صبح کرنا شام کا

حمید احمد سیٹھی  اتوار 10 نومبر 2019
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

یہ کوئی نئی بات نہیں، طویل عرصہ سے دیکھنے ، سننے میں آ رہا ہے کہ جب بھی دوست احباب کا اکٹھ ہوتا ہے تو کچھ ہی دیر میں اُن کی گُفتگو کا محور ملکی سیاست ہوتا ہے اور لُطف کی بات کہ اِس میں کسی نئے پن، اُمید، خوشی، بہتری، ترقی، کامیابی، فخر اور فتح و کامرانی کا ذکر شاذ ہی ہوتا ہے۔

ملکی سیاست اور چند سیاستدانوں کی بد اعمالیوں کے علاوہ ملک کے مستقبل پر امید و بیم پر مبنی قیاس آرائیاں ہوتی ہیں۔ اخبار ، ٹیلیویژن کی خبروں اور موبائل فون پر آئے پیغامات پر تبصرہ ہوتا ہے۔ درمیان میں ایک دوسرے کی آراء پر اتفاق، اختلاف اور اپنا پسندیدہ اور نا پسندیدہ اظہار ِ خیال ہونے کے بعد یہ مجلس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر برخواست ہو جاتی ہے۔

یہ عجیب نہیں تو بے تُکی محفلیں کھانے کی میز ہوں یا چائے کی ٹیبل، ایک ایسا وقت گزارنے ، ٹائم پاس کرنے اور اندر کا غم و غصہّ دُور کرنے کا ذریعہ ہے جس پر کوئی خرچ نہیں ہوتا لیکن بحث مباحثے کے بعد دل ہلکا ہو جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کے پاس مصروفیت کی کمی اور وقت کی بے تحاشہ فراغت ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے مصروفیت کے حوالے سے کسی سے یہ کہنا کہ:۔

’’بیکار مبارش کچھ کیا کر ٹانکے اُھیڑ کر سِیاکر‘‘

دوست احباب کی محفل میں ملکی سیاست پر گفتگو کا شوق تو اپنی جگہ اب اکثر سبزی ، گوشت کے دُوکاندار بھی اپنے مستقل گاہکوں کے ساتھ بے تکلف ہو کر پوچھ لیتے ہیں کہ ’’ سر کیا خیال ہے وزیر ِ اعظم عمران خاں کی پارٹی اپنی پانچ سال کی ٹرم پوری کرپائے گی‘‘؟

چند پرُانے تعلق والے دُوکاندار مجھ سے ضرور یہ سوال کرتے ہیں۔ پہلے میں ان کا سوال ٹال جایا کرتا تھا، اب اگر اصرار کریں تو میں انھی سے سوال کرتا ہوں کہ آپ نے اپنی دُوکان پر منیجر رکھنا ہو، آپ کے پاس دو امیدوار ہوں ، ایک نہایت تجربہ کار، شاطر لیکن ڈنڈی مارنے کی شہرت رکھتا ہو ، دوسرا ذرا اناڑی، محنتی لیکن ایماندار ہو تو کسے ملازم رکھیں گے؟ میری بات سُن کر وہ ہنستے اور جواب دیتے ہیں ’’ سر میں ایماندار شخص ہی کو ملازم رکھوں گا‘‘۔ میری یہ جوابی اسٹوری مارکیٹ میں عام اور مقبول ہو گئی ہے اور دُوکاندار اس میں اپنی طرف سے اضافہ کر کے ہنستے اور آپس میں مذاق کرتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیںہونا چاہیے کہ ایک بار صوبائی وزیر دوبار اسی صوبے کا وزیر ِ اعلیٰ اور تین بار ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونے والے شخص یعنی نواز شریف میں کوئی غیر معمولی صلاحیت تو ہے کہ وہ چھ بار مسند ِ اقتدار پر متمکن رہا لیکن اس جیسے درجنوں حکمران بھی ہو گزرے ہیں جو طویل اقتدار کے بعد ملک سے فرار ہوئے، پابند ِ سلاسل ہوئے یا عمر قید پا کر پھانسی گھاٹ بھی چڑھے۔ یہ بھی تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ:۔ Power Corrupts and absolute power corrupts absolutely۔ ہمیں صرف عدلیہ کے فیصلوں پر اعتمار کرنا چاہیے اگر چہ حکمرانوں کے کارنامے اور کرتوت ہمیشہ عدالتوں تک نہیں پہنچا کرتے لیکن جیسے خوشبو اور بدبو ماحول میں پھیل کر اپنا پتہ بتا دیتی ہے اسی طرح حکمرانوں کی اچھائیاں اور بدیاں جلد یا بدیر خود کو ظاہر کر دیتی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور شریف فیملی کے نزدیک ملک کا اکلوتا مسئلہ اس وقت نواز شریف صاحب کی صحت ہے۔ ان کے نزدیک ملک کو اس کے علاوہ بھی کوئی مسئلہ درپیش ہے تو وہ جائے بھاڑ میں ، مولانا فضل الرحمٰن کو وزیر ِ اعظم عمران کا فوری استعفیٰ اور دو تین ماہ کے اندر نئے جنرل الیکشن مطلوب ہیں جب کہ وہ اس مقصد کے لیے سارے ملک میں جلسے جلوس اور ہنگامے برپا کر نے کے لیے تُلے بیٹھے ہیں۔ میں نے قانون او رآئین کے ایک ماہر سے مولانا کے مطالبے پر رائے لی تو جواب ملا کہ مولانا کے مطالبات چاہے صحیح بھی ہوں ان کے لیے حقیقی فورم قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن ہیں۔

آزادی مارچ اور دھرنا غیر قانونی ہی نہیں لوگوں کو گمراہ کرنے اور عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا باعث ہیں۔ اگرچہ حکومت نے لانگ مارچ اور دھرنے کی اجازت دی ہے لیکن اس پر بھی لوگوں کو تحفّظات ہیں کیونکہ لاکھوں شہریوں کی آزادی بھی متاثر ہوئی ہے۔ کسی حکومت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عام شہریوں کی نقل و حرکت اور آزادی سلب کرنے والے احکامات ملک کے کسی بھی گروہ کو Accomodate کرنے کے لیے صادر کرے۔

گزشتہ پندرہ بیس روز سے ملک کے TV اور اخبارات کے ذریعے حالات ِ حاضرہ سے خود کو باخبر رکھنے والے لوگ جن کا خیال ہے کہ ٹیلیویژن News  اور Entertainment  کا اہم ذریعہ ہے ، صرف دو خبروں کو سُن کر اور دیکھ دیکھ کر خود سے بیزار ہو رہے ہیں۔ خدا میاں نواز شریف کو صحت دے لیکن کیا صبح سے رات تک ہمیں میاں صاحب کے پلیٹ لٹس کا اُتار چڑھائو ہی دیکھ کر دن گزارنا ہے اور پھر دُعا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن دوبارہ قومی اسمبلی کی ہاری ہوئی سیٹ جیت کر کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی ہی نہیں ، ملک کی وزارت عظمیٰ پر بھی براجمان ہوں۔ لیکن کیا پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو صرف ان دو ایشوز پر نظریں جمائے رکھنا ہے؟ خدا نہ کرے کہ ہم اس کی ان گنت نعمتوں سے محروم ہو کر ہر روز یہ مصرع پڑھتے ہوئے رات بستر پر گر یں کہ :۔

صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شِیر کا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔