’’تھا جو خوب بتدریج نا خوب ہوا‘‘، کیا میڈیکل داخلہ ٹیسٹ میرٹ کا شفاف معیار ہے؟

پروفیسر رشید احمد انگوی  اتوار 20 اکتوبر 2013
مفاد پرست پالیسی سازوں نے میڈیکل کالجوں میں داخلے کا شفاف نظام تباہ کرڈالا۔ فوٹو: فائل

مفاد پرست پالیسی سازوں نے میڈیکل کالجوں میں داخلے کا شفاف نظام تباہ کرڈالا۔ فوٹو: فائل

بیالوجی (حیاتیات) ایف ایس سی پری میڈیکل کا اہم ترین مضمون ہے، جو میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کرنے والے طلبہ کی پہچان ہوتا ہے اور تمام مضامین میں سے ان کا محبوب ترین مضمون بھی اور اسی بنیاد پر انٹری ٹیسٹ میں اُس کے نمبر دیگر مضامین کے مقابلے میں دو گنا ہوتے ہیں۔

میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کرنا پری میڈیکل کے طلبہ و طالبات کا خواب ہوتا ہے۔ راقم بطور بیالوجی کے کالج ٹیچر پینتالیس سال سے تعلیمی خدمات سرانجام دے رہا ہے اور اپنے طویل تعلیمی مشاہدے کی بنیاد پر بخوبی آگاہ ہے کہ طلبہ سالہا سال تک سخت محنت کے بعد میرٹ کی بنیاد پر میڈیکل کالجوں میں داخلے ہوتے تھے اور خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر داخلے ملنے کا نتیجہ تھا کہ میڈیکل کالجوں میں طلبہ کی اکثریت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی تھی۔ بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کسی معمولی کسان، چھوٹے دکاندار یا کسی چپڑاسی و چوکیدار کا بیٹا اپنی قابلیت اور محنت کی بنیاد پر اعلیٰ میرٹ کا مستحق ٹھہرا اور میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کر لیتا تھا مگر ایسا صرف اُسی وقت تک رہا جب تک کرپشن اور ظلم نے ملک کے پالیسی ساز ادارہ پر قبضہ نہ کر لیا۔

گزشتہ ڈیڑھ دو عشروں کے دوران بدقسمتی سے ملک پر مفاد پرست اور بدعنوان عناصر و طبقوں کا اس قدر غلبہ ہو چکا ہے کہ میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کرنے کا صاف و شفاف نظام تباہ و برباد کر ڈالا گیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے، وہ طبقات جن کی بڑائی اور غلبہ انگریزی زبان کے ناجائز تسلط سے وابستہ ہے، ان کے ہاتھوں ہی میڈیکل کی تعلیم کا نظام برباد ہوا اور آج یہ تعلیم صرف خاص لوگوں کے لئے مختص ہوتی جا رہی ہے۔ ان طاقتور حلقوں نے اپنے مخصوص زیر زمین اور پس دیوار ہتھکنڈوں کے ذریعے میڈیکل کالجوں میں سائنس کے مضامین میں اعلیٰ قابلیت کی بنیاد کو متزلزل کر کے انگریزی کے عجیب و غریب نوعیت کے امتحانی عمل سے گزرنے کو لازم ٹھہرا ڈالا۔ بس یہی وہ لمحہ تھا یا ٹرننگ پوائنٹ کہ میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے بورڈ میں دو سو نمبر کا انگریزی امتحان پاس کرنے کو ٹھکراتے ہوئے انگلش میڈیم اداروں کے طلبہ و طالبات کو فائدہ پہنچانے کے لئے ان کے نظام میں مروج انگریزی کا لازمی پھندہ لگا کر سرکاری کالجوں کے طلبہ و طالبات کے میڈیکل کالجوں میں داخلے کے خواب بکھیر دینے کی حقیقتاً ظالمانہ پالیسی مسلط کر دی گئی۔ اب لائق اور ذہین طلبہ کو کچلنے کا عمل قانون بن چکا ہے اور ایک خاص انجیرڈ میکانزم کے ذریعے بقول اقبالؒ

’’تھا جو خوب بتدریج نا خوب ہوا‘‘ بنا دیا گیا ہے۔

متعدد طلبہ سے میڈیکل کالج داخلہ ٹیسٹ کے بارے میں انٹرویو کرنے کے بعد اس نتیجے تک پہنچنے میں ہمیں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوئی کہ داخلہ ٹیسٹ کے امتحان میں سائنس کے مضامین میں بہترین نمبر لینے والے امیدواروں کو انگریزی کے نامانوس و غیرمرغوب قسم کے لایعنی امتحان میں سے گزار کر لائق سے نالائق بنا دینے کا کارنامہ سر انجام دیا گیا ہے۔ کاش کہ کوئی اس ملک کے اُن لاکھوں معصوم و مظلوم طلبہ کا والی وارث ہوتا اور انٹری ٹیسٹ میں سائنس مضامین کے ساتھ جبراً انگریزی کا پرچہ ٹھونسنے والوں کا احتساب کرتا۔ کیا وہ ہزارہا ڈاکٹر جو محض بورڈ کے امتحان کے نتیجے کی بنیاد پر امریکہ، برطانیہ، عالم عرب اور دیگر ممالک میں نہایت کا میابی سے میڈیکل میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، انگریزی پرچے کے انٹری ٹیسٹ کے بغیر دنیا میں اپنا مقام نہ بنا سکے؟

جب حقیقت یہ ہو کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہو اور انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود انگریزی کے عشق میں دیوانہ اور فریفتہ ہو کر قابض طبقہ اس حد تک ظلم پر اتر آیا ہو کہ قوم کے نوجوانوں کا مستقبل قربان کر دینے پر ڈٹا ہوا ہو، تو ایسے میں مظلوموں کی فریاد کس کو سنائی جائے؟ سچ تو یہ ہے کہ آج آزاد اقوام کے مقابلے میں انگریز پرستی کی بناء پر پاکستانی قوم ایک ’’بے زبان، گونگی اور معذور قوم‘‘ بن چکی ہے جس کے حکمران کسی اور ملک میں جانے کی بات تو کجا اپنے ہی ملک میں اپنی قومی زبان اور تہذیب کو کچلنے پر تلے ہوئے ہیں۔ راقم تاریخ کے صفحات پر لاکھوں مظلوم طلبہ کی گواہی رقم کرانا چاہتا ہے کہ اول تو دو سال کے سرکاری بورڈ کے ایف ایس سی کے امتحانی نتائج کی بنیاد پر میڈیکل کالجوں میں داخلہ ملنا چاہیے اور اگر انٹری ٹیسٹ ضروری ہی ہو تو صرف سائنس کے مضامین میں سے امتحان لیا جائے۔ انگریزی کی پخ لگانے کی ہرگز، ہرگز ضرورت نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ملک کی کوئی اعلیٰ عدالت یا آزاد و غیر مرعوب کمیشن انگریزی کے ہاتھوں لائق طلبہ و طالبات کا مستقبل تاریک کر کے، اہلِ دولت و انگلش میڈیم کے فرزندوں کو نوازنے کا صریحاً ناجائز و ظالمانہ طرز امتحان زیر بحث لا کر مظلوموں کی دعائوں کی مستحق بن سکے۔ بصورت دیگر ’’ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔