مغربی ملکوں کا دہرا معیار 

ظہیر اختر بیدری  منگل 12 نومبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

مشرق وسطیٰ کے شخصی اور خاندانی حکمرانوں نے اپنے اپنے ملکوں میں  ایسا سخت نظام قائم کر رکھا ہے کہ عوام جمہوریت کا نام لینے سے خوفزدہ رہتے ہیں، ایسے ماحول میں رائے عامہ کی بالادستی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں جمہوری ادارے سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔

امریکا اور مغربی ملکوں میں رائے عامہ کا احترام کیا جاتا ہے اور جمہوری ادارے مضبوط ہیں۔ آج کی دنیا میں رائے عامہ کا احترام لازمی ہے۔ یہ بات مغربی ملکوں کے حکمرانوں سے کون زیادہ بہتر جانتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں رائے عامہ کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا، جمہوری ادارے کیوں ناپید ہیں، کیا یہ سیٹ اپ صرف اس لیے جاری ہے کہ دو چار حکمرانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا آسان ہے، رائے عامہ یعنی عوام کی رضامندی حاصل کرنا مشکل ہے؟

امریکا کے صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ سے اپنی افواج واپس بلا لیں گے۔ بلاشبہ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن جو سیٹ اپ وہ مشرق وسطیٰ میں چھوڑ جا رہے ہیں، اس کی موجودگی میں کیا مشرق وسطیٰ میں عوامی قوتوں کی بالادستی ممکن ہے۔ کیا مشرق وسطیٰ کے شیوخ ملکی آمدنی کو عوام کی بھلائی صنعتی ترقی جیسے اہم کاموں میں استعمال کرسکتے ہیں؟

امریکی صدر ٹرمپ جمہوریت کے بڑے داعی ہیں۔ کسی ملک میں خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں سول حکومت کا تختہ الٹ کر فوج برسر اقتدار آتی ہے تو سارے مغربی ملک اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں، اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، سویلین بالادستی کے لیے مغربی ملکوں کی یہ پالیسی یقینا قابل تعریف ہے لیکن چراغ کے نیچے اندھیرا والی بات ہے کہ مشرق وسطیٰ  کے بارے میں مغرب یہ پالیسی نہیں ہے۔ کیا اس سیاست کو جمہوری سیاست اس حکمرانی کو جمہوری حکمرانی کہا جاسکتا ہے؟

بہ ایں ہمہ مشرق وسطیٰ سے امریکی فوج کا انخلا قابل تعریف ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں خاندانی نظام کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ مشرق وسطیٰ سے صرف غیر ملکی فوج کا انخلا مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے مسائل کا ہرگز حل نہیں ہے۔ امریکی صدر کیا اس سسٹم کو امریکا کے لیے پسند کریں گے جو مشرق وسطیٰ میں رائج ہے اور جسے مغربی ملکوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اگر مشرق وسطیٰ میں ترقی کی ضرورت ہے تو رائے عامہ کی برتری ضروری ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ عرب ملکوں میں  مغربی ملکوں کو یہ آسانی ہے کہ وہ ان حکمرانوں کو اپنی مرضی پر چلا سکتے ہیں۔ کیا یہ جمہوریت کے ساتھ  بے انصافی نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ کی دنیا خاص طور پر مغربی دنیا میں اہمیت تیل کی وجہ سے ہے۔ یہاں مغرب کی شاطرانہ سیاست کا ذکر بے جا نہیں ہوگا۔ امریکا میں تیل کے بڑے بڑے ذخائر ہیں لیکن امریکا نے ان ذخائر کو دبا کر رکھا ہوا ہے۔ پہلے وہ عربوں کے تیل کے چشمے خشک کرنا چاہتا ہے تاکہ عربوں کی تیل کے حوالے سے برتری کا خاتمہ ہوجائے، جب یہ ہو چکا ہوگا تو امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ملک اپنے ذخائر مارکیٹ میں لائیں گے چونکہ میدان مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں ہوگا لہٰذا یہ ملک اپنی مرضی کی قیمتوں پر تیل فروخت کرسکیں گے۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمران  عوام کی بالادستی کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مغربی ملکوں کے سیاستدان جن کی ہر سانس جمہوریت کے ساتھ باہر آتی ہے اور اندر جاتی ہے کیا مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کے حامی ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ یہاںایک ایسا نظام قائم کر رکھا ہے کہ ہر شخص دوسرے پر شک کرتا ہے ۔ 1990 میں ہمارا  ایک عرب  ملک مین جانے کا اتفاق ہوا ہم نے عوام میں خصوصاً مقامی عوام میں خوف اور مایوسی کی ایک ایسی فضا دیکھی ہے جو جمہوری معاشروں میں وجود ہی نہیں رکھتی۔ ہر شخص دوسرے سے خوفزدہ رہتا ہے۔

تیل کی بے بہا دولت کا استعمال نہ عوام کی ترقی پر ہوتا ہے نہ صنعتی ترقی پر، صرف محلات کی تعمیر پر ہوتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تیل کی دولت کی فراوانی کی وجہ عوام میں وہ غربت نہیں جو پسماندہ ملکوں کا مقدر بنی ہوئی ہے لیکن قومی دولت چند حکمرانوں کے قبضے سے نکل کر عوام میں آتی ہے تو عوام کے معیار زندگی میں زبردست اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سے ملتا جلتا حال پاکستان کا ہے جہاں مٹھی بھر اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر 72 سال سے قابض ہے اور قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے، اگر اربوں کھربوں کی یہ دولت جو ہماری اشرافیہ کے قبضے میں ہے اس قبضے سے آزاد ہوتی ہے تو پاکستان کے عوام کے معیار زندگی میں زبردست اضافہ ہوسکتا ہے۔

بات چلی تھی عرب ملکوں کے۔ ان کی تیل کی دولت قومی ترقی پر نہیں بلکہ مغربی ملکوں سے اسلحے کی خریداری پر اور مغربی ملکوں کے 5 اسٹار ہوٹلوں میں  قیام پر خرچ ہو رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔