’’گنجے فرشتے‘‘ اور’’لائوڈاسپیکر‘‘

رئیس فاطمہ  ہفتہ 1 ستمبر 2012
raeesfatima17@yahoo.com

[email protected]

ایک وہ وقت تھا جب لوگ اس کی جان کے درپے تھے، نفرت، تعصب اور بے رحمی کی حد تک سنگدلی کا مظاہرہ کرنے والے اسے اس کے افسانوں کے حوالے سے معتوب قرار دیتے تھے لیکن آج اسی کا سو سالہ جشن پیدائش منایا جا رہا ہے۔ جس نے اپنے اوپر چلنے والے مقدمات میں اپنی صفائی میں صرف اتنا کہا تھا کہ ’’میں نے تو بس اتنا کیا ہے کہ چادروں اور قالینوں کے نیچے چھپی گندگی پر سے کپڑا ہٹا دیا ہے۔ میرے افسانوں میں جو تعفن اور غلاظت آپ کو دکھائی دیتی ہے وہ اس سماج کا چہرہ ہے جسے لیپا پوتی سے چھپا دیا گیا ہے۔‘‘ 2012ء کا سال سعادت حسن منٹو سے منسوب ٹھہرا لیکن زیادہ تر بات ہمیشہ اس کے افسانوں پر ہی ہوئی، جہاں بھی ضرورت ہوئی ’نیا قانون، ممی، موذیل، ٹوبہ ٹیک سنگھ، بابو گوپی ناتھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت اور سڑک کے کنارے‘ کا بار بار تذکرہ آیا۔

جس طرح قرۃ العین حیدر کے ناولوں کو ناقدین اور قارئین نے زیادہ سراہا اور انھی پر زیادہ تر بات کی گئی اور ان کے بہترین افسانوں کو نظر انداز کیا گیا، اسی طرح منٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ اس کے افسانوں کے سائے تلے اس کے شخصی خاکے دب گئے۔ میں یقین سے کہتی ہوں کہ منٹو اگر صرف اور صرف یہ خاکے ہی لکھتا تو بھی اتنا ہی قد آور اور نام ور ہوتا جتنا کہ آج ہے جبکہ المیہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو منٹو کے شیدائی ہیں وہ بھی لے دے کے صرف ایک خاکے کا ذکر کرتے ہیں جس کا عنوان ہے ’’میرا صاحب‘‘ جو محمد علی جناح کا خاکہ ہے اور جس کا راوی تھا کیریکٹر اداکار محمد حنیف آزاد جو قائداعظم کا ڈرائیور تھا۔

جبکہ منٹو نے چوبیس شخصیتوں کے خاکے لکھے جن میں اس کے قریب ترین دوست اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔ یہ خاکے دو مجموعوں پر مشتمل ہیں، گنجے فرشتے، لائوڈاسپیکر۔ یہ حقیقت ہے کہ منٹو کے قلم کی سفاکی اور بے رحمی ان خاکوں میں بھی جلوہ گر ہے۔ اس نے کسی کو بھی نہیں بخشا ہے خواہ وہ اس کا کتنا ہی قریبی دوست کیوں نہ ہو۔ اس نے جس شخصیت کو جیسا دیکھا ویسا ہی لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔ گویا منٹو کے قلم نے ایکسرے مشین کا کام کیا ہے نہ کہ مصور کا جو خراب تصویر کو اپنے ہنر اور رنگوں سے جاذب نظر بنا دیتا ہے۔

’’گنجے فرشتے‘‘ کے دیباچے میں منٹو نے خود کہا ہے۔

’’میرے اصلاح خانے میں کوئی شانہ نہیں، کوئی شیمپو نہیں، کوئی گھونگر پیدا کرنے والی مشین نہیں، میں بنائو سنگھار کرنا نہیں جانتا۔ آغا حشر کی بھینگی آنکھ مجھ سے سیدھی نہیں ہو سکی، اس کے منہ سے گالیوں کے بجائے میں پھول نہیں جھڑا سکا۔ میرا جی کی ضلالت پہ مجھ سے استری نہ ہوسکی۔ اس کتاب میں جو فرشتہ بھی آیا اس کا مونڈن ہوا ہے اور یہ رسم میں نے بڑے سلیقے سے ادا کی ہے۔‘‘

ان چوبیس شخصیات پہ لکھے جانے والے تمام خاکے انتہائی دلچسپ، کھردرے اور حقیقت سے قریب ہیں۔ کوئی خاکہ بھی ایسا نہیں کہ آپ سرسری گزر جائیں لیکن وہ خاکے جنھیں کمال کے خاکے کہنا چاہیے ان میں اداکار شیام کا خاکہ (جو پی ٹی وی کی ذہین پرویوڈسر ساحرہ کاظمی کے والد تھے) کلدیپ کور، پری چہرہ نسیم بانو، آغا حشر، باری علیگ (جو صحیح معنوں میں منٹو کے استاد (MENTOR) تھے، اشوک کمار ، رفیق غزنوی، نور جہاں، نرگس، انور کمال پاشا، اختر شیرانی اور پراسرار نیناں کے خاکے شامل ہیں۔ آخر الذکر خاکہ جس کو منٹو نے ’’پراسرار نیناں‘‘ کا نام دیا ہے دراصل خاکے کی تعریف میں تو نہیں آتا کیوں کہ اس میں ’’نیناں‘‘ کا ذکر تو برائے نام ہی ہے البتہ ڈبلیو زیڈ احمد اور نیناں کے شوہر محسن عبداﷲ کا زیادہ ہے۔ اب یہ بھی جان لیجیے کہ یہ نیناں تھی کون جسے ڈبلیو زیڈ احمد نے پردہ سیمیں پہ پراسرار بنا کر پیش کیا۔

دراصل نیناں کا اصل نام شاہدہ تھا، یہ ایک سیدھی سادی گھریلو خاتون تھی جس کی شادی ڈاکٹر رشید جہاں اور بیگم خورشید مرزا (رینوکا دیوی) کے بھائی محسن عبداﷲ سے ہوئی تھی۔ شاہدہ اپنی نندوں کی طرح آزاد خیال نہیں تھی جبکہ محسن فلمی دنیا میں رائج تمام خرابیوں کا عادی تھا۔ ہرجائی طبیعت کی بنا پر وہ شاہدہ کو نظر انداز کرتا رہا، اسی دوران محسن کی بے رخی کی کمی ڈبلیو زیڈ احمد نے پوری کر دی جو کہ ’’ادبی دنیا‘‘ کے ایڈیٹر مولانا صلاح الدین احمد کے بھائی تھے۔ ڈبلیو زیڈ احمد نے بعد میں نیناں سے شادی کر لی تھی جبکہ ان کی پہلی بیوی صفیہ سے، جو کہ وزیراعلیٰ سندھ غلام حسین ہدایت اﷲ (مرحوم) کی بیٹی تھیں، سبط حسن نے شادی کر لی۔ یہ بہت دلچسپ خاکہ ہے جس میں بڑے بڑے انکشافات ہیں۔

اسی طرح پری چہرہ نسیم بانو (سائرہ بانو کی ماں، دلیپ کمار کی ساس) کا خاکہ بھی اس کی ذاتی زندگی سے پردہ اٹھاتا ہے کہ نسیم ایک گھریلو قسم کی عورت تھی جو اپنی پکچر کے لیے ملبوسات اپنی پرانی ساڑیوں، غراروں اور قمیضوں سے خود تیار کرواتی تھی۔ فلم ساز پہ بلاوجہ کا بوجھ نہیں ڈالتی تھی۔ وہ اس حد تک کفایت شعار تھی کہ ایک دن گوالے سے اس بات پر بحث کر رہی تھی کہ اس نے آدھ سیر دودھ کا ہیر پھیر کیا ہے۔ منٹو لکھتے ہیں ’’آدھ سیر دودھ، اور پری چہرہ نسیم بانو جس کے لیے کئی فرہاد دودھ کی نہریں نکالنے کے لیے تیار تھے۔‘‘

رفیق غزنوی جیسے ماہر موسیقار، گلوکار اور اداکار کے خاکے ہیں، انکشافات ہی انکشافات ہیں کہ سلمیٰ آغا، نیلی آنکھوں والی شاہینہ، خیام سرحدی، طاہرہ ، زبیتا آغا اور زرینہ آغا سے ان کا نہایت قریبی رشتہ تھا۔

نورجہاں کا خاکہ بھی اسی طرح بھرپور دلچسپی لیے ہوئے ہے۔ شوکت حسین رضوی کے علاوہ دیگر کردار بھی آپ کو اس خاکے میں ملیں گے۔ اس خاکے کو پڑھ کر ایک بہت مختلف نورجہاں کی تصویر ابھرتی ہے جو قدم قدم پر آپ کو چونکاتی ہے۔ باری علیگ صحیح معنوں میں منٹو کی زندگی اور اس کی کامیابی میں ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں، ان کے لیے لکھے گئے چند جملوں سے آپ کو خاکے کا اندازہ ہو جائے گا۔

’’باری صاحب ہمیشہ اپنی زندگی کی کوئی نہ کوئی کھڑکی کھول کر باہر کود جاتے رہے۔ یہ کھڑکی کھلی رہتی مگر پھر وہ کسی کو اپنی شکل نہ دکھاتے۔ باری صاحب قبر میں ہیں معلوم نہیں اس میں بھی کوئی ایسی کھڑکی ہے جس سے وہ کود کر باہر نکل سکیں۔‘‘

’’مرلی کی دھن‘‘ اداکار شیام کا خاکہ ہے جس کی زندگی میں تاجی (ممتاز) اور کلدیپ کور بہت اہمیت رکھتی تھیں۔ البتہ تاجی اس کے بچوں کی ماں بھی بنی کہ شیام نے اس سے شادی کرلی تھی۔ تاجی فلمی دنیا کی بڑی مشہور ہیروئن تھی۔ منٹو نے خود اپنا خاکہ بھی لکھا ہے اس میں وہی سفاکی اور سچائی ہے جو دوسروں کے خاکوں میں موجود ہے لیکن خود اپنے خاکے میں منٹو نے ان نام نہاد نقادوں کو بھی رگیدا ہے جو مغربی مفکرین، فلاسفر اور ادیبوں کے حوالے کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔

’’وہ ان پڑھ ہے اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا، فرائیڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری، ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے ، ہیولاک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ میرا مطلب ہے تنقید نگار یہ کہتے ہیں وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے جہاں تک میں جانتا ہوں منٹو کسی دوسرے کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں۔

دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام خاکے اس نے قلم برداشتہ لکھے ہیں ان شخصیات کے جو جو پہلو اس کے سامنے آتے گئے وہ اپنے قلم کی نوک سے اس میں ٹانکے لگاتا گیا۔ منٹو پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس نے ان خاکوں میں نہایت سنگدلی اور بے رحمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس بارے میں منٹو خود کیا کہتا ہے یہ سنیے۔

’’دنیاکے ہر مہذب ملک اور مہذب سماج میں یہ اصول مروج ہے کہ مرنے کے بعد خواہ دشمن ہی کیوں نہ ہو اسے اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے، اس کے صرف محاسن بیان کیے جاتے ہیں اور عیوب پہ پردہ ڈالا جاتا ہے۔ ویسے میں ایسی مہذب دنیا پر، ایسے مہذب ملک پر، ایسے مہذب سماج پر ہزار لعنت بھیجتا ہوں، جہاں اصول مروج ہو کہ مرنے کے بعد ہر شخص کا کردار اور تشخص لانڈری میں بھیج دیا جائے۔ جہاں سے وہ دھل دھلاکر آئے اور رحمتہ اﷲ علیہ کی کھونٹی پہ لٹکا دیا جائے۔‘‘

’’گنجے فرشتے‘‘ اور’’لائوڈاسپیکر‘‘ میں صرف چند خاکوں کو چھوڑ کر تمام خاکے فلمی دنیا کی ان شخصیات کے ہیں جن سے منٹو کا قریبی تعلق رہا۔ یہ تمام خاکے (چند باتوں کو نظر انداز کر کے) اپنی خاص اہمیت رکھتے ہیں ایک لحاظ سے یہ ایسے زندہ خاکے ہیں جن میں ہر کردار ہنستا بولتا اور بھرپور زندگی گزارتا نظر آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔