آزادی مارچ کا سیاسی منظر نامہ 

مزمل سہروردی  منگل 12 نومبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

مولانا کا دھرنا تینوں فریقین کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ مولانا کا دھرنا مولانا کے لیے بھی اب ایک درد سر ہے۔ انھیں خود بھی سمجھ نہیں آرہی کہ آگے کیا کرنا ہے۔ حکومت کے لیے بھی درد سر ہے۔

ایک خوف ہے کہ اگر مولانا آگے بڑھے تو کیا ہوگا۔ تیسرے فریق کے لیے بھی درد سر ہے کیونکہ بڑی مشکل سے مولانا کی زبان تیسرے فریق نے اپنے لیے نرم کی ہے، اب دوبارہ سخت ہو گئی تو کیا کریں گے۔ اس لیے اس کھیل کا کوئی بھی فریق ابھی سکون میں نہیں ہے۔ اس دھرنے کی اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ کوئی فکس میچ نہیں ہے۔ جس کے نتائج سب کے علم میں ہوں۔ جس کے اہداف سب کے سامنے ہوں۔ یہ ایک کھلی سیاسی لڑائی ہے۔ جس میں کچھ بھی فکس نہیں ہے۔

سب فریقین اپنی اپنی طاقت اور ذہانت کے مطابق لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مولانا ایک بڑی سیاسی طاقت اسلام آباد میں جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ یہ مولانا کی پہلی فتح تھی۔ لیکن یہ حتمی فتح نہیں تھی۔ ڈی چوک کی طرف نہ جانے کے اعلان نے مولانا کی اس پہلی فتح کے اثرات کم کر دیے ہیں، حکومت کو نئی زندگی دی ہے۔ ورنہ اگر مولانا یہ خوف ہی باقی رکھتے کہ وہ ڈی چوک کی طرف جا سکتے ہیں تو حکومت پریشان رہتی۔ اس لیے جہاں اتنے زیادہ لوگ اسلام آباد میں لانا ایک بڑی کامیابی تھی وہاں ڈی چوک نہ جانے کے اعلان نے اس فتح کے ثمرات ضایع کر دیے ہیں۔

جہاں تک تیسرے فریق کا تعلق ہے تومولانا اس حد تک کامیاب رہے ہیں کہ تیسرے فریق نے نہ صرف اسلام آباد پہنچنے سے پہلے بلکہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد بھی سنجیدہ مذاکرات کیے ہیں۔ ان مذ اکرات کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ دونوں طرف سے نرمی صاف نظر آرہی ہے۔ جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔

کیا مولانا خالی ہاتھ جا سکتے ہیں۔ دل اور ذہن نہیں مانتا۔ اتنی بڑی سیاسی طاقت کو اسلام آباد میں جمع کر کے وہ خالی ہاتھ چلے جائیں گے۔ لیکن دوسری طرف اس حکومت میں اتنی سیاسی بصیرت بھی نہیں ہے کہ مولانا سے کوئی سیاسی مفاہمت کر سکے۔ اس حکومت کو دو ہی کام آتے ہیں یا یہ اپنے مخالف پر چڑھائی کر دیتی ہے کہ جان سے مار دے گی اور یا پھر ایسے سرنڈ ر کر دیتی ہے کہ سب حیران رہ جاتے ہیں۔ کبھی جیل سے اے سی اتارنے کا اعلان کر دیتی ہے اور کبھی گھر چھوڑ کر آتی ہے ۔اس لیے اس حکومت سے کسی درمیانی راستے کی امید رکھنا غلط ہوگا۔

یہ حکومت یا مولانا کو شکست دے گی یا مولانا سے شکست کھا جائے گی۔ ان میں معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اس لیے یہ تو ممکن ہے کہ کوئی اور ان کو لائف لائن لے دے۔ ان میں خود لائف لائن لینے کہ نہ تو ہمت ہے اور نہ ہی صلاحیت ہے۔ آپ دیکھیں ن لیگ اور پی پی پی کو اتنی رعایتیں دینے کے باوجود عمران خان اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ یہی سیاسی بارگین کر لیں کہ اچھا ہم اتنی رعایتیں دے رہے ہیں اس کے عوض آپ ہمیں سیاسی لائف لائن دیں گے۔

یہ حکومت اس سب کا کریڈٹ لینے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔اس لیے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اس دھرنے کی وجہ سے پریشان حکومت سے رعایتیں بھی سمیٹ رہی ہیں اور ساتھ ساتھ دھرنے کے کنٹینر پر بھی موجود ہیں۔ وہ سیاسی آسانیاں بھی حاصل کر رہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ اس حکومت کو گھر بھیجنے کے نعرے بھی لگا ر ہی ہیں۔ مولانا کب گھر چلے جائیں گے۔ مولانا کیسے واپس جائیں گے۔

مولانا کوئی ڈاکٹرطاہر القادری نہیں ہیں کہ ایک دن صبح ناشتے کے بعد آرام سے اعلان کر دیں گے کہ چلو بچو واپس چلتے ہیں۔ نہ مولانا ایسے کریں گے اور نہ ہی وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس لیے یہاں سے جانے سے پہلے وہ ایسا ماحول بنائیں گے کہ جانا کوئی شکست نہیں لگے گا۔ وہ حکومت کے لیے ایسی نئی مشکلات پیدا کریں گے جن کے سامنے یہ دھرنا ایک چھوٹی مشکل لگے لگا۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ اس موقع پر یہاں سے مولانا کو اٹھانا بھی کوئی عقلمندی ہوگی۔

مولانا کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ سیاسی طو ر پر تنہا نہیں ہیں۔ اسی لیے جب دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مولانا کے دھرنے کی وجہ سے سیاسی ثمرات سمیٹ رہیں۔ مولانا اف بھی نہیں کر رہے۔ ان کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ہیں۔ وہ مسکرا رہے ہیں۔ تا کہ یہ جماعتیں ان کے ساتھ کھڑی رہیں۔ مولانا کو علم ہے کہ یہ دونوں جماعتیں دھرنے اور مارچ میں ساتھ نہیں ہیں۔ لیکن مولانا پھر بھی ان کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک بہت بڑے سیاسی دل کی ضرورت ہے۔

ادھر حکومت دن بدن اپنی سیاسی تنہائی میں اضافہ کر رہی ہے۔ اس مارچ اور دھرنے سے پہلے اس حکومت کے پاس بیچنے کے لیے ایک ہی بات تھی کہ یہ پہلی حکومت ہے جس میں سب ایک پیج پر ہیں۔ لیکن آج لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔کرتار پور کے افتتاح پر بھی پر لوگوں کی نظریں رہی ہیں اورکچھ کمی محسوس کی گئی ہے۔ یہ بات بھی محسوس کی گئی ہے کہ جب حکومت نے ایک مذاکراتی کمیٹی بنا دی تھی اور وہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کر رہی تھی تو ایسے میں مذاکرات کے لیے چوہدری برادران کو الگ مذاکرات کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

کیا چوہدری برادران نے مولانا کے مارچ کے اہداف تبدیل کر دیے ہیں۔ پہلے دن مولانا کا اپنا لہجہ بہت سخت تھا۔ بلاول کی تقریر بہت سخت تھی۔ محمود خان اچکز ئی گر ج رہے تھے۔  لیکن اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔ اس تبدیلی کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔

کہیں نہ کہیں اس حکومت کو اب اپنی سیاسی تنہائی کم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ یہ سیاسی تنہائی عمران خان کے لیے زہر قاتل بنتی جا رہی ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے جس سے سیاسی جماعتیں رعایتیں بھی لے رہیں اور آنکھیں بھی دکھا رہی ہیں۔ اگر یہ مارچ استعفیٰ کے بغیر بھی منتشر ہو جاتا ہے تب بھی حکومت مضبوط نہیں کمزور ہوتی نظر آرہی ہے۔ لوگ ابھی سے کامیابیاں گن رہے ہیں۔ باقی ٹماٹر کی قیمت کی ٹرپل سنچری اور آلو کے نرخوںکی سنچری بھی اس حکومت کی ایسی اپوزیشن ہے جو اس کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ جس کا احساس بھی کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔