگے نکل گئے اور انہیں اس بات پر غصہ تھا کہ حکومت ان مظاہرین کو طاقت کے زور پر اسلام آباد سے باہر کیوں نہیں پھینک رہی۔ انھوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کردیا تھا۔ اس وقت ان قائدین کے مطابق کسی لشکر، دھرنے کے بل بوتے پر منتخب حکومت سے استعفے کا مطالبہ ناجائز تھا اور اس عمل کی ہر حالت میں حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تھی۔ آج جب کہ یہ سارے دھڑے خود اپوزیشن میں ہیں تو ان کےلیے جمہوری اصول بدل گئے ہیں۔ اب دھرنا بھی ہورہا ہے، استعفے بھی مانگے جارہے ہیں اور اداروں کو کھلے عام دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ گویا جمہوریت نہ ہوئی گھر کی لونڈی ہوگئی، جسے اپنی مرضی اور اپنے مفاد کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔

بات ہورہی تھی مولانا صاحب کے معصوم کارکنوں کی، جن کی زبان بندی کردی گئی۔ شاید اسی پر علامہ اقبال نے کہا تھا

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الااللہ

کیا یہی وہ جمہوری اصول ہیں، جن کا سبق امام سیاست پوری قوم کو پڑھا رہے ہیں؟ اگر بات پارٹی پالیسی کی ہو تو اس کےلیے بجا طور پر پارٹی کے ترجمان ہی کوئی رائے دے سکتے ہیں، لیکن دھرنے کے عام شرکا سے ان کے جذبات، خیالات اور مشکلات کے بارے میں جاننا کون سا جرم ہے؟ اگر مولانا اپنے کارکنوں کو بھی اتنا سا جمہوری حق نہیں دے سکتے تو پھر پوری قوم کےلیے کون سے جمہوری حقوق مانگ رہے ہیں؟

جے یو آئی کے اس عمل کے پیچھے دو وجوہ ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں دور دراز سے آئے یہ معصوم کارکن کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس سے ان کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹ جائے۔ دوسرا یہ کہ جے یو آئی کے قائدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کارکن اتنا شعور ہی نہیں رکھتے کہ انہیں میڈیا پر کیا کہنا ہے اور کیا نہیں۔ گویا ان کی نظر میں عقل و شعور صرف ان کے پاس ہے اور عام کارکن اس دولت سے محروم ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر مخالفین کا یہ کہنا بجا ہے کہ مولانا کے ساتھ چلنے والے لوگ اتنے سادہ ہیں کہ مولانا انہیں باآسانی اپنے دام میں پھانس کر مطلب نکال لیتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

طاہر محمود اعوان

طاہر محمود اعوان

بلاگر اسلام آباد سے حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے ورکنگ جرنلسٹ، تجزیہ کار، بلاگر اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔