یہ ترک خود کو کیا سمجھتے ہیں؟

وسعت اللہ خان  پير 21 اکتوبر 2013

یہ خبر تو آپ نے پڑھ ہی لی ہوگی کہ دنیا میں آج بھی لگ بھگ تین کروڑ مرد ، عورتیں اور بچے غلام ہیں۔ اس غلامی میں جبری مشقت ، جبری شادی ، جبری عصمت فروشی ، جبری گھریلو چاکری ، جبری گداگری اور قرض کے عوض مشقت سمیت سب طرح کی غلامی شامل ہے۔ واک فری نامی ایک بین القوامی تنظیم نے پہلی مرتبہ ایک سو ساٹھ ممالک کی سروے رپورٹ مرتب کی ہے جس کے مطابق تین کروڑ میں سے لگ بھگ آدھے غلام بھارت میں ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر جبری مشقت اور مقروض مشقت کے مارے ہوئے ہیں اور ذات پات کے قدیم سماجی بندھن اس غلامی کو کلنک کا ٹیکہ تسلیم کرنے میں ایک بڑی نفسیاتی رکاوٹ ہیں۔ ہر سال بھارت میں لگ بھگ بیس ہزار مقروض کسان خودکشی کرلیتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر چین میں لگ بھگ تیس لاکھ مرد عورتیں اور بچے ان تمام غلامیوں کا شکار ہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا جاچکا ہے۔تیسرے نمبر پر پاکستان ہے جہاں اکیس لاکھ سے زائد غلام بتائے جاتے ہیں۔ چوتھے نمبر پہ نائجیریا ہے جہاں سات لاکھ افراد غلامی میں ہیں۔پانچویں نمبر پہ ایتھوپیا کے چھ لاکھ غلام ہیں۔

چھٹے نمبر پہ روس اور ساتویں پر تھائی لینڈ ہے جہاں جبری جنسی استحصال غلامی کی معروف شکل ہے۔ آٹھویں نمبر پہ کانگو ہے جہاں مسلح گروہ حریفوں کو غلام بنا کر جبری مشقت لیتے ہیں۔ نویں نمبر پہ بنگلہ دیش اور دسویں نمبر پر برما آتا ہے۔گویا جنوبی ایشیا کے تین ممالک ( بھارت ، پاکستان ، بنگلہ دیش) اور چین کو ایک ساتھ جوڑ لیا جائے تو چھیاسٹھ فیصد غلام ان چار ممالک میں پائے جاتے ہیں۔لیکن آبادی کے تناسب سے غلامی کو بانٹا جائے توسرِ فہرست مغربی افریقی ملک ماریطانیہ ہے جہاں ساڑھے چار فیصد آبادی آج بھی پرانے انداز کی جدی پشتی روایتی غلام ہے۔ اس کے بعد بلحاظِ آبادی چین ، پاکستان ، بھارت اور نیپال آتے ہیں۔

جہاں تک غیر ملکی غلاموں کا معاملہ ہے تو اس میں مشرقِ وسطیٰ بالخصوص خلیجی ممالک کا تذکرہ ضروری ہے۔ اکثر خلیجی ممالک میں ملازمت کے لیے جانے والوں کا پاسپورٹ آجر یعنی کفیل اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔چنانچہ مزدوری کے ناکافی قوانین اور ان کے نفاذ میں سرکاری عدم دلچسپی قلیل تنخواہ اور اوقاتِ کار کا نظام نہ ہونے کے سبب جبری مشقت اور حکم عدولی کی صورت میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی راہ کھل جاتی ہے۔

مثلاً خلیج کی امیر ترین ریاست قطر میں دو ہزار بائیس کے ورلڈ کپ فٹبال ٹورنامنٹ کے تعمیراتی کام کے دوران گذشتہ دو ماہ کے دوران تقریباً چالیس نیپالی مزدور ہلاک ہوچکے ہیں اور اگر صورتِ حال نہ بدلی تو ورلڈ کپ کے انعقاد تک تقریباً چار ہزار مزدور شدید دباؤ اور کام اور موسم کی سختیوں کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔جب کہ کویت اور سعودی عرب جیسے ممالک میں گھریلو ملازمین پر تشدد اور انھیں جنسی و غیر جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنانا آئے دن کے واقعات ہیں۔ان کارکنوں کی حالتِ زار پر ان کی اپنی حکومتیں اس لیے زیادہ شور نہیں مچاتیں کہ اگر ان کارکنوں کو اجتماعی دیس نکالا مل گیا تو پھر وطن واپسی پر یہ کارکن پہلے سے موجود بے روزگار فوج میں شامل ہو کر مزید بے چینی کا سبب بن جائیں گے۔

اگرچہ واک فری نامی تنظیم کے سروے میں مغربی ممالک میں غلاموں کا تناسب بہت کم بتایا گیا ہے۔لیکن عمومی تاثر یہ ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک میں غیر قانونی تارکینِ وطن لاکھوں کی تعداد میں اسمگل کیے جاتے ہیں۔ بظاہر ہیومن اسمگلنگ مغربی ممالک میں ایک سنگین جرم ہے۔لیکن اس رجحان کی بہت زیادہ حوصلہ شکنی اس لیے نہیں کی جاتی کیونکہ زراعت ، صنعت اور سروس انڈسٹری میں ایک قانونی کارکن کے برعکس یہ غلام آجر کے لیے خاصے منافع بخش ثابت ہوتے ہیں۔ وہ گرفتاری کے خوف سے چوری چھپے آدھی اجرت پر اور طویل دورانئے تک کام کرنے پر مجبوراً رضا مند رہتے ہیں تاکہ گھر والوں کو تھوڑے بہت پیسے بھیج سکیں اور اپنی غلامی کا پردہ رکھ سکیں۔ ڈی پورٹ ہونے کی صورت میں وہ نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔

ایسا نہیں کہ حکومتیں ان غلاموں کی حالت سے غافل ہیں لیکن جبری مشقت ، ہیومن اسمگلنگ اور جبری عصمت فروشی اربوں ڈالر کی انڈسٹری ہے اور اس کے منافع بخش ڈانڈے اوپر سے نیچے تک ملے ہوئے ہیں۔کسی کو کمزور قانون سازی کا مالی اجر ملتا ہے۔کسی کو منہ دوسری طرف پھیرنے کا معاوضہ ملتا ہے اور کسی کو سیاسی و سماجی طاقت کی ضرورت اس معاملے پر سوال اٹھانے سے روک دیتی ہے۔گویا حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔

جہاں تک غلامی کی صنعت میں تیسرے درجے پر فائز پاکستان کا معاملہ ہے تو یہاں اندرونی طور پر یہ کوئی خبر نہیں۔آپ گھر سے باہر نکلیے۔ آپ کو چھوٹے بچے جگہ جگہ اپنی عمر سے بڑے بڑے کام کرتے مل جائیں گے۔مصروف ناکوں پر جبری بھکاریوں کی فوج دکھائی دے گی۔اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں میں بال بال قرض میں جکڑے مزدور جھکے نظر آئیں گے۔ ہر وہ گھرانہ جو گھریلو ملازم رکھنے کی سکت رکھتا ہے، نوعمر بچوں اور بچیوں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لینے اور تین وقت کا بچا ہوا کھانا اور تنخواہ کے نام پر ایک قلیل رقم منہ پر مارنے اور بہانے بہانے سے تنخواہ کاٹنے کو بالکل جائز سمجھتا ہے اور ذرا سی چوں چرا پر گالیوں اور تشدد پر اتر آتا ہے۔ اس کام میں وہ طبقات آگے آگے ہیں جنھیں بالادست کلاس کہا جاتا ہے۔

اب سے بیس پچیس برس پہلے اچانک پاکستان میں جبری مشقت اور جبری کھیت مزدوروں کی آزادی کا غلغلہ بلند ہوا اور ہر طرف ایک ڈبیٹ شروع ہوگئی۔ کارخانوں اور کھیتوں پر چھاپے پڑنے لگے۔غلامی کے خلاف سخت قانون سازی کے مطالبے ہونے لگے۔ زرعی غلاموں کو بالخصوص سندھ میں آزاد کرانے کا جہاد بھی شروع ہوگیا۔لیکن رفتہ رفتہ سب کچھ موت کے جھاگ کی طرح بیٹھتا چلا گیا۔کسی غلامی شکن مجاہد کو کسی ترقی یافتہ ملک کی شہریت مل گئی۔کچھ این جی اوز نے فنڈز کھرے کیے اور پھر وہ ہوا میں تحلیل ہوگئیں۔کچھ بے لوث کارکن ابتدائی جوش و خروش دکھانے کے بعد تھک ہار کے بیٹھ گئے اور کچھ نے یہ مشن بھی اللہ کے سپرد کرکے اپنی راہ لی۔ پاکستان میں جبری مشقت کو قابلِ تعزیر جرم قرار دینے کا قانون عرصہ بیس برس سے نافذ ہے۔صوبائی سطح پر محض پنجاب کی حد تک قانون سازی کی گئی ہے۔ نتیجہ کیا نکلا ؟ یہی نہ کہ پاکستان آج بھی غلام رکھنے کی عالمی رینکنگ میں ٹاپ تھری ہے۔

آج بھی شائد کوئی دن ایسا جاتا ہو جب یہ خبر نہ آتی ہو کہ فلاں ملک کی سرحد یا فلاں سمندر پار کرتے ہوئے اتنے پاکستانی سرحدی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔اتنوں کو فلاں ملک نے ڈی پورٹ کردیا۔اتنے فلاں ایرپورٹ سے جعلی سفری دستاویزات کے ساتھ بیرونِ ملک جاتے ہوئے دھر لیے گئے۔اتنوں کو دو نمبر ڈاکومینٹس پر پسنجر لاؤنج پار کرادیا گیا۔اتنی لڑکیاں فلاں گھر سے جسم فروشی کے شبہے میں گرفتار۔۔۔دلال فرار۔پولیس مصروف ِ تفتیش۔۔۔۔جنوبی پنجاب کے اتنے بچوں کو متحدہ عرب امارات سے واپس لایا گیا جہاں انھیں والدین سے خرید کے اونٹ دوڑ میں جھونکنے لے جایا گیا تھا۔فلاں عورت کو شادی کا جھانسہ دے کر بیچ دیا گیا اور جس نے خریدا اس نے آگے بیچ دیا اور پھر اس نے اسے کسی بائی جی کو فروخت کردیا اور پھر اس نے۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔

شکر ہے ذہنی غلامی کے سروے کا اب تک کسی تنظیم کو خیال نہیں آیا ورنہ پوری پوری جماعتیں ، نظریے ، اقوام اور ممالک غلام نکلیں۔

یہ بات ہے فروری دو ہزار تین کی ہے۔میں پرانے استنبول میں گھومتے گھومتے نیلی مسجد کے سائے میں ایک چھوٹے سے باغ کی بنچ پر تھک ہار کے بیٹھ گیا۔ میرے برابر میں ایک ترک بزرگ بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔کچھ دیر بعد انھوں نے رسمی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا کہ کیسے ہو ؟ میں نے کہا تھک گیا ہوں مگر مزہ آرہا ہے۔۔پھر گفتگو شروع ہوگئی۔کسی مقامی کالج میں تاریخ پڑھاتے پڑھاتے حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے۔پوچھنے لگے ہمارا شہر کیسا لگا ؟ میں نے کہا کہ پچھلے تین روز سے گھوم رہا ہوں۔لیکن اب تک سڑک پر کوئی ایسا راہگیر نہیں دیکھا جس کا منہ لٹکا ہوا ہو۔یا کوئی کسی سے دست و گریباں ہوگیا ہو یا کم ازکم گالم گلوچ پر ہی اتر آیا ہو۔کیا آپ کے ہاں لوگوں کو غصہ نہیں آتا حالانکہ اس شہر میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں۔

بڑے میاں نے عینک کے پیچھے سے مجھے بغور دیکھا اور پھر مسکرا دئیے۔کہنے لگے تم کہاں کے ہو ؟ میں نے کہا پاکستان سے۔پھر پوچھا پاکستان میں پیدا ہوئے یا انڈیا میں ؟ میں نے کہا والدین انڈیا میں پیدا ہوئے اور میں پاکستان میں۔بڑے میاں نے کہا کہ تمہارا سوال بہت مزے کا ہے کہ ترکوں کو بات بے بات غصہ کیوں نہیں آتا ؟ ایسا نہیں کہ ہمیں غصہ نہیں آتا لیکن ہر وقت نہیں آتا۔اس کی ایک وجہ شائد یہ ہو کہ ہم کبھی من حیث القوم غلام نہیں رہے۔غلاموں کو بات بات پر غصہ آتا ہے کیونکہ غصہ ہی ان کی واحد ملکیت ہے اور اس غصے کا ہدف بھی وہ خود ہی ہوتے ہیں۔پتہ نہیں میں اپنی بات کہہ پایا یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔

بڑے میاں کی بات سن کے مجھے سکون سا آ گیا اور یوں لگا جیسے کوئی برسوں کی پھانس دل سے نکل گئی۔لیکن ان کے جاتے ہی مجھے یہ سوچ کے غصہ آ گیا کہ یہ ترک آخر اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں۔۔۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔