کھیلوں کی زبوں حالی کا ذمے دار کون؟

محمد یوسف انجم  ہفتہ 9 نومبر 2019
ایک وقت تھا جب کھیلوں میں قومی کھیل ہاکی پاکستان کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک وقت تھا جب کھیلوں میں قومی کھیل ہاکی پاکستان کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک وقت تھا جب کھیلوں میں قومی کھیل ہاکی پاکستان کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ جہاں بھی ٹیم جاتی، فتح کے جھنڈے گاڑ کر آتی۔ پھر ذاتی مفادات، عہدوں کا لالچ، سیاست، اقرباپروری اور بے ضمیری کا ایسا دیا جلا کہ سب کچھ راکھ ہوگیا۔ ہاکی میدان آہستہ آہستہ ویران ہونا شروع ہوئے۔ نیک نامی کی جگہ ہر ایونٹ میں رسوائی ہماری مقدر بن گئی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جنہوں نے اس کھیل کو بام عروج پر پہنچایا، انہوں نے اس کو زوال تک لاکھڑا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

وہ تو بھلا ہو کہ انیس سو بانوے میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ کا عالمی چمپیئن بنا تو ایک بار پھر ہمیں کھیلوں کے میدانوں سے اچھی خبر ملنا شروع ہوئیں۔ اب یہ وقت ہے کہ کرکٹ کا کھیل ہی ہماری پہچان اور اتحاد کا واحد ذریعہ بھی بن چکا ہے۔ ٹیم کی جیت سب کو ایک دوسر ے کے قریب کردیتی ہے۔ بے روزگاری، یوٹیلیٹی بلز، بے ہنگم ٹریفک، رہزنی، ڈکیتی اور معاشی مسائل سے پریشان عوام کرکٹ ٹیم کی جیت سے وقتی طور پر سب کچھ بھول کر ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ یہ دنیا کی واحد خوش قسمت قوم ہے جسے کوئی پریشانی نہیں۔ ان میں کوئی سیاسی، فکری، مذہبی، سماجی اختلافات نہیں۔ لیکن افسوس کہ کرکٹ میں بھی ملنے والی خوشی بھی اس طرح ہی آتی ہے جس طرح گرمیوں کی لوڈشیڈنگ میں بجلی اور پانی۔

اگر آپ غریب ہیں، چھوٹے شہر میں رہتے ہیں، والدین بڑی مشکل سے گزربسر کررہے ہیں، آپ کو کرکٹ کا شوق ہے لیکن ساتھ کام پر بھی جانا پڑتا ہے تو پریشان نہ ہوں، بلکہ خدا کا شکر ادا کریں کہ یہ وہ تمام خوبیاں آپ میں موجود ہیں، جو آپ کے تمام خواب پورے کرسکتی ہیں۔ آپ جن کرکٹرز کی ایک جھلک دیکھنے، آٹوگراف لینے اور قریب سے دیکھنے کو ترستے ہیں، ان میں سے اکثریت کے حالات آپ جیسے ہی تھے۔ بس ایک میچ کی پرفارمنس نے انہیں زمین سے اٹھا کر آسمان پر لا بٹھایا ہے۔ آپ کی طرح دوسرے نوجوان بھی ایک کامیاب کرکٹر بننے کے ساتھ وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آپ سوچ رہے ہیں۔ بس محنت کرنے کے ساتھ یہ بھی دعا کریں کہ خدا قسمت بھی اچھی بنادے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر کرکٹ میں سب کچھ اتنا ہی آسان ہے تو پھر ہماری کرکٹ ٹیم دنیا کی بہترین کرکٹ ٹیم کیوں نہیں بن پائی؟ کبھی کبھی کی جیت، ہر میچ کی نوید کیوں نہیں بن پاتی؟ گلی گلی، شہرشہر، دیہات میں کھیلنے والے بے حساب، ٹیلنٹ کی بہتات کے باوجود ٹیم اور کرکٹ بورڈ میں بار بار تبدیلیوں کے باوجود حالات کیوں نہیں بدلتے۔ پرفارمنس میں تسلسل کیوں نہیں آتا؟ اس کا صرف ایک سادہ سا جواب ہے کہ جس طرح میک اپ کرنے سے وقتی طور پر آپ کا چہرہ خوب صورت دکھائی دیتا ہے، اسی طرح بورڈ میں اوپر کے عہدوں پر جتنی تبدیلیاں کرلیں، کوئی فائدہ نہیں۔ جب تک برس ہا برس سے بورڈ میں موجود یس مین اور چاپلوس فارغ نہیں ہوں گے۔ کرکٹ بورڈ بدلے گا اور نہ ٹیم کے نتائج۔ پی سی بی سربراہ احسان مانی اور چیف ایگزیکٹو وسیم خان کی قابلیت اور تبدیلی کے دعوے اپنی جگہ، لیکن ابھی تک ایسا کچھ نیا دیکھنے کو نہیں ملا، جس پر پاکستانی عوام رشک کرسکے۔

جلد بازی میں ڈومیسٹک ڈھانچے سے کی جانے والی چھیڑ چھاڑ خود پی سی بی حکام کےلیے مصبیت بنتی جاری ہے۔ محکموں نے ٹیمیں ختم کرنے کے بعد کرکٹرز کو نوکریوں پر آنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ وقی طورپر پی سی بی کے بڑے سیاسی دباؤ اور میل ملاقاتوں سے اس مصبیت کو ضرور ٹالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن آنے والے دنوں میں اس نئے سسٹم کے قائم رہنے پر سوالیہ نشان ضرور لگ چکا ہے۔ اس نئے سسٹم کی فی الحال تعریف تو ٹیموں کے ساتھ لگا اسٹاف اور پی سی بی حکام ہی کرتے دکھائی دے رہے ہیں، ہاں البتہ بے روزگار کرکٹرز اور فارغ کیے جانے والے چھوٹے ملازمین کی آہ و بکا سے کرکٹ بورڈ کے درودیوار ضرور ہلنا شروع ہوگئے ہیں۔ اوپر سے راولپنڈی اسٹیڈیم کےفارغ کیے جانے والے کیوریٹر واجد حسین تو تنخواہ اور دوبارہ نوکری ملنے کی آس میں دنیا چھوڑ کر خود تو پرسکون ہوگئے، مگر وہ بورڈ حکام کو ضرور بے سکون کرگئے ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Muhammad Yousuf Anjum

محمد یوسف انجم

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے، سینئر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں اور اسپورٹس رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پچھلے کئی سال سے ’’ایکسپریس نیوز‘‘ سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔