خواجہ سعد رفیق کے لیے

جاوید چوہدری  پير 21 اکتوبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

فلوٹنگ ٹرین ریلوے کی چوتھی جنریشن ہے‘ یہ ٹرین طاقتور مقناطیس سے چلائی جاتی ہے‘ ٹرین ٹریک پر موجود ہوتی ہے‘ طاقتور مقناطیسی لہریں سامنے سے آتی ہیں اور ٹرین کو کھینچ کر منزل تک لے جاتی ہیں‘ جاپان نے 30 اگست 2013ء کو اس فلوٹنگ ٹرین کا پہلا کامیاب تجربہ کیا‘ ٹرین کی اسپیڈ581 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی‘ یہ ٹرین 43 کلو میٹرلمبے ٹریک پر چلائی گئی اور یہ 9 منٹ میں منزل پر پہنچ گئی۔

جاپان حکومت نے کامیاب تجربے کے بعد فلوٹنگ ٹرین کی منظوری دے دی‘ اپریل 2014ء میں پٹڑیاں بچھانے کا کام شروع ہو جائے گااور جاپان ریلوے 2027ء میں فلوٹنگ ٹرین مسافروں کے لیے کھول دے گا‘ یہ ٹرین 92 فٹ لمبی ہو گی‘ اس کے 16 کمپارٹمنٹ ہوں گے اور اس میں ہزار مسافر سفر کرسکیں گے‘ یہ ٹرین شروع میں ٹوکیو سے ناگویا تک چلائی جائے گی‘ جاپان کے ان دونوں شہروں کے درمیان 360 کلو میٹر کا فاصلہ ہے‘ فلوٹنگ ٹرین ہزار مسافروں کو 40 منٹ میں ٹوکیو سے ناگویا پہنچائے گی‘ جاپان کی بجلی کی ٹرین اس وقت یہ فاصلہ 90 منٹ میں طے کر رہی ہے‘ یہ فلوٹنگ ٹرین ریلوے کی چوتھی جنریشن ہے۔

ریلوے کی پہلی نسل اسٹیم انجن تھی‘ اسٹیم انجن رچرڈٹریوی تھک نے فروری 1804ء میں ایجاد کیا جس کے بعد ریلوے کی بنیاد رکھی گئی‘ 1896ء میں ڈیزل انجن ایجاد ہواتو ریل کا سفر مزید آرام دہ اور سبک رفتار ہو گیا‘ بجلی کا انجن ڈیزل انجن سے قبل یعنی 1837ء میں بنایاگیا اور پہلی الیکٹرک ٹرین 1879 میں چلائی گئی لیکن اس نے باقاعدہ ریلوے کی شکل پچاسویں دہائی کے وسط میں پائی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میںچھا گئی‘ دنیا میں اس وقت ریلوے کے پانچ ماڈل ہیں‘ جاپانی ریلوے‘ چینی ریلوے‘ برٹش ریلوے‘ سوئس ریلوے اور انڈین ریلوے۔ جاپان‘ چین‘ برٹش اور سوئس ریلوے تقریباً سو فیصد بجلی پر منتقل ہو چکے ہیں جب کہ بھارتی ریلوے تیزی سے بجلی پر شفٹ ہو رہا ہے۔

دنیا کے زیادہ تر ترقی پذیر ممالک بھی بجلی کے آپشن پر جا رہے ہیں کیونکہ بجلی کی ٹرین ڈیزل ٹرین سے سستی بھی ہوتی ہے‘ سبک رفتار بھی اور اس کی مینٹیننس کاسٹ بھی تین چوتھائی کم ہوتی ہے‘ بلٹ ٹرین بجلی کی ٹرین کا جدید ترین ورژن ہے‘ دنیا کی پہلی بلٹ ٹرین 1964ء میں بنی تھی اور دنیا میں اس وقت تیز ترین بلٹ ٹرین فرانس میں چلائی جاتی ہے اور اس کی رفتار574 کلو میٹر فی گھنٹہ تک جا سکتی ہے جب کہ جاپان نے 2013ء میں فلوٹنگ ٹرین ایجاد کر کے ریلوے کو چوتھی جنریشن میں داخل کر دیا‘ یہ ٹرین پہلی تین قسم کی ٹرینوں سے سستی ہو گی اور یہ فاصلوں اور وقت دونوں کو کم کر دے گی۔

آپ ان ٹرینوں اور ریلویز کو دیکھئے اور اس کے بعد پاکستانی ریلوے کی طرف آئیے‘ میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا دل سے مداح ہوں‘ یہ ان تھک‘ مخلص اور جذباتی انسان ہیں‘ یہ زندگی میں کچھ کر گزرنا بھی چاہتے ہیں‘ ہم اگر حکومت کے گزشتہ چار مہینوں کا جائزہ لیں تو خواجہ سعد رفیق ان تین چار وزراء کی فہرست میں آتے ہیں جو کچھ نہ کچھ کرتے نظر آتے ہیں‘ خواجہ سعد رفیق نے سو دنوں میں ریلوے کی آمدنی میں دو ارب روپے اضافہ کر دیا اور یہ بھی درست ہے اگر خواجہ سعد رفیق نہ ہوتے تو ریلوے حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں بند ہو چکا ہوتا مگر خواجہ سعد رفیق کی محنت اور پوٹینشل کے باوجود ہمیں ماننا پڑے گا‘ریلوے کے بارے میں ہماری  اپروچ درست نہیں‘ پاکستان  2013ء میں ریل کی دوسری جنریشن میں سسک رہا ہے۔

ہم آج بھی ڈیزل انجن کے دور میں زندہ ہیں‘ پاکستان کا کوئی سیکشن بجلی پرنہیں چل رہا‘ صدر ایوب خان کے دور میں خانیوال سیکشن بجلی پر منتقل ہوا تھا‘ ایوب خان راولپنڈی سے کراچی تک ٹرین کو بجلی پر شفٹ کرنا چاہتے تھے مگر ایوب خان کے ساتھ ہی یہ منصوبہ بھی رخصت ہو گیا اورہم نے خانیوال سیکشن کی بجلی کی تاریں تک چوری کر کے بیچ دیں‘ ہم روز ریلوے کی موت کا رونا روتے ہیں‘ ہم روز قوم کو بتاتے ہیں ‘1975 ء تک پاکستا ن ریلویز کے پاس الیکٹرک ڈیزل اور اسٹیم سسٹم پر مشتمل 1026 انجن تھے جن میں سے اب صرف 522 باقی رہ گئے ہیں اور ان میں سے صرف 80 انجن چلنے کے قابل ہیں اور ریلوے 33 ارب روپے خسارے میں ہے ‘ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جن میں کوئی فریٹ ٹرین نہیں چلتی وغیرہ وغیرہ اور ہم جب اس زوال کی وجوہات تلاش کرتے ہیں تو ہم اس شکست کو کبھی ریلوے ملازمین کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں‘ کبھی نااہل حکومتوں کے نامہ اعمال میں لکھ دیتے ہیں اور کبھی ناقص پالیسیوں کو اس کا ذمے دار ٹھہرا دیتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے یہ تینوں ریلوے کی موت کے ذمے دار نہیں ہیں۔

ریلوے کے زوال کی اصل وجہ پرانی اور متروک ٹیکنالوجی ہے‘ دنیا ریل کی چوتھی نسل میں داخل ہو چکی ہے جب کہ ہم دوسری جنریشن کو پیوند لگانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ آپ پوری دنیا کے ریلوے کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ کو دنیا کا ہر وہ ملک پاکستان جیسی صورتحال کا شکار دکھائی دے گا جس کا ریلوے ڈیزل انجن پر چل رہا ہے‘ ڈیزل انجن خاص حد سے زیادہ رفتار سے ٹرین نہیں کھینچ سکتا‘ اس میں جھٹکے بھی لگتے ہیں اور اس کا سفر بھی آرام دہ نہیں ہوتاچنانچہ لوگ ٹرین سے سفر نہیں کرتے‘ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے اور ہیوی مینٹیننس کاسٹ کی وجہ سے بھی ریلوے ’’برڈن‘‘ میں چلا جاتا ہے اور یوں ریلوے کا وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان ریلوے کا ہے۔ ہم جنوبی کوریا سے 55 پرانے انجن خرید رہے ہیں‘ ہمیں یہ انجن سستے مل رہے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ کوریا اپنے ریلوے کو بجلی پر شفٹ کر رہا ہے اور اس کے پاس یہ انجن فالتو ہیں‘ کوریا جیسے ممالک تک ڈیزل انجن سے باہر نکل رہے ہیں جب کہ ہم یہ بیماری پالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آپ ان حالات میں ایک لمحے کے لیے سوچئے اگر خواجہ سعد رفیق کامیاب ہو جاتے ہیں‘ یہ تمام ٹرینیں چلا لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے پانچ یا دس سال بعد کیا ہو گا‘ دنیا میں جب ڈیزل چار گنا مہنگا ہو جائے گا اور ڈیزل انجن کی ٹیکنالوجی ایک سوبائیس سال پرانی ہو جائے گی تو کیا ہمارا ریلوے ایک بار پھر بستر مرگ پر نہیں پہنچ جائے گا؟ ہم اس وقت کیا کریں گے؟ کیا ہم ایک بار پھر قوم کی رگوں سے سرمایہ نکال کر ریلوے پر نہیں لگائیں گے؟ ہم یقینا پورا ریلوے کباڑ میں فروخت کریں گے‘ الیکٹرک ٹرین کی ٹیکنالوجی خریدیں گے اور یہ ٹیکنالوجی اس وقت تک دو تین گنا مہنگی ہو چکی ہو گی‘ ہم نے اگر مستقبل میں الیکٹرک ٹرین پر جانا ہے تو ہم یہ کام آج ہی سے شروع کیوں نہیں کر لیتے‘ ہم ریلوے کو ایک ہی بار الیکٹرک بنانے کا فیصلہ کیوں نہیں کرلیتے۔

خواجہ سعد رفیق کے پاس ریلوے کو زندہ کرنے کا ایک گولڈن چانس موجود ہے‘ امریکا 2014ء میں افغانستان سے نکل رہا ہے‘ امریکی فوج انخلاء سے قبل دو سے چار لاکھ کنٹینر افغانستان سے نکالے گی‘ یہ کنٹینر بارہ برسوں میں افغانستان پہنچائے گئے جب کہ یہ ایک برس میں افغانستان سے نکلیں گے اور اس پورے ’’ریجن‘‘ میں اتنے ٹرک اور ٹرالر موجودنہیں امریکا جن کے ذریعے سال میں دو سے چار لاکھ کنٹینر افغانستان سے کراچی پورٹ تک پہنچا سکے اور امریکا اگر یہ کوشش بھی کرے تو بھی ہماری سڑکیں مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے اور ان کی بحالی کے لیے ہمیں کم از کم چار بلین ڈالر درکار ہوں گے چنانچہ امریکا اور پاکستان کے پاس ریلوے واحد آپشن بچتا ہے‘ ہم اگر امریکا کو قائل کر لیں‘ یہ ریل کی پٹڑی بچھائے‘ بجلی کی ٹرین چلائے‘ اپنے تمام کنٹینرز نکالے اور اس کے معاوضے میں یہ سسٹم ہمارے حوالے کر دے تو پاکستان ریلوے دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے۔

امریکا کے پاس ٹیکنالوجی موجود ہے‘ یہ ایک سال میں ریل کا متبادل سسٹم بنا سکتا ہے‘ خواجہ صاحب کو کمر کس کر اس آپشن پر کام کرنا چاہیے‘ ریلوے مسافر ٹرینوں کے ذریعے کبھی اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا‘ مسافر ٹرینیں جاپان‘ برطانیہ‘ فرانس اور بھارت میں بھی خسارے میں چل رہی ہیں‘ ریلوے کی ریڑھ کی ہڈی گڈز ٹرین یا فریٹ ٹرین ہوتی ہیں‘ ہم اگر نئی قانون سازی کریں اور ملک کے تمام کنٹینرز ٹرین کے ذریعے کراچی سے آئیں اور کراچی جائیں اور ریلوے موجودہ 80 انجنوں میں سے 60 انجن فریٹ ٹرینوں پر لگا دے جب کہ باقی انجنوں سے مین لائین کی مسافر ٹرینیں چلائی جائیں تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں‘ ریلوے کی تمام زمینیں فوری طور پر نیلام کر دی جائیں‘ ریلوے فوج کے بعد ملک کا سب سے بڑا لینڈ لارڈ ہے‘ اس کے پاس ہزاروں ایکڑ کمرشل زمین موجود ہے‘ خواجہ صاحب کی آدھی انرجی ان زمینوں کے قبضے چھڑانے پر ضایع ہو رہی ہے‘ یہ زمینیں مستقبل میں بھی اسی طرح وزراء کی انرجی کھاتی رہیں گی چنانچہ ہمیں یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہیے‘ ریلوے زمینیں فروخت کرے‘ زمینوں کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم سے اپنے قرضے ادا کرے اور ہم اگر اپنے تمام سائیڈ روٹس یا برانچ ٹرینز پرائیویٹائز کر دیں تو اس سے بھی ریلوے کا برڈن کم ہو سکتا ہے۔

دنیا بہت آگے نکل گئی ہے‘ دنیا اس افغانستان میں ریلوے سروس شروع کر رہی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا چاند پر پٹڑی بچھائی جا سکتی ہے مگر افغانستان میں نہیں اور دنیا نے سعودی عرب‘ یو اے ای اور افریقہ کے انتہائی دور دراز علاقوں میں ریل سروس شروع کر دی ہے مگر ہم 2013ء میں اپنی ٹرین کو وقت پر کراچی سے لاہور نہیں پہنچا سکتے‘ کیا ہمارے پاس اس کا کوئی جواز موجود ہے؟ نالائقی کے سوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔