نواز شریف خالی ہاتھ نہیں لوٹیں گے

ایاز خان  پير 21 اکتوبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

وزیر اعظم نواز شریف اقتدار سنبھالنے کے بعد  اپنے اہم ترین دورے پر امریکا میں ہیں۔ میاں صاحب کی کل واشنگٹن میں صدر اوباما سے پہلی ملاقات ہونے والی ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی صدر اوباما سے ملاقاتیں کی تھیں مگر میرے خیال میں سابق صدر پرویز مشرف کے بعد دونوں ممالک کے چیف ایگزیکٹوز میں ہونے والی یہ اہم ترین ملاقات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرویز مشرف کے بعد نواز شریف ہی وہ لیڈر ہیں جو آزادانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں بھی ہیں اور اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کی قوت بھی رکھتے ہیں۔

پاکستان کے  سابق جمہوری حکمران اس پوزیشن میں نہیں تھے، اس لیے ان کی طرف سے کیے گئے متعدد فیصلے بعد میں رول بیک ہوئے۔ امریکی انتظامیہ کو بھی اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ سابق جمہوری حکومت بڑے فیصلے کرنے اور پھر ان پر عمل درآمد کی اہل نہیں۔ اس دورے کی اہمیت کا اندازہ اس چیز سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب نے اس کی تیاری میں تمام سٹیک ہولڈرز سے مدد لی ہے۔ عید سے ایک دن پہلے اعلیٰ سطح کے  اجلاس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک تھے‘ جنھوں نے دفاعی امور پر وزیر اعظم کو بریفنگ دی۔ نواز شریف کے دورہ امریکا کی ٹائمنگ بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ امریکا کو آئندہ برس افغانستان سے اپنی فوج اور سازو سامان کا بڑا حصہ واپس لے جانا ہے۔ پاکستانی حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ہے۔

امریکا اور ایران کے تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ اور امریکی وزیر خارجہ میں ملاقات ہو چکی ہے۔ امریکا اور ایران میں اس سطح پر رابطہ 30 سال بعد ہوا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی اور امریکی صدر اوباماکے مابین بھی ملاقات ہونے والی ہے۔ سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری کی ایک وجہ ایران اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی ممکنہ قربت  بھی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو  امریکا کا دورہ  نواز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان بھی ہے۔ یہ دورہ شروع ہونے سے پہلے ہی امریکا کی طرف سے خیرسگالی کے پیغامات آنا شروع ہو گئے تھے۔

امریکی کانگریس 1.6 ارب ڈالر کی فوجی و اقتصادی امداد جاری کرنے پر راضی ہو گئی ہے۔ یہ امداد  دو سال سے رکی ہوئی تھی۔ صدر اوباما نے پیر کو کانگریس سے کہا ہے کہ وہ 30 کروڑ ڈالر کی سیکیورٹی امداد بھی بحال کر دے۔ ادھر پاکستان نے بھی کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جس سے امریکا یقیناً مطمئن ہو گا۔ انسداد دہشت گردی کی مشترکہ فورس قائم کی جا رہی ہے۔ اتوار کو صدر ممنون حسین کے دستخطوں سے پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس جاری ہوا ہے جس میں دہشت پھیلانے والوں کو ریاست کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔

خصوصی وفاقی عدالتیں اور الگ تھانے بھی قائم کیے جا سکیں گے۔ اس سے پہلے ملا عبدالغنی برادر کی رہائی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ نیو یارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نواز شریف اور من موہن سنگھ کی ملاقات کو بھی اس سے الگ رکھ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس ملاقات کو رکوانے کے لیے دونوں طرف کی انتہا پسند قوتوں نے پورا زور لگایا مگر دونوں وزراء اعظم کو کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ ڈٹے رہے۔

نواز شریف اپنے دورے کے دوران امریکا سے فوجی و اقتصادی تعاون چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ امریکا ڈرون حملے بند کر دے۔ شدت پسند بھی اپنا یہ مطالبہ کئی بار دہرا چکے ہیں کہ مذاکرات سے پہلے ڈرون حملے رکوائے جائیں۔ نواز‘ اوباما ملاقات سے پہلے دونوں طرف سے جو مثبت اشارے ملے ہیں ان سے لگتا ہے کہ بیک ڈور چینل استعمال ہوا ہے اور اس میں معاملات کافی حد تک پہلے ہی  طے پا چکے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورہ امریکا میں بھی بہت سے امور پر اتفاق ہوا تھا۔ اس دورے کے اثرات بھی نظر آ رہے ہیں۔ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ فوج کے دو اہم ترین عہدوں پر تقرریوں کے حوالے سے اعلان وقت سے پہلے ہو گیا۔ اگرچہ ابھی ان دونوں عہدوں کے لیے ناموں کا اعلان ہونا باقی ہے مگر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی واضح کر چکے ہیں کہ وہ مقررہ مدت تک ہی اپنے عہدے پر رہیں گے۔

نواز شریف کا دورہ امریکا پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیا کے لیے بھی اہم ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے اتوار کو پریس کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر جس طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے بھارت اس تشویش میں مبتلا نظر آتا ہے کہ کہیں امریکا نواز شریف کو زیادہ مراعات نہ دے دے۔ ایران کے ساتھ بہتر امریکی تعلقات بھی اس خطے پر اپنے اثرات مرتب کریں گے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افغانستان اور بھارت یہ شور کرتے ہیں کہ پاکستان سے در اندازی ہو رہی ہے۔

پاکستان کو بھارت سے شکوہ ہے کہ وہ بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے کمانڈروں کو پناہ دیتی ہے ۔ مولوی فضل اللہ کو صدر کرزئی کی پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کہیں ریاستی سطح پر اور کہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز دوسرے ملکوں میں اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان پر قابو پانا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ تینوں ملکوں کی حکومتیں اعتماد سازی کے لیے اقدامات کریں اوراپنی سر زمین دوسرے ملک کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ مستحکم افغانستان اگر پاکستان کے مفاد میں ہے تو مستحکم اور جمہوری پاکستان افغانستان ہی نہیں ہندوستان کے بھی مفاد میں ہے۔ ہندوستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی انتہا پسند قوتوں کو قابو میں رکھے۔ ان معاملات میں جہاں ہمارے خطے کی حکومتوں کا کردار اہم ہے وہاں امریکا کا تعاون بھی اتنا ہی ضروری ہے کیونکہ اس خطے کے سارے ممالک میں امریکا کے مفادات موجود ہیں۔

امریکا اور پاکستان کی ایک دوسرے سے توقعات بہت زیادہ ہیں۔ بداعتمادی بھی موجود ہے اور اتحاد واتفاق کے رشتے بھی زندہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ میاں نواز شریف امریکا سے اگر جھولی بھر کر نہیں لوٹتے تو خالی ہاتھ بھی نہیں آئیں گے کیونکہ دونوں ملکوں نے آگے بڑھنا ہے، پیچھے نہیں ہٹنا ہے۔ یہی اس دورے کا روشن پہلو ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔