تحفظ پاکستان آرڈیننس کا اجرا

ایڈیٹوریل  پير 21 اکتوبر 2013
آرڈیننس کےمطابق امن خراب کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے تمام وسائل استعمال کئے جائیں گے۔ فوٹو: فائل

آرڈیننس کےمطابق امن خراب کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے تمام وسائل استعمال کئے جائیں گے۔ فوٹو: فائل

صدر مملکت ممنون حسین نے وزیراعظم کی ہدایت پر پروٹیکشن آف پاکستان (تحفظ پاکستان) آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق ملک میں قانون کی طاقت سے ریاست کی عملداری ہر صورت قائم کی جائے گی‘ دہشت گردی اور خوف و ہراس پیدا کرنے والے عناصر ریاست کے دشمن تصور ہوں گے اور ان کے خلاف بلا امتیاز‘ فوری اور سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔

نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکا کے حملے میں پاکستان نے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا، دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا، بے شناخت دہشت گردوں نے پاکستان کے اندر بھی اپنی مذموم کارروائیاں شروع کر دیں۔ سیکیورٹی اداروں نے مختلف کارروائیوں میں متعدد دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا لیکن ان کے مقدمات کی پیروی میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات حائل ہوئیں۔

بہت سے دہشت گرد مقدمات کی پیروی نہ ہونے اور عدم ثبوت کی بنا پر عدالتوں سے رہا ہو گئے جس سے سیکیورٹی اداروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں نئی قانون سازی کی ضرورت محسوس کی جانے لگی تاکہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو ان کے کیے کی سزا مل سکے۔ ذرائع کے مطابق قانون اور آئین شکن عناصر کو قرار واقعی سزا دلوانے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں کو شدید مشکلات پیش آ رہی تھیں اور ان کی خواہش پر حکومت نے سخت ترین اقدامات کو یقینی بنا کرملک میں دہشت گردی‘ لاقانونیت‘ انتہا پسندی‘ ریاست مخالف کارروائیوں اور بڑھتی ہوئی بدامنی کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن آئینی اقدامات کا فیصلہ کیا۔ اس آرڈیننس کا مقصد دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کو موثر بنانا ہے۔

اس آرڈیننس سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر کے ملک کو ایک بار پھر امن و امان کا گہوارہ بنانا چاہتی ہے۔ ایک طرف کراچی میں منظم جرائم پیشہ گروہ وجود میں آ چکے ہیں جو بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ ان گروہوں کے باعث کراچی کا امن تباہ ہو چکا اور بے گناہ افراد کی لاشیں گرنے کا عمل روز کا معمول بن چکا ہے۔ دوسری جانب کوئٹہ اور پشاور میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں نے خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں نے حکومت کے خلاف علی الاعلان جنگ شروع کر رکھی ہے اور پورے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں عام آدمی سمیت سیکیورٹی اداروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔

حکومت نے قبائلی علاقوں میں موجود انتہا پسندوں کو مذاکرات کی دعوت دے رکھی ہے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو سکے مگر ابھی تک انتہا پسندوں کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے کا کوئی عندیہ سامنے نہیں آیا اور وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ غیر ریاستی عناصر اور بے شناخت انتہا پسندوں نے اپنی مذموم کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دئیے ہیں۔ حکومت نے شدت پسندوں سے نمٹنے کے لیے نیا آرڈیننس جاری کیا ہے۔

اس آرڈیننس کے مطابق دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم کی تحقیقات کے لیے سیکیورٹی ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے گی‘مخصوص اور سنگین جرائم کے مقدمات کے جلد اندراج اور فوری تحقیقات کے لیے ضرورت پڑنے پر علیحدہ پولیس اسٹیشن قائم کیے جا سکیں گے‘ مقدمات کی پیروی اور تحقیقات کے لیے وفاقی پراسیکیوٹر تعینات کیے جائیں گے۔ اس وقت دہشت گردی کا مسئلہ جس قدر سنگین اور دہشت گرد جتنے منظم ہیں‘ پولیس کا روایتی نظام اور تفتیش کا طریقہ کار اس پر قابو نہیں پا سکتا۔

اس کے لیے علیحدہ کمانڈو فورس تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ گرفتار دہشت گردوں سے تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا قیام بھی احسن اقدام ہے اس سے دہشت گردوں سے ٹھوس ثبوت حاصل کرنے میں خاصی مدد ملے گی جس سے مقدمات کی پیروی میں بھی آسانی ہو گی اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے گی۔ اس وقت عدالتوں میں مقدمات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ایک ایک مقدمہ کو نمٹانے میں ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ خصوصی وفاقی عدالتوں اور الگ تھانوں کے قیام سے بھی مقدمات جلد نمٹانے اور دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں مقیم ہے اور یہ شبہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان میں سے چند مہاجرین انتہا پسندوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں لہٰذا اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

یہ بے شناخت انتہا پسند پاکستان میں امن و امان کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں۔ پاکستان میں مقیم افغان مہاجر یا کوئی دوسرا غیر ملکی اگر عسکریت پسندی یا کسی اور خلاف قانون سرگرمی میں ملوث ہوا تو اس کا ٹرائل تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت ہو گا‘ نیا آرڈیننس بے شناخت انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ آرڈیننس کو باقاعدہ قانونی شکل دینے کے لیے حکومت کو اسے مقررہ مدت 120 دن کے اندر پارلیمنٹ سے منظور کروانا ضروری ہے‘ بصورت دیگراسے مزید 120 دن تک توسیع دی جا سکتی ہے اور یہ توسیع صرف ایک ہی دفعہ دی جا سکتی ہے‘ اس عرصے کے دوران حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اس کو باقاعدہ قانون کا درجہ دینے کے لیے پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لے۔

ذرائع کے مطابق بہت جلد نئے آرڈیننس کے علاوہ انسداد دہشت گردی ترمیمی آرڈیننس کو بھی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا‘ اس ضمن میں حکومت اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں سے بھی رابطہ کرے گی۔ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد کو جیلوں میں عام قیدیوں کے ساتھ رکھنے میں بھی بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جن جیلوں میں دہشت گرد قید ہوتے ہیں وہاں حفاظتی انتظامات بھی مناسب نہ ہونے سے دہشت گردوں کے فرار کا خطرہ رہتا ہے۔ بنوں جیل کی مثال سب کے سامنے ہے۔

لہٰذا اس نئے آرڈیننس کے تحت عادی مجرموں کو مخصوص جیلوں میں رکھا جائے گا۔ حکومت نے آرڈیننس تو جاری کر دیا ہے اصل مسئلہ اس پراپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے عملدرآمد کا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف قوانین تو پہلے بھی ملک میں موجود ہیں مگر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ جب تک تفتیش کا نظام‘ درست چالان‘ مقدمات کی بروقت پیروی اور بہتر عدالتی کارروائی نہ ہو گی دہشت گردی پر قابو پانا مشکل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔