طنزومزاح کی ایک اہم کتاب ’’ یوٹرن کریسی‘‘

نسیم انجم  اتوار 10 نومبر 2019
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

محمد اسلام اپنی تحریر وتقریر کے حوالے سے اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں، ایک طویل عرصے سے قلم کا جادو جگا رہے ہیں اسی جہد مسلسل کوشش اور لگن کی بدولت ان کی طنز و مزاح کے حوالے سے گزشتہ سالوں میں تین کتابیں اشاعت کے مرحلے میں گزر چکی ہیں، بعنوانات ’’چارلیمنٹ ہاؤس‘‘ 1997، ’’عین غین‘‘ 2015، مزاح صغیرہ وکبیرہ2017، ’’یوٹرن کریسی‘‘ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے اس کی تقریب اجرا میں ہمیں بھی شرکت کرنے کا موقع ملا، یہ دیکھ کر ہمیں بے حد خوشی ہوئی کہ ان کی تحریروں کے قدردان اور چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود تھے ۔

کتاب بے شک قابل تحسین ہے کہ مصنف کے تمام مضامین معاشرتی و سیاسی مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔ مزاج کے رنگ میں رنگی ہوئی تحریریں ، دلچسپ بھی ہیں اور سیاسی وسماجی گویا حالات حاضرہ کی عکاس ہیں۔ محمد اسلام کا مشاہدہ گہرا ہے اور علم وآگہی، فہم وفراست ان کے مضامین میں نمایاں ہے، وقار اور تمکنت کے ساتھ جو کچھ بھی لکھا ہے، اس کی روشنی کو قاری محسوس کیے بنا نہیں رہتا ہے۔ شاہد ضمیر ، مصنف کے طرز نگارش کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’محمد اسلام کے مضامین اور خاص طور پر فکاہیہ کالم سے وہ علم حاصل ہوتا ہے جو تخیلاتی مشاہدے سے ہوتا ہے۔

فارسی، ہندی اور انگریزی زبانوں کے الفاظ اس طرح سمو دیتے ہیں کہ وہ ہماری مادری زبان کے لفظ لگنے لگتے ہیں۔ یہی ’’یوٹرن کریسی‘‘ کی اصطلاح سے آپ سمجھ سکتے ہیں توگویا وہ مشترکہ سرمائے سے ایک نیا اردو محل بنا دیتے ہیں جس کے در و دیوار پر اپنا مخصوص نقش و نگار موجود ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے محمد اسلام کو طنز و مزاح کے قبیلے کا ایک مخلص فرد قرار دیا ہے۔ مجید رحمانی اور اختر سعیدی نے دل کھول کر لکھا ہے اسی وجہ سے دونوں کی تحریروں نے 9 صفحات پر جگہ بنائی ہے، مجید رحمانی کو بولتے تقریر اور نظامت کرتے تو سنا ہے لیکن تحریر پہلی بار پڑھنے کو ملی انھوں نے محمد اسلام کی تخلیقی کاوشوں کا مکمل طور پر تعارف کروایا ہے اور بہت ہی معلوماتی اور مفصل مضمون لکھا ہے۔

اسی مضمون سے چند جملے، ’’محمد اسلام بنیادی طور پر عوامیہ کے مزاح نگار ہیں، جب کہ ان کی متعدد تحریروں میں اشرافیہ کو بہ طور موضوع منتخب کیا گیا ہے۔ اختر سعیدی نے محمد اسلام کے تعلقات کے حوالے سے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے کہ مصنف ’’ینگ کلچرل سوسائٹی‘‘ کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور سوسائٹی کے عہدیداران سے اس وقت کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے حلف لیا‘‘ صدر بننے کے بعد جو انھوں نے تقریرکی اسے سب نے سراہا اور ہر جملے پر خوب داد ملی یہ بات 1980 کی ہے۔

کتاب کو پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ مجھے اچھی طرح ہوا کہ محمد اسلام بہترین قلم کار ہیں ان کی تحریروں کے جمال وکمال نے انھیں انفرادیت بخش دی ہے جب منطق اور مزاح یکجا ہوجائیں تو الفاظ دوآتشہ بن جاتے ہیں۔ محمد اسلام کے مضامین ہوں یا خاکے دونوں کا انداز فکر سحر انگیز اور دلبرانہ سا ہے پہلی بار ان کی نگارشات کو پڑھنے کا موقع ملا تحریر میں شگفتگی اور شائستگی نمایاں ہے قاری مسکرائے بلکہ قہقہہ لگائے بنا نہیں رہ سکتا۔ ان کے مضمون ’’یوٹرن کریسی‘‘ جوکہ کتاب کی فہرست میں نمبر ون ہے اس کی ابتدا کچھ یوں ہے۔

’’میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے نئی تاریخ رقم کردی، الفاظ کو نئے نئے معنی اور مطالب عطا کردیے، آپ نے جوکچھ کہا تھا اس کے برعکس کام کر رہے ہیں لوگ طعنہ دیتے ہیں کہ آپ یو ٹرن لیتے ہیں، آپ نے بتایا کہ عظیم قائد ہمیشہ یوٹرن لیتے ہیں، آپ یوٹرن کی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ویسے زندگی میں ہر شخص کوئی نہ کوئی یوٹرن لیتا ہے اس میں بیوی ، محبوب ، ملازم ، طالب علم ، استاد ، سیاست دان ، بیورو کریٹس سب ہی شامل ہیں، شوبز کے یوٹرن کا ذکر ہم خود کرتے چلیں کہ کس طرح مہوش حیات ، رابی پیرزادہ اور میشا شفیع نے یوٹرن لیا۔ مہوش حیات کو تو یوٹرن کے باعث تمغہ صدارت بھی مل گیا۔

محمد اسلام نے ایک واقعہ نہیں بلکہ کئی واقعات درج کیے ہیں۔ شوہرکی گھبراہٹ پر بیوی نے سوال کیا ۔۔۔۔ کیا ہوا؟ شوہر۔۔۔۔۔آج دفتر میں آگ لگ گئی، کئی افراد ہلاک ہوگئے۔ بیوی گھبرا کر۔ تم کیسے بچ گئے؟ شوہر نے جواب دیا میں سگریٹ پینے باہر چلا گیا تھا۔ ساتھ میں اس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مرنے والوں کے ورثا کو ایک ایک کروڑ دینے کا اعلان حکومت نے کیا ہے، بس پھر کیا تھا، بیوی نے یو ٹرن لیا اور شوہر پر گھونسوں اور لاتوں کی بارش کردی اور بولی میں نے کتنی بار کہا ہے کہ سگریٹ مت پیا کرو۔‘‘ اسی طرح ایک ماں اپنے بچے سے بہت پریشان تھی ،کوئی کہنا نہ سنتا، بلکہ ماں کو ترکی بہ ترکی جواب دیتا، تنگ ہوکر ماں نے کہا کہ کاش تو پیدا ہوتے ہی یوٹرن لے لیتا۔‘‘

مصنف نے مزید وضاحت کی اور اس کی افادیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ’’اگرچہ ٹریفک سائن میں سے یوٹرن سب سے مقبول سائن ہے کچھ ضروری سوالات لکھ کر قارئین کے لیے ہنسنے مسکرانے کا سامان مہیا کردیا ہے۔ مثال کے طور پر یوٹرن کی تعریف کیجیے، اس کی اہمیت کو واضح کیجیے، ان حالات کا مفصل ذکرکیجیے جب یوٹرن لینا واجب ہوجاتا ہے، تاریخی شواہد سے ثابت کیجیے کہ یوٹرن کے حوالے سے سب سے مقبول لیڈر کون ہے؟ کسی ایک پر نوٹ لکھیے۔ (1)۔ بروقت یوٹرن۔ (2)۔تاخیر سے یوٹرن۔ (3)۔قابل فخر یو ٹرن۔

شعرا کے حوالے سے بھی محمد اسلام نے ان حالات زندگی اور ناکام محبت کا جائزہ نہایت دردمندی سے لیا ہے کہ بعض لوگوں کی زندگی یوٹرن کا مجموعہ ہے ، ان کی جوانی کسی نہ کسی طورگزر ہی جاتی ہے مگر بڑھاپے میں جب انھیں یوٹرن یاد آتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ مخدوم محی الدین کو یہی صورتحال درپیش ہے۔ فرماتے ہیں:

آپ کی یاد آتی رہی رات بھر

چشم نم مسکراتی رہی رات بھر

پروین شاکر کو اپنے محبوب کے ایسے یوٹرن بہت پسند تھے۔

وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

محمد اسلام نے ’’جوتا گردی‘‘ میں جوتے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور اس کی مثالیں بھی پیش کی ہیں، یہی تو خاصیت ہے ان کی تحریر کی، بغیر ثبوت کے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جوتا آپ کا ہم سفر ہے، یہ آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، اس کے علاوہ وہ تاریخ بھی بیان کر رہے ہیں کہ بعض جوتے تاریخی ہوتے ہیں، سابق صدر بش کو مارا گیا جوتا۔ اس طرح بھارتی وزیر اعظم کو جو جوتا مارا گیا تھا اسے بھی تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ نواز شریف کو بھی جوتا مارا گیا تھا لیکن انھوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ مضمون ’’ڈیمپائی ادب‘‘ بھی خاصے کی چیز ہے۔ اس پرکیا تبصرہ کریں، آپ خود ہی پڑھ لیجیے۔

’’ دنیا بھر میں سال میں ایک بار اپریل فول منایا جاتا ہے لیکن ہماری حکومتیں برسوں سے ڈیم فول منا رہی ہیں، انھوں نے حکیم شرارتی کا سہارا لیتے ہوئے کہا ہے کہ تم نے سبز باغ دکھائے، احمق بنایا، بے وقوف بنایا، مگر ڈیم نہیں بنایا۔‘‘ کتاب میں شامل پانچ خاکے بھی قابل تعریف ہیں، انھوں نے خوبصورت عکاسی اور ان کی علمیت کا پرچار کیا ہے جن میں سے وہ تین حضرات کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، عنبرین حسیب عنبر اور زیب اذکار حسین۔

محمد اسلام بحیثیت مزاح نگار کے قدآور مصنفین کی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔ میری دعا ہے کہ ان کا ادبی سفر یوں ہی جاری و ساری رہے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔