بے شک امن کے بغیر ترقی نا ممکن ہے

ایڈیٹوریل  پير 21 اکتوبر 2013
فوٹو: ایکسپریس

فوٹو: ایکسپریس

صدرمملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ کراچی ہماری معیشت کا حب ہے، کراچی میں امن کے بغیر معیشت اور پاکستان کی ترقی ممکن نہیں ہے۔عوام تھوڑا صبر کر لیں، سندھ حکومت جو اقدام کر رہی ہے اس میں تمام لوگ تعاون کریں۔ کراچی میں قیام امن کے لیے سخت اقدام کیے جائیں گے،آئندہ 3 برسوں میں بجلی کی قیمتیں ازخود کم ہو جائیں گی ، ہم سب پاکستانی ہیں، کوئی سندھی یا پنجابی نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے اتوار کو یہاں قائداعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دینے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

صدر مملکت نے بانی پاکستان کے مزار پر حاضری دی، پھول چڑھائے اورفاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سمیت دیگر اہم شخصیات بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ صدر مملکت نے منی پاکستان میں قیام امن سے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ بلاشبہ بنیادی حقائق کی طرف ایک اشارہ ہے، تاہم کراچی میں بدامنی کے ہوتے ہوئے کون سا ایسا جی دار اور سرمایہ پھینک قسم کا سرمایہ کار ہوگا جو جلتے لٹتے ہوئے شہر میں سرمایہ کاری کی ہمت کرسکے گا جب کہ ملکی سرمایہ داروں ، ارب پتی پاکستانی سیاسی خاندانوں اوربیوروکریٹس کی اپنی دولت باہر بینکوں میں پڑی ہوئی ہے۔

ہاں سرمایہ کار ضرور آئیں گے ،اور شنید ہے کہ حالیہ آپریشن کے ابتدائی مثبت نتائج سے صورتحال کے بدلنے کا قوی امکان ہے، ہر محب وطن پاکستانی کی بھی یہی تمنا ہے کہ پنجاب ، کراچی ، بلوچستان اورخیبر پختونخوا میں مکمل امن قائم ہو،دہشت گردی کا خاتمہ اور ملکی معیشت اپنے پیروں پر اس طرح کھڑی ہوجائے کہ اسے دست سوال عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے پھیلانے نہ پڑیں۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ملکی معیشت غیر ملکی قرضوں اورغلام بنانے والی مالیاتی اور امدادی شرائط کے پھندے سے باہر نکلے اور حکمراں اقتصادی اورسماجی سطح پر ایسی عوام دوست معاشی پالیسیاں بنائیں جن سے 18 کروڑ عوام کو حقیقی ریلیف ملے اور قوم کو اس استحصالی نظام سے چھٹکارہ مل جائے۔

بد قسمتی سے یہی کام اشرافیائی سیاست کے باعث اس مملکت خداداد میں نہیں ہورہا جس کی وجہ سے ملک لوڈشیڈنگ،دہشت گردی اور غربت کے ’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘ میں پھنسا ہوا ہے اور 40 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔امن کی پورے ملک کو ضرورت ہے، کراچی کی مقناطیسیت نے ہی اس شہر کو عالمی سیاست اور معیشت کے معاملات میں ایک اہمیت کا حامل میٹروپولیٹن بنایا ہے مگر ہماری کوتاہ اندیشیوں کے باعث اس حساس معاشی مرکز کی چولیں ہل گئیں اور ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔صدر نے یہ بھی کہا کہ امریکا سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے لیکن اب تعلقات بہتر ہیں۔ امریکا بہت معاملات میں مراعات دے رہا ہے۔

ڈرون حملے امن وامان کے لیے معاون ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم صدراوباما سے ڈرون حملوں روکنے، افغانستان سے امریکی فوج کے انخلااور دو طرفہ باہمی تجارت کے فروغ کے معاملے پر بات چیت کریں گے۔اہل وطن کی نگاہیں واشنگٹن پر مرکوز ہیں،ڈرون حملوں کی بندش کی نوید ایک بڑا بریک تھرو ہوگا، امریکا سے اقتصادی معاملات پربھی اہم گفتگو متوقع ہے،انشااللہ وزیراعظم کی اوباما سے بات چیت خطے میں سلامتی، دوطرفہ تعلقات ،ملکی سیاست اور معیشت پر مثبت اثرات کی حامل ہوگی۔

صدر نے افغانستان سے بیک ڈور مذاکرات پر بھی پیش رفت کی امید ظاہر کی ہے جو آئندہ چند ماہ میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔تاہم صدر کا یہ کہنا کہ حکومت 18روپے یونٹ والی بجلی عوام کو9 روپے میں نہیں دے سکتی ایک مایوس کن عندیہ ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عوام کے بس سے باہر ہیں، بجلی کے بل گھریلو صارفین کے سر پر ہتھوڑے کی طرح لگتے ہیں، ملک کے مختلف شہروں میں عوامی اضطراب،احتجاجی مظاہروں اور اشتعال کا ایک بڑا عنصر بلنگ سسٹم بھی ہے ۔تاہم صدرصاحب کی یہ تلقین مناسب ہے کہ ہمیں منفی باتیں چھوڑ کر مثبت باتیں کرنی چاہئیں، یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔