طلبہ یونین کی بحالی؟

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 9 نومبر 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سندھ اسمبلی نے طلبہ یونین کی بحالی کی قرارداد متفقہ طور پرمنظور کرلی۔ ایوان بالا یعنی سینیٹ نے اگست 2017ء میں اسی قسم کی قرارداد منظورکی تھی، پیپلز پارٹی لاڑکانہ کی رکن صوبائی اسمبلی ندا کھوڑو نے یہ قرارداد پیش کی۔ متحدہ قومی موومنٹ، تحریک انصاف اور جی ڈی اے کے اراکین نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ اب سندھ اسمبلی میں اس قرارداد کی منظوری کے بعد حکومت سندھ طلبہ یونین کے انتخابات کے لیے کوئی حتمی فیصلہ کرے گی۔

سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی اور خواتین کے امورکی وزیر شہلا رضا نے قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اس کے عملی پہلو پر خاموشی اختیارکیے رکھی۔ ندا کھوڑو کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ طلبہ یونین نئی قیادت پیدا کرنے کی نرسری تھی، جس کو ضیاء الحق نے ختم کیا اور انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا گیا۔ ملک کے آئین کو معطل کیا گیا اور اخبارات کی آزادی کو سلب کر لیا گیا مگر جب اس حکومت کو احساس ہوا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالب علم طلبہ یونین کے مختلف عہدوں کے لیے اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق استعمال کررہے ہیں اور نئی نسل میں جمہوری شعور مستحکم ہورہا ہے تو1981ء میں ایک مارشل لاء ضابطہ کے تحت طلبہ یونین کے ادارے کو ختم کر دیا گیا۔

اندرون سندھ آمر حکومت کی پالیسیوں سے طلبہ میں سخت بے چینی پائی جاتی تھی۔ ہر شہر میں طلبہ اپنے منتخب نمایندوں کی قیادت میں بنیادی حقوق کے لیے احتجاج کرتے تھے تو حکام نے 1979ء میں اندرون سندھ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کو پابند کیا کہ وہ اپنے اپنے اداروں میں طلبہ یونینوں کے انتخابات نہ کرائیں، یوں اندرون سندھ طلبہ یونینوں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہوگئی۔

جب انگریزوں نے ہندوستان میں جدید تعلیمی نظام نافذ کیا تو اسکولوں کے ساتھ ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ یونیورسٹیوں میں علمی آزادی کا ادارہ ارتقاء پانے لگا۔ اساتذہ اور طلبہ کو تحقیق اور محدود آزادئ رائے کی آزادی ملی۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کا ادارہ قائم ہوا جس کا سربراہ وائس چانسلر ہوتا تھا اور طلبہ اپنے نمایندوں کو منتخب کرتے تھے، جو یونین کے عہدیداروں کا انتخاب کرتے تھے۔ طلبہ یونین ہم نصابی سرگرمیوں کو منظم کرتی تھیں۔ بعض یونیورسٹیوں میں جن میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بھی شامل تھی سیاسی رہنماؤں کو طلبہ یونین کے جلسوں میں مدعوکیا جاتا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کا ادارہ برقرار رہا۔ 60ء کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن جوہرحسین، حسین نقی اور فتحیاب علی خان وغیرہ کی قیادت میں فعال تھی۔ این ایس ایف اور دیگر طلبہ تنظیموں کی کوششوں سے یونیورسٹی کے طلبہ کو براہ راست طلبہ یونین کے عہدیداروں کو منتخب کرنے کا حق ملا۔ این ایس ایف کے رہنما حسین نقی کراچی یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر کے عہدے کے لیے طلبہ کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوئے۔ اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی بائیں بازو کے طلبہ کے شدید مخالف تھے۔ انھوں نے اس انتخاب کو منسوخ کردیا مگر دوبارہ انتخابات میں حسین نقی کامیاب ہوگئے۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے بلوچ طلبہ کی حمایت کرنے پر حسین نقی کو یونیورسٹی سے نکال دیا تھا مگر طلبہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہر سال اپنے نمایندوں کو منتخب کرتے رہے۔ طلبہ یونینوں کے عہدیداروں نے علمی آزادی کے ادارے کی آبیاری اور تعلیم کو سستا اور مہیا کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔

1953ء میں کراچی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹش فیڈریشن کے نامزد کردہ نمایندے کالجوںکی طلبہ یونینوں کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے اورکالجوں کے منتخب نمایندوں نے انٹرکالجیٹ باڈی (I.C.B) قائم کی تھی۔ آئی سی بی کے نمایندوں نے کراچی میں کالجوں کے قیام، فیسوں میں کمی، طلبہ کے لیے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کے لیے 8 جنوری 1953ء کو تاریخی جدوجہد کی تھی۔ اس جدوجہد میں کئی طالب علم شہید ہوئے۔ حکومت کو طلبہ کے مطالبات تسلیم کرنے پڑے تھے۔

کراچی کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طلبہ یونین کے عہدیداروںنے 1963ء میں نافذ کیے جانے والے 3 سالہ ڈگری کورس کے خاتمے کے لیے تاریخی جدوجہد کی تھی۔ منتخب نمایندوں نے 1968ء میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک میں طلبہ کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تو پنجاب یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر اور اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن جاوید ہاشمی کی قیادت میں پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ نے اس فیصلے کے خلاف لاہور کی سڑکوں پر احتجاج کیا تھا۔

ضیاء الحق طلبہ یونین کے کردار کی تاریخ سے خوفزدہ تھے۔ ان کے مشیروں کو خوف تھا کہ طلبہ یونین کا ادارہ برقرار رہا تو پورے ملک کے طلبہ کسی وقت اپنے نمایندوں کی قیادت میں ایک تحریک کی شکل میں منظم ہوجائیں گے۔  ضیاء الحق جو نظام قائم کرنے کے خواہاں تھے کسی بھی سطح کے منتخب نمایندے اس نظام کی نفی کرتے تھے۔ اس بناء پر ضیاء الحق نے جمہوری مزاج کو ختم کرنے کے لیے طلبہ یونین کے ادارہ کو کالعدم قرار دے دیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت 1988ء میں برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے منشور میں طلبہ یونین کی بحالی شامل تھی مگر ایجنسیوں کے دباؤ پر پیپلز پارٹی کی حکومت طلبہ یونین پر پابندی کے خاتمے کے لیے قانون سازی نہیں کر پائی۔ 1993ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افضل ظل الٰہی، جسٹس محمد افضل لون اور جسٹس ولی محمد خان پر مشتمل فل بینچ نے محمد اسماعیل قریشی بنام محمد اویس قائم سیکریٹری جنرل اسلامی جمعیت طلبہ نامی مقدمہ میں فیصلہ دیا کہ چند بنیادی پابندیوں کے ساتھ طلبہ یونین کا ادارہ بحال کیا جانا چاہیے مگر برسراقتدار حکومتوں نے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا۔

2008ء کے انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی نشری تقریر میں اعلان کیا کہ جلد ہی طلبہ یونین کے انتخابات کرائے جائیں گے، مگر وہ اپنے اعلان پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہے۔

سابق طالب علم رہنما انسانی حقوق کے رکن بصیر نوید نے چند سال قبل صدر پاکستان ممنون حسین کو عرضداشت بھیجی کہ مارشل لاء کے  خاتمے کے بعد طلبہ یونین پر پابندی ختم ہوچکی اس بناء پر متعلقہ حکام کو تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے انتخابات کے انعقاد کی ہدایات جاری کی جائیں۔ ایوان صدر نے اس عرض داشت پر وزارت قانون سے رائے طلب کی۔ وزارت قانون نے اپنی رائے میں لکھا کہ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد مارشل لاء قوانین ختم ہوگئے۔ اس لیے اب طلبہ یونین پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے وزارت قانون کی رائے کو اہمیت نہیں دی۔

سینیٹ نے 2017ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور وزارت قانون کی رائے کی روشنی میں قرارداد منظورکی کہ طلبہ یونین کے انتخابات فورا منعقد کرائے جائیں۔ اب سندھ اسمبلی نے بھی ایسی ہی قرارداد منظورکی ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی رکن کو اپنی حکومت کو طلبہ یونین کے انتخابات کرانے کے لیے اقدامات کرنے کے لیے اسمبلی میں قرارداد منظورکرانی پڑی۔ طلبہ یونین طلبہ کی تربیت کا بنیادی ادارہ ہے۔

دائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ میں برسوں متحرک رہنے والے پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ طلبہ یونین کا ادارہ نوجوانوں میں کامیابی اور ناکامی کو برداشت کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ طلبہ کو رائے عامہ کو ہموارکرنے کے مثبت طریقے سیکھنے پڑتے ہیں۔ ہر یونیورسٹی اور کالج کی طلبہ یونین اپنے آئین کے تابع ہوتی تھی۔ صدر اور جنرل سیکریٹری کے عہدوں پر انتخابات میں حصہ لینے والے یونیورسٹیوں اورکالجوں کے آخری سال کے طالب علم ہوتے تھے اور انتخاب کے قواعد وضوابط کے تحت ان طلبہ کے لیے تمام پرچے پاس کرنا لازمی ہوتا  تھا۔ بہت سے ذہین طالب علم طلبہ یونین کے عہدیدار منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا تعلق پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کے سینئر پروفیسروں میں ہوتا ہے، انھوں نے این ایس ایف کے تحت طلبہ یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ آج کل ایک غیر سرکاری یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔ ڈاکٹر ٹیپو نے اپنی یونیورسٹی میں طلباء یونین کے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی سے طلبہ میں جمہوری شعور بیدار ہوگا اور طلبہ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے انتظامی اداروں میں نمایندگی ملے گی، یوں تعلیمی اداروں کی اعلیٰ ترین سطح پر طلبہ فیصلہ سازی میں شریک ہونگے۔

سندھ کی حکومت کو اس قرارداد پر فوری طور پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔ طلبہ یونین سرکاری اداروں کے ساتھ تمام غیر سرکاری یونیورسٹیوں اورکالجوں میں قائم ہونی چاہیے۔ طلبہ یونین کے خدوخال کی تیاری کے لیے حکومت سندھ کو اسٹیک ہولڈرز سے فوری طور پر مشاورت کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔