اندھیرا ہی اندھیرا

ظہیر اختر بیدری  پير 21 اکتوبر 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ایک چینل کے خصوصی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید نے عوام سے کہاکہ ’’باہر نکلو،مارو اور مرجاؤ، اس کے علاوہ ہمارے مسائل کا کوئی حل نہیں۔‘‘ انھوں نے کہاکہ جمہوریت کے نام پر بڑی پارٹیوں کے رہنماؤں نے جو کھیل شروع کیا ہے اس کا مقصد لوٹ مار میں شراکت اور لوٹ مار کے کیسز میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تین ماہ کے مختصر عرصے میں بجلی، گیس، پٹرولیم کی مصنوعات جی ایس ٹی وغیرہ میں جس طرح اندھا دھند اضافہ کیا ہے اور مہنگائی کو جس مقام پر پہنچارہاہے اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ لوگ سڑکوں پر آجائیں گے اور 1968اور 1977کی تاریخ دہرائی جائے گی یا مشرق وسطیٰ کی عرب بہار کا ری پلے پاکستان میں بھی ہوگا لیکن اس حوالے سے چند عوامل ایسے ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی بڑی پارٹیوں میں اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ ہر قیمت پر اس جمہوری عمل کو جاری رہنا چاہیے۔

جمہوریت کے حامی اور کسٹوڈین سیاست دانوں کا یہ استدلال بادیٔ النظر میں بالکل جمہوری نظر آتاہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس قسم کے استدلال پیش کرتے وقت ہمارے جمہوری رہنما اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ جن لوگوں نے جمہوریت کو دنیا میں متعارف کرایاہے انھوں نے جمہوریت کے ساتھ دو کڑی شرطیں بھی متعارف کرائی ہیں یہ دو شرطیں (1) عوام کی حکومت (2)عوام کے لیے ہیں۔ جب ہم ان دو شرطوں کی روشنی میں ہماری 36سالہ جمہوریت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر طرف جمہوری اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتاہے۔

پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت کے دوران عوامی مسائل خاص طورپر مہنگائی، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور بڑی بڑی بینک ڈکیتیوں کی جو صورت حال تھی موجودہ حکومت کے تین ماہ میں یہ عذاب اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ عوام کے لیے سڑکوں پر آنے کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری جیسی لعنتوں سے عوام اس قدر دہشت زدہ ہیں کہ وہ گھر سے نکلتے ہیں تو انھیں خیریت سے گھر واپس پہنچنے کا یقین نہیں ہوتا۔

ان حالات میں بلا شبہ عوام کا سڑکوں پر آجانا ایک فطری عمل ہے لیکن اہل دانش یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ اگر عوام سڑکوں پر آجاتے ہیں تو کیا یہ مشق مشرق وسطیٰ کی مشقوں کی طرح بے نتیجہ اور انارکی کا شکار تو نہیں ہوجائے گی؟ یہ سوال اس لیے ذہن میں آتاہے کہ عوام کا سڑکوں پر آنا با مقصد اور نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ یعنی کم از کم اس STATUS QUO کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ جو 66سال سے اس ملک کے غریب عوام پر مسلط ہے کیا شیخ رشید یا عمران خان ملک کو اسٹیٹس کرکے 66سالہ عذاب سے نکال سکتے ہیں، کیا ملک میں کوئی ایک بھی ایسی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما ہے جو اس 66سالہ جمود کو توڑ سکے۔؟

بہ ظاہر یہ صورت حال مایوس کن اس لیے نظر آتی ہے کہ اس ملک میں بامعنی تبدیلی کے پروگرام رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو ایک گہری سازش سے اس قدر پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور ان کو تقسیم کرکے ان کی طاقت کو اس قدر کمزور کردیا گیا ہے کہ یہ طاقتیں بھی کسی بڑی عوامی تحریک کی قیادت کی اہل نہیں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ عوام سڑکوں پر آنے کے لیے بے چین ہیں وہ ایک با معنی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔

عوام مہنگائی، گیس، بجلی، پٹرولیم کی قیمتوں میں لگاتار اضافے وغیرہ جیسی لعنتوں سے بلا شبہ سخت پریشان ہیں لیکن وہ ان پریشانیوں کو اس وقت بھول جاتے ہیں جب وہ خود کو اپنے بال بچوں کو گھر کے اندر اور گھر کے باہر انتہائی غیر محفوظ دیکھتے ہیں۔ جن بلاؤں نے پاکستان کے 18کروڑ عوام کی زندگیوں کو غیر محفوظ بنادیاہے 50ہزار سے زیادہ بے گناہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، مردوں کا خون بہایا ہے اور اب بھی بے گناہ پاکستانیوں کا انتہائی سفاکی سے خون بہارہی ہیں اور سر عام کہہ رہی ہیں کہ ہمیں پاکستان کا اقتدار چاہیے۔ کیا شیخ رشید، عمران خان، نواز شریف اور وغیرہ وغیرہ اس عفریت کو ختم کرنے اور عوام کو ان کی یر غمالی سے نکالنے پر متفق ہیں؟ اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ان ہی طاقتوں نے عوامی تحریکوں کو ہائی جیک کرکے عوامی تحریکوں کو بے معنی بناکر رکھ دیا ہے۔

عوام خانہ جنگی کا شکار ہوگئے ہیں۔ یہ طاقتیں بھی اسلام کے لیے جان دینے اور جان لینے کا عملی مظاہرہ کررہی ہیں اور شیخ رشید اور ان کے ہمنوا بھی اسلام کے لیے جان دینے کی بات کررہے ہیں۔ کیا کسی مرحلے میں یہ طاقتیں دودھ اور پانی کی شکل اختیار نہیں کرسکتیں؟ اگر ایسا ہوا تو پھر عوام کے مسائل عوام کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ عوام کے ذہنوں میں یہ خدشات اس لیے پیدا ہورہے ہیں کہ عوام کو مہنگائی، گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ جیسے عذابوں سے نکالنے کے دعویدار ان طاقتوں سے ذہنی ہم آہنگی کا مظاہرہ کررہے ہیں جو پاکستان کے اقتدار سے کم کسی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ شیخ رشید، عمران خان عوام کو میاں برادران کے مسلط کردہ عذابوں سے نکالنے کے لیے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، کیا وہ شریعت نافذ کرنے والی طاقتوں کو پیچھے دھکیل کر اقتدار میں آسکتے ہیں یا پھر ان سے سمجھوتہ کرکے ان کے شریک اقتدار بننا چاہتے ہیں۔ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ نظام کی تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے کے دعویداروں کو ان سوالوں کے جواب پہلے دینا ہوگا۔

اس گمبھیر صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ عوام کو سڑکوں پر لانے سے پہلے عوام کو یہ بتایاجائے کہ مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے حوالے سے ان کی پالیسی کیا ہے۔ اس سوال کی اہمیت اس لیے ہے کہ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے ملک میں امن و امان کی شدید ضرورت ہے اور امن وامان کی بحالی کے لیے امن کے دشمنوں کا خاتمہ ضروری ہے جب کہ صورت حال یہ ہے کہ عوام کو باہر آنے کا مشورہ دینے والے امن کے دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کو ہی ملک کے مسائل کا واحد حل قرار دے رہے ہیں۔

جب کہ یہ محترم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ شدت پسند اقتدار سے کم کسی فارمولے کو ماننے کے لیے تیار نہیں، کیا دو کشتیوں میں ایک ساتھ پیر رکھ کر نتیجہ خیز سفر کیا جاسکتا ہے۔؟ عوام کو باہر آنے کی کال دینے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ دہشت گرد نہ دل پشوری کرنے کے لیے قتل و غارت کررہے ہیں نہ یہ حضرات دہشت گردی کو گلی ڈنڈے کا کھیل سمجھتے ہیں۔ وہ پوری تیاری، پوری منصوبہ بندی اور ایک موثر حکمت عملی کے ساتھ اپنے مقاصد کی سمت پیش رفت کررہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں تمام سیاسی جماعتوں، مذہبی جماعتوں اور عسکری قیادت کا مذاکرات پر متفق ہونا ’’چہ معنی دارد‘‘

عوام بے شک باہر آنا چاہتے ہیں اور انھیں لازماً باہر آنا چاہیے لیکن کیا عوام کا کسی جامع پروگرام، تبدیلیوں کے متعین اہداف کے بغیر باہر آنا 1968،1977اور مشرق وسطیٰ کی تحریکوں سے مختلف ہوگا؟ اور یہ پروگرام، یہ اہداف خاندانی حکمرانیوں کا خاتمہ، لوٹ مار کا سخت اور بلا امتیاز احتساب، زرعی اصلاحات، انتخابی اصلاحات، کھربوں روپوں کے بینک قرضوں کی سختی سے واپسی، سیاستدانوں کے خلاف عدالتوں میں کرپشن کیسز کی تیزی سے سماعت اور فیصلے، مختصراً عوام کی حکومت عوام کے لیے قومی اتفاق رائے، پھر آپ عوام کو باہر آنے کی کال دیں ہم بھی آپ کے ساتھ ہوںگے، میڈیا بھی آپ کے ساتھ ہوگا۔ عوام بھی باہر آئیںگے اور وہ سیاسی جماعتیں بھی آپ کے ساتھ ہوںگی جنھیں ہمیشہ پیچھے دھکیلا جاتا رہا، جو نظام کی تبدیلی پر پختہ یقین رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔