کتنے پینڈو تھے ہم!!

شیریں حیدر  اتوار 10 نومبر 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ توبہ… ‘‘ وہ بے ساختہ ہنسی تھی، ’’ کتنے پینڈو تھے نا ہم! ‘‘

’’ کیوں… کس بات پر کہا تم نے کہ تم پینڈو تھے ؟ ‘‘ اس کی مخاطب تو اس کی سہیلی تھی مگر چونکہ میں وہاں موجود تھی اور ان کی اس بے ساختہ ہنسی کا سبب نہ جانتی تھی تو بے اختیار پوچھ بیٹھی۔ ہمارے زمانے میں پینڈو لفظ کا مطلب ہوتا تھا، پنڈ ( گاؤں ) میں رہنے والا، جیسے شہر میں رہنے والا شہری ہوتا ہے ۔ اب کے بچوں کی لغت میں لفظ پینڈو بے وقوف، سادہ، احمق اور جاہل کے مطالب لیے ہوئے ہوتا ہے۔ ٹھیک ہی ہے، اب گاؤں میں رہنے والے تو سادہ مزاج رہے نہیں، اس لیے الفاظ کے مطالب تبدیل ہو جانے سے کسی گاؤں کے باسی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

’’ وہ ہم اس بات پر ہنس رہے تھے کہ ہمارے پاس پہلے پہل جو فون ہوتے تھے وہ کتنے بیک ورڈ تھے… بٹنوں والے، بھلا بٹنوں والے فون کی بھی کوئی تک ہوتی ہے، جب ایک ٹچ سے فون کو استعمال کر سکتے ہیں تو ٹچ ٹچ ٹچ ٹچ بٹن کیوں دباتے تھے ان پرانے فیشن کے فون کے۔ قسم سے اب تو کبھی اس فون کے بارے میں سوچو بھی تو خود پر ہنسی آتی ہے!! ‘‘

’’ موبائل فون جب شروع میں آئے تو اتنی ناقابل یقین ایجاد لگتی تھی کہ کوئی فون گھر میں فون کمپنی کی تار سے منسلک ہوئے بغیر کیونکر کام کر سکتا ہے۔ اس وقت اس فون کا سائز ہمارے گھروں میں موجود ٹیلی فون کے سائز سے بھی بڑا تھا اور اس سے بڑا اس کا انٹینا جو ہر جگہ ساتھ ساتھ اٹھانا پڑتا تھا!! ‘‘ میں انھیں موبائل فون کے اولین سیٹوں کے بارے میں بتا رہی تھی۔ انھیں تفصیل سے بتاتی تو ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے کہ ہم نے تار سے منسلک فون سے تعارف عمر کے کس حصے میں حاصل کیا تھا۔

ہمارے بچوں کو جب ان کے نانا دادا یہ بتاتے تھے کہ ان کے پاس پنکھے تھے نہ اے سی، یہ سب تو درکنار ان کے بچپن اور جوانی تک بھی بجلی کا کوئی تصور نہ تھا تو بچے حیران ہوتے تھے کہ وہ بجلی کے بغیر زندہ کیونکر رہتے تھے… انھیں علم ہی نہ تھا کہ ہمارے بزرگ تو بہت سی سہولیات اور ایجادات کے بغیر ہم سے بہتر زندگیاں گزار گئے ہیں ۔ جو بیماریاں اس نسل کے لوگوں کو اسی سال کی عمر میں ہوتی ہیں و ہ ہمیں چالیس کے بعد سے شروع ہو گئی تھیں اور ہمارے بچوں کو ٹین ایج گزرتے ہی، بیس کا سن لگتے ہی وہ سارے مسائل لاحق ہو جاتے ہیں ۔

’’ آپ کے پاس سب سے پہلا موبائل کون سا تھا اور کب لیا تھا آپ نے؟ ‘‘ سوال کرتے ہی ان کے منہ سے ہنسی کا فوارہ نکلا، ’’ نوکیا کا کوئی بٹنوں والا… گیارہ سو روپے والا؟ ‘‘

’’ نہیں … میرا پہلا فون ذرا بہتر تھا ! ‘‘ میںنے انھیں اپنے فون کا ماڈل بتایا، ’’جب میںنے یہ فون لیا تو میری عمر تیس برس کے لگ بھگ تھی! ‘‘

’’ تو اپنی زندگی کے پہلے تیس برس تک آپ کے پاس کوئی فون ہی نہیں تھا؟ ‘‘ ان کی حیرت دیدنی تھی۔ ’’ تو کیا کرتی تھیں آپ جب آپ کے پاس فون نہیں تھا تو؟‘‘

’’ تب میں اپنی زندگی کو گزار رہی تھی، اب زندگی مجھے گزار رہی ہے!! میری ساری دنیا سمٹ کر میری مٹھی میں آگئی ہے۔ میرے لیے سب سے اہم میرا فون بن گیا ہے، باقی سب ثانوی ترجیحات ہو گئی ہیں ۔ سائلنٹ پر لگا ہوا فون کہیں رکھ کر بھول جاؤ تو جان حلق میں آ جاتی ہے ( اول تو ہم اسے ہاتھ سے رکھتے ہی نہیں) ۔ اس کے آنے سے پہلے میری زندگی میں بہت کچھ تھا، کتابیں تھیں جنھیں ہم رات دیر سے لیٹ کر، نیم روشنی میں پڑھتے تھے اور نیند آتی تو اسے تکیے تلے رکھ کر سوجاتے تھے۔ نئی کتاب کے کاغذ کی خوشبو ابھی تک مجھے اتنی ہی پسند ہے ، اس سے اتنا ہی رومانس ہے جتنا سوکھی مٹی پر بارش کی پہلی پہلی بوندیں پڑنے کی سوندھی سوندھی مہک سے ہے۔

اپنے پیاروں کے ساتھ خطوط کے تبادلے تھے، خط لکھ کر اسے پوسٹ کرتے ہی جواب کاانتظار شروع ہو جاتا تھا۔ کیلنڈر تھے، سال کے آخر میں اگلے برس کے کیلنڈر آنے کا انتظار شروع ہو جاتا تھا، بچوں ، پرندوں ، خوبصورت مناظر اور پھولوں کی تصاویر والے کیلنڈر گھروں کی دیواروں کی زینت بنتے تھے، جن پر ہم اپنی مصروفیات او رمستقبل کے ارادے لکھتے تھے۔ نئے برس کی ڈائریاں ایک دوسرے کے لیے بہترین تحفہ ہوتے تھے، یہ ڈائریاں ہمارے دلوں کے قریب ہوتی تھیں، ہماری دوست۔ ان سے ہم سب کچھ کہہ دیتے تھے اور پھر انھیں کسی خزانے کی طرح چھپا چھپا کررکھتے تھے کہ ہمارے دل کا حال… ہمارے راز کوئی جان نہ لے۔

سردیوں کی ٹھٹھرتی دوپہروں اور گرما کی لو پڑتی شاموں میں لڑکیاں بالیاں اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر کوکلا چھپاکی، شاہ شٹاپو اور اسی نوعیت کے کھیل کھیلتیں ، اس دوران ان کی مائیں اپنی سوشل مصروفیات ، یعنی گپ شپ ، سلائی بنائی وغیرہ کر لیتی تھیں اور ساتھ میں اپنی بچیوں پر نظر بھی رکھتیں ۔ اب سب کچھ اس فون نے ختم کر لیا، ضم کر لیا، ہضم کرلیا ۔ ہمارے بچپن والے رومانس اب ختم ہوئے جو کہ اپنی گڑیوں سے تھے، کتابوں سے تھے، رسالوں سے تھے، خطوں ، ڈائریوں اور کیلنڈروں سے تھے، سہیلیوں سے تھے، بزرگوں کی کہانیوں سے تھے۔ ‘‘

’’ ظاہر ہے کہ زمانہ تبدیل ہو گیا ہے، سب کچھ نیا ہے، زندگی تیز رفتار ہو گئی ہے!!‘‘

’’ بالکل صحیح کہہ رہی ہو بیٹا، زندگی اتنی تیز رفتار ہو گئی ہے کہ وقت کے پہئے کو رفتار لگ گئی ہے، وقت میں اتنی بے برکتی ہے کہ صبح سے لے کر شام کرنا … جو کبھی جوئے شیر کا لانا لگتا تھا، اب وہ ریت کی طرح مٹھی سے پھسلتا ہوا لگتا ہے! ‘‘ میںنے گہری سانس لی۔ ’’میں اس چیز کو بہت شدت سے محسوس کرتی ہوں کہ ہمارے بچوں کے پاس بہت کچھ ہے آج، شاید یہ سب ان کا نہیں، وقت کا تقاضہ ہے کہ شیر خوار بچے بھی اسمارٹ فون کے بغیر اپنا سیریل تک نہیں کھاتے، فیڈر سے دودھ نہیں پیتے جب تک سامنے اسکرین پر کچھ نظر نہ آ رہا ہو۔ ماؤں نے اپنے بچے ان devices کے حوالے کر دیے ہیں اور اب ان کی تربیت وہی کر رہے ہیں! ‘‘

’’ ایسا تو ہونا ہی ہے… اگلی نسل کے لیے تو یہ چیزیں بہت عام اور ضروری ہیں ! ‘‘

’’ ہماری بد قسمتی کہ ہمارے بچے ایسا سوچتے ہیں ورنہ جنہوں نے یہ ’’ فساد کی جڑیں‘‘ ایجاد کی ہیں ، وہ اپنے بچوں کو ایک عمر سے پہلے انھیں استعمال نہیں کرنے دیتے، ان کے اسکولوں میں ان کا استعمال منع ہے، لیکن ہمارے ہاں کھلی چھوٹ ہے۔ ہمارے ہاں جس کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے… وہ ’’ پینڈو‘‘ ہے۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ہمارے بچوں کا بچپن اس طرح خوب صورت نہیں جس طرح ہمارا تھا۔ ہم اپنے بچپن کی محرومیوں کو اس بری طرح محسوس نہیں کرتے جس طرح کہ آج کے بچے فقط دس سال سے بھی کم عرصے میں اس بات پر شرمندہ ہیں کہ وہ بٹنوں والے فون استعمال کرتے تھے۔ ہمارے بچپن کے دور میں مادی چیزوں کی اتنی اہمیت نہ تھی جتنی رشتوں اور جذبات کی تھی۔ جن چند چیزوں کو میں زندگی کا جزو لازم سجھتی ہوں، ان سے ہمارے بچے کوسوں دور ہیں۔

… ان میں سب سے اہم رشتہ داروں سے میل ملاقات ہے، ان کے ہاں جانا، ان سے ملنا، انھیں وقت دینا، ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا۔

… دوسرے نمبر پر اہم ہے بچوں کا جسمانی کسرت کرنا، کھیلنا، سیر وتفریح کے لیے نکلنا ۔ کھیل، جسمانی ورزش اور کسرت صرف ہماری جسمانی صحت کے لیے ضروری نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری ذہنی استعداد کو بڑھانے اور ہمیں چست اور صحت مندرکھنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ بیماریوں سے بچاتی ہیں اور جسم میں دوران خون کو منظم رکھتی ہیں۔

… تیسری اہم چیز ہے بچوں کا کتب بینی سے دور ہونا۔ کتابوں سے دوری نے بچوں کو مذہب اور معاشرے کے علوم سے دور کر دیا ہے۔ ان میں ادب آداب کا فقدان ہو گیا ہے، ذہنوں میں کشادگی ہے نہ علم کی پیاس ، نہ فہم نہ سوچ۔ سب مشینیں سی بن گئے ہیں۔ ان کے لیے اپنے ذہن کو کھولنا بہت اہم ہے، اپنے اپنے کوکون میں بند، اپنی اپنی مٹھیوں میں اپنی دنیا اٹھائے، ہم دور والوں سے رابطے میں اور قریب والوں سے کتنے دور ہو گئے ہیں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔