بچھڑاہواگھر

جاوید چوہدری  ہفتہ 1 ستمبر 2012
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ترکی کی موجودہ حکومت نے دنیا میں گورننس کا تصور بدل دیا‘ طیب اردگان اور عبداللہ گل کی حکومت سے پہلے دنیا کا خیال تھا ملک کی پرانی سیاسی جماعتیں اور تجربہ کار سیاستدان ہی قوم کا مقدر بدل سکتے ہیں لیکن جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے ثابت کر دیا قوم کی حالت بدلنے کے لیے سیاسی تجربہ اور طویل جمہوری جدوجہد ضروری نہیں‘ آپ ایماندار ہیں‘ اہل ہیں اور محنت کر سکتے ہیں تو آپ مرد بیمار کو دس سال میں دنیا کی پندرہویں معاشی طاقت بھی بنا سکتے ہیں اور استنبول جیسے اس شہر کو دس بڑی سیاحتی منازل میں بھی شامل کر سکتے ہیں جو 2002ء تک دنیا کے غیر محفوظ ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ انقلاب استنبول کی میئر شپ سے شروع ہوا‘ طیب اردگان مارچ 1994ء میں استنبول شہر کے میئر بن گئے‘ اس وقت یہ شہر مافیاز کا گڑھ تھا‘ شہر میں کرائے کے قاتل پھرتے تھے ‘

یہ کراچی کی طرح چند ہزار روپے کے موبائل فون کے لیے لوگوں کو سرے عام گولی مار دیتے تھے‘ پورے شہر میں منشیات اور طوائف بازی عام تھی‘ استنبول یورپ کا آلودہ ترین شہر بھی تھا‘ لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں تھا اور گلیوں‘ بازاروں اور چوکوں میں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوتے تھے‘ پبلک ٹرانسپورٹ کا نام و نشان نہ تھا اور یہ شہر انسانی اسمگلروں کا دارالحکومت بھی بن چکا تھا‘ استنبول شہر کی میونسپل کارپوریشن بھی دو بلین ڈالر خسارے میں تھی لیکن طیب اردگان آئے اور کمال کر دیا‘ انھوں نے 4 سال میں نہ صرف شہر کو کرائم فری بنا دیا بلکہ پورے شہر کی حالت بدل دی‘ استنبول یورپ کے صاف ترین شہروں میں بھی شمار ہونے لگا اور خسارے کی شکار میونسپل کارپوریشن بھی چار بلین ڈالر منافع میں چلی گئی‘

ترکی میں انقلاب کے بعد سے فوج کا غلبہ تھا‘ عوام کے مقدر کا فیصلہ فوج کرتی تھی‘ فوج مذہب‘ اسلام اور علماء کرام کے خلاف تھی‘فوج مساجد‘ قرآن مجید اور پردے کی بھی مخالف تھی لیکن طیب اردگان کی گورننس نے فوج کے 70 سالہ اقتدار کو پسپائی پر مجبور کر دیا‘ لوگوں نے جسٹس پارٹی کو جنرل الیکشن نومبر 2002ء میں 34.28 فیصد‘ 2007ء میں 46.58 فیصداور 2011ء کے الیکشن میں 49.83 فیصد ووٹ دیئے اور یہ عوامی حمایت سے اقتدار میں آتی چلی گئی یہاں تک کہ آج ترکی میں نہ صرف اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو رہی ہے بلکہ پردہ بھی واپس آ چکا ہے‘

مساجد بھی آباد ہو چکی ہیں اور بیس بیس طاقتور فوجی جرنیل کورٹ مارشل کے عمل سے بھی گزر رہے ہیں اور یہ انقلاب صرف دس سال میں آیا‘ اس انقلاب کی واحد وجہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی گورننس تھی‘ ترک عوام نے دیکھا وہ مسائل جو ملک کی لبرل‘ امریکا کی حمایت یافتہ اور فوجی حکمرانوں کی پروردہ سیاسی جماعتیں 70سال میں حل نہیں کر سکیںوہ مسائل اسلام پسندوں نے صرف پانچ چھ برسوں میں جڑوں سے اکھیڑ دیئے چنانچہ عوام ان کے ساتھ شامل ہوتے چلے گئے اور آج یہ لوگ ترکی کے اقتدار کے بلاشرکت غیرے مالک ہیں اور یہ ملک کو ترقی کے ٹریک پر آگے سے آگے لے جا رہے ہیں۔

ہم ترکی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ ہمارا ترکی کے ساتھ صدیوں کا رابطہ ہے‘ ہندوستان کے زیادہ تر حکمرانوں کا تعلق ترک خاندانوں سے تھا‘ ترک برصغیر میں دو ہزار سال سے آ رہے ہیں چنانچہ پاکستان کی زیادہ تر نسلوں میں ترک خون کی آمیزش ہے‘ ہم سب آدھے سے زیادہ ترک ہیں‘ ہمارے کھانے‘ ہماری زبان اور ہمارے جذبات پچاس فیصد ترک ہیں‘ اردو کا لفظ ہی ترکی ہے‘ ہماری زبان کے 30 فیصد الفاظ ترک ہیں چنانچہ ہم سماجی‘ نظریاتی اور نفسیاتی لحاظ سے ترکی کے بہت قریب ہیں‘ ترکی دنیا کے ان چند ممالک میں بھی شمار ہوتا ہے جہاں آج بھی پاکستان کی عزت برقرار ہے‘دوسری وجہ جذباتی اور روحانی ہے‘ ترک اور پاکستانی قوم دو ایسی اسلامی قومیں ہیں جنھیں رسول اللہﷺ کی بشارت ہے‘

ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے مسلسل 821 سال کوشش کی یہاں تک کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سلطان محمد ثانی کے خواب میں آئے اور اپنے مدفن کی نشاندہی کی اور سلطان محمد فاتح نے 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کر لیا‘ سلطان فاتح کے بعد تمام عثمانی سلطانوں کی تاج پوشی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر ہوتی رہی چنانچہ قسطنطنیہ کی فتح کی وجہ سے ترک نبی اکرمؐ کی بشارت کے دائرے میں آتے ہیں شاید یہی وجہ ہے یہ اسلام سے بے انتہا محبت کرتے ہیں‘ پاکستانی قوم بھی غزوہ ہند کی وجہ سے نبی اکرمؐ کی بشارت سے بہرہ مند ہو گی‘ یہ غزوہ بھی احادیث سے باقاعدہ ثابت ہوتا ہے‘ ترکی اور پاکستان میں قربت کی چند مزید وجوہات بھی موجود ہیں مثلاً استنبول 1924ء تک اسمبول (اسلام بول) کہلاتا تھا‘ اتاترک نے اس کا نام اسمبول سے استنبول رکھ دیا‘ اسلام بول یا اسمبول کا مطلب وہی ہے جو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا ہے‘

عثمانی خلافت کے شاہی نشان میں دو جھنڈے تھے‘ ایک سرخ جھنڈا اور دوسرا سبز جھنڈا‘ یہ خلافت 1924ء میں ختم ہو گئی‘ اس کے بعد ترک ری پبلک بنی‘ اتاترک نے عثمانی خلافت کے سرخ جھنڈے کو ترکی کا سرکاری جھنڈا بنا دیا لیکن 25 سال بعد ترک خلافت کے نشان میں موجود سبز جھنڈا پاکستان کا پرچم بن گیا‘ آپ آج بھی ترک خلافت کا سرکاری نشان نکال کردیکھ لیں آپ کو اس میں پاکستان کا جھنڈا ملے گا‘ برصغیر کی مسلمان خواتین نے 1919ء کی تحریک خلافت کے دوران ترک بھائیوں کو زیورات بھجوائے تھے‘ یہ زیورات آج بھی انقرہ میوزیم میں موجود ہیں‘ ترکوں نے آج تک 1919ء کی یہ قربانی فراموش نہیں کی‘ محمد اقبال ترکوں کا پسندیدہ ترین نام ہے‘ یہ آج بھی اپنے بچوں کا نام محمد اقبال رکھتے ہیں‘ ترکوں نے قونیہ میں مولانا روم کے مزار کے سامنے علامہ اقبال کی علامتی قبر بنا رکھی ہے‘

اس قبر پر محمد اقبال لاہوری لکھا ہے اور ترک روزانہ اس علامتی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں‘ ترک پاکستان سے کس قدر محبت کرتے ہیں آپ اس کا اندازہ 2010ء کے سیلاب سے لگا لیجیے‘ طیب اردگان کی اہلیہ 2010ء کے سیلاب کے دوران پاکستان تشریف لائیں اور انھوں نے اپنا وہ نیکلس پاکستانی سیلاب زدگان کو دے دیا جو طیب اردگان نے شادی کے موقع پر انھیں دیا تھا‘اس وقت کے چیئرمین نادرا علی ارشد حکیم نے اس نیکلس کو 16 لاکھ میں خریدکر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کردیا‘ ایمن اردگان کو ان خدمات پر پاکستان کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ ہلال پاکستان سے نوازا گیا‘ ترکی کے فارن منسٹراحمد دیوتوگلو کی اہلیہ ڈاکٹر سلمیٰ سیلاب کے دس دن نوشہرہ کے کیمپ میں رہیں اور یہ اپنے ہاتھوں سے سیلاب زدگان کی مدد کرتی رہیں اور ان سب سے بڑھ کر آپ پاکستان کا ہزار روپے کا نوٹ نکال کر دیکھئے‘

آپ کو اس نوٹ کے دائیں سرے پر سرخ رنگ کا جھنڈا نظر آئے گا‘ یہ ترکی کا جھنڈا ہے‘ یہ جھنڈا ٹیکنیکل فالٹ کی وجہ سے نوٹ پر چھپ گیا تھا‘ یہ نوٹس میں آیا تو حکومت نے اسے جوں کا توں رہنے دیا اور یوں یہ دنیا کا واحد نوٹ ہے جس پر کسی دوسرے ملک کا جھنڈا چھپا ہے‘ کیا یہ تمام واقعات محض اتفاق ہیں یا پھر قدرت بھی پاکستان اور ترکی کو قریب دیکھنا چاہتی ہے‘ میرا خیال ہے قدرت ان دونوں ممالک کو ساتھ ساتھ دیکھنا چاہتی ہے چنانچہ ہمیں ترکی کے لیے اپنے دروازے کھول دینے چاہئیں اور ترکوں کو بھی اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کو بھینچ لینا چاہیے‘ ترکی زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے‘ اس کی انڈسٹری‘ تعلیم‘ صحت اور ہیومن ریسورس چاروں شعبے ترقی کر رہے ہیں‘ ہمیں ان چاروں شعبوں میں ان کی مدد لینی چاہیے‘ ترکی اور پاکستان کو ایران کو ساتھ ملا کر روڈ نیٹ ورک بھی تشکیل دینا چاہیے تاکہ تینوں ممالک کا ایک دوسرے سے انٹرایکشن بڑھ سکے‘ یہ رابطہ پورے خطے کی حالت بدل دے گا‘ ہمارا وژن بھی کھلے گا اور ہماری سیاسی قیادت بھی طیب اردگان جیسے لوگوں سے بہت کچھ سیکھ سکے گی چنانچہ ہماری ترقی کے لیے ترکی بہت ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔