کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک

سعد اللہ جان برق  پير 21 اکتوبر 2013
barq@email.com

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام لاہور میں ہونے والی اردو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر سلیم اختر نے کہا ہے کہ میں نے ضیاء دور میں ادیبوں سے کہا تھا کہ انھیں ’’نمک حرام‘‘ نہیں ہونا چاہیے لیکن ادیب ایسے لوگ ہیں جو ’’نمک حرامی‘‘ سے باز نہیں آتے۔ اچھا ہوا ہم اس کانفرنس میں موجود نہیں تھے ورنہ عین ممکن ہے کہ ہم نکتہ اعتراض اٹھاتے کہ بے چارے ادیب ’’نمک حرام‘‘ مجبوری میں ہو جاتے ہیں ورنہ کون چاہے گا کہ خدا کی ایک بڑی نعمت ’’نمک‘‘ کو اپنے اوپر حرام کر لیں۔

پروفیسر صاحب نے تو صرف نمک حرامی کے بارے میں بتایا ہے جب کہ اصل میں زیادہ تر ادیب بے چارے نمک حرام کے ساتھ ساتھ شکر حرام یعنی ٹو ان ون بھی ہوتے ہیں، لیکن بات یہاں پر کہاں ختم ہوتی ہے، یہ دونوں چیزیں ہی تو دنیا کی تمام ’’انعمہ و اطمعہ‘‘ کی جان ہیں اور یہ دونوں ہی زندگی سے نکل جائیں تو اس زندگی کو بھلا کون زندگی کہے گا۔

ہاں یاد آیا نمک حرامی کی ایک دوسری نوعیت بھی ہوتی ہے اور پروفیسر صاحب کا اشارہ شاید اسی ’’نمک حرامی‘‘ کی طرف ہے لیکن وہ تو آج کل مرض نہیں بلکہ صفت ہے بلکہ آج کل ایک پاپولر فیشن کے طور پر رائج ہے۔سچ پوچھئے تو یہ سارا سلسلہ ’’نمکیہ‘‘ ہی غلط ہے، ادیب بے چارے نہ نمک کے نوکر ہوتے ہیں اور نہ بینگن کے ۔۔۔ حالانکہ دکن کے ایک نواب نے کہا ہے کہ اگر ’‘بھگارے بینگن‘‘ نہ ہوتے تو نہ جانے زندگی کتنی سخت گزرتی، لیکن ہر ادیب دکن کا نواب تو نہیں ہوتا جو بینگن کے بغیر گزارہ نہ کر پائے، بینگن بھی جائے بھاڑ میں اور ان میں موجود نمک بھی گٹر میں بہہ جائے، آدمی کی نظر اس ہاتھ پر ہونا چاہیے جو نمک بھی دے سکتا ہے اور بگھارے بینگن بھی کھلا سکتا ہے بلکہ ساتھ ہی شکر خورے کو شکر بھی کھلاتا ہے ورنہ

شکر فروش کہ عمرش دراز باد چرا؟
تفقدی نہ کند طوطی شکر خا را

پروفیسر سلیم اختر نے یہ وضاحت تو نہیں کی ہے کہ انھوں نے ضیاء الحق کے دور میں کن ادیبوں کو ’’نمک حرامی‘‘ سے منع کیا تھا اور پھر ان میں سے کن کن نے بد پرہیزی کی، ہم نے اکثر ایسے بھی ’’نمک خور‘‘ دیکھے ہیں جو اصل میں نمک حلال بننے کی کوشش میں اس روگ کے روگی ہوئے اور پھر زندگی بھر وہ نمک خوری سے پیچھا نہیں چھڑا پائے، خاص طور پر سرکاری نمک تو بڑا ہی ضدی ہوتا ہے، ایک مرتبہ منہ کو لگ جائے تو غالب کی سی حالت ہو جاتی ہے،

چھوڑ کر جاناں مجروح عاشق حیف ہے
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضاء نمک

کچھ تو غالب کی اپنی نمک خواری بھی شدید تھی اور کچھ بہادر شاہ ظفر کے نمک میں چسکہ بھی بہت ہوتا تھا اس لیے بے چارے میں نمک کی اتنی زیادہ کمی ہو گئی کہ طلب بے پناہ بڑھ گئی ۔

زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
کیا مزا ہوتا ہے اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک

نمک میں مٹی کی طرح بڑے نقصانات ہیں بقول علامہ اقبال جو مٹی کھاتا ہے اس کا رنگ زرد ہوتا ہے اور ہماری تحقیق یہ ہے کہ جو نمک کھاتا ہے خاص طور پر سرکاری برانڈ کا نمک… تو اس کا رنگ تو نہیں بدلتا لیکن ’’خون‘‘ سفید ہو جاتا ہے اور پھر یہ سفیدی اوپر چڑھ کر آنکھوں میں بھی پھیل جاتی ہے، نمکوں میں صرف عشق کا نمک ایسا ہے جو کسی بیماری کو جنم نہیں دیتا، سیدھے ’’عاشق‘‘ کو شکار کر لیتا ہے پھر وہ زندہ تو رہتا ہے لیکن مردے سے بدتر… کیونکہ شاعر بن جاتا ہے۔

نمک اگر سرکاری نہ ہو تو بڑے کام کی چیز ہے ۔ وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ جب ایک شہزادی کا اپنے باپ سے نمک پر پھڈا پڑ گیا تھا‘ ایک دن اس نے اپنی ساری بیٹیوں کو جمع کیا جو یقیناً سات ہوں گی ، اس بادشاہ نے اپنی بیٹیوں سے پوچھا کہ تم مجھے کتنا چاہتی ہو مثال دے کر بتاؤ، اس پر کسی نے کہا کہ آپ مجھے شہد سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔ کسی نے دودھ کا بتایا اور کسی نے کوئی خاص پکوان یا پھل بتایا۔ چھوٹی شہزادی کی باری آئی تو اس نے کہا آپ مجھے اتنے پسند ہیں جتنا نمک مجھے پسند ہے۔

بادشاہ کہ غصہ آنا لازم تھا کیوں کہ ایک تو بادشاہ لوگ ویسے بھی ذرا کھسکے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔۔ اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ بادشاہ اور حکمران چاہے پرانے زمانے کا ہو یا جدید زمانے کا اس کے لیے کھسکا ہوا اور انبارمل ہونا ضروری ہوتا ہے ۔۔۔ اسی لیے تو آج کل ۔۔۔ لیکن خیر چھوڑیئے بھاڑ میں جائے وزیر امیر اور کبیر ۔۔۔ انبارمل ہونے کی وجہ سے یہ لوگ ۔۔۔ ’’گاہے بہ سلامے می رنجدو گاہے بدشنا مے خلعت می دید‘‘ یعنی کبھی تو سلام کرنے پر بھی بلیک لسٹ کر دیتے ہیں اور کبھی گالی دینے پر بھی ’’پلاٹ‘‘ وغیرہ دے دیتے ہیں۔

یقین نہ ہو تو ایسے تمام پلاٹوں کی ’’وجہ تسمیہ‘‘ ڈھونڈ لیجیے کہیں نہ کہیں کوئی گالی کا خطرہ دکھائی دے جائے گا، وہ بادشاہ بھی بیٹی کے ’’جواب نمک‘‘ پر بھڑک اٹھا کہ اتنی کم تر چیز سے میرا موزانہ کر رہی ہو اور اسے اپنے محل سے نکال دیا، شہزادی بادشاہ کی سلطنت سے نکل کر ایک جنگل میں بس گئی اور اپنے حسن تدبیر سے اس نے جنگل کو منگل بنا دیا۔ زبردست قسم کا محل کھڑا کر دیا، وہ بھی سرکاری فنڈز کے بغیر، نوکر چاکر رکھ لیے وہ بھی کسی سرکاری محکمے کے بغیر، جب سب کچھ تیار ہو چکا تو اس نے بادشاہ کو کھانے کی دعوت دی کہ کسی ملک کی جلاوطن شہزادی جو آپ کی سرحد کے قریب رہتی ہے نے آپ کو دعوت پر بلایا ہے۔

بادشاہ دعوت قبول کر کے پہنچ گیا۔ طرح طرح کے قیمتی پکوان دستر خواں پر سجے تھے اور انواع و اقسام کی خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں، شہزادی کے کار پردازوں نے بادشاہ کو احترام سے بٹھا کر کھانا شروع کرنے کا کہا ۔۔۔۔ بادشاہ نے شروع کیا تو کسی بھی پکوان میں نمک نہ تھا۔ گھی تھا، گوشت تھا، پلاؤ اور بریانیاں تھیں لیکن نمک ان میں بالکل بھی نہ تھا، بادشاہ نے ہاتھ کھنیچ کر کہا یہ تو سب بے نمک ہے اور جب نمک نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے ۔

اس موقع پر شہزادی نے نکل کر بادشاہ کی آنکھوں میں نمک ڈالا، اور وہ قائل ہو گیا کہ نمک ہی دنیا کی سب سے پیاری چیز ہے، اس قصے کو پڑھ کر پروفیسر سلیم اختر سے دو سو فیصد متفق ہیں کہ نمک حرامی نہیں کرنی چاہیے اور خاص طور پر سرکاری نمک کو ہر گز ہر گز اپنے اوپر حرام نہیں کرنا چاہیے اور یہ ہم کوئی سنی سنائی نہیں کہہ رہے ہیں بل کہ اپنا تجربہ بیان کر رہے ہیں‘ ایک وقت میں ہم نے اپنے اوپر نمک حرام کر لیا تھا جس کا خمیازہ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ کسی پکوان میں تو کیا پوری زندگی میں نمک نہیں رہا ہے۔

فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم
بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمکدان پر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔