فتووں کے سیزن اور آگے کا سفر

ڈاکٹر عاصم اعجاز  بدھ 13 نومبر 2019
سوشل میڈیا پر کسی کے بھی خلاف فتوے دینے کا چلن عام ہوتا جارہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سوشل میڈیا پر کسی کے بھی خلاف فتوے دینے کا چلن عام ہوتا جارہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

فصلوں، شادیوں اور پرندوں کی ہجرت کی طرح وطنِ عزیز میں اب فتووں کے بھی سیزن ہوا کرتے ہیں۔ ربیع الاوّل کے آغاز سے ہی فضاؤں میں گونجتی بدعت، بدعت کی صدائیں، محرم کی ابتدا پر نئے سال کے تہنیتی پیغامات، شب معراج پر عبادت گزاری کے ثبوت کی عدم موجودگی کی دلیلیں، شبِ برأت کے موقع پر مغفرت کے طلبگاروں کو گمراہی کے تمغے۔ یہ اور ایسے دیگر فتوے ہر اہم موقع پر، ہر سال، کسی نہ کسی طور سامنے آکر آپ کے ایمان کو آئینہ دکھاتے رہتے ہیں۔

اگر آپ سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہیں تو سمجھ لیجیے یہ فتوے آپ کو بالکل اسی طرح جتائے جائیں گے جیسے کسی مقروض کو قرض خواہ اپنا قرض جتاکر جاتا ہے یا جس طرح صبح خیزی کے دلدادہ ہاکر کا اتوار کی صبح کھڑکی کے ذریعے پھینکا گیا اخبار آپ کے منہ مبارک کو صبح بخیر کا پیغام دے جاتا ہے۔ گویا ان تمام فتووں سے کسی مردِ مومن کو مفر نہیں۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ کوئی نئی روِش ہے یا ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے؟

گو کہ فقہی اور مسلکی اختلافات نے ہمارے معاشرے میں ہمیشہ ایک مقام حاصل کیے رکھا لیکن اس کے باوجود عدم برداشت کا جو جنون آج کل دیکھنے میں آتا ہے وہ ماضی میں اتنا شدید نہیں تھا۔ ماسوائے 80 کی دہائی کے جب مملکتِ خدادادِ پاکستان ظلمتِ ضیائی میں اپنا چہرہ ٹٹولنے میں مصروف تھی، عوامی سطح پر مذہبی اور مسلکی اختلافات کے باوجود ہم آہنگی موجود تھی۔ بعد کے ادوار میں ضیاء کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والا عصبیت کا عفریت کسی نہ کسی طور ہمارے معاشرے پر غالب رہا۔ جنرل مشرف نے اسے گر نبُودے چوب تر، فرمان نَبُردے گاؤخر کے اصول کے تحت مار بھگانے کی کوشش کی، جس میں کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی، لیکن ساتھ ساتھ یا یوں کہیے کہ نتیجتاً مذہبی بنیادوں پر سماجی تفریق میں بھی اضافہ ہوا۔

پھر جب سوشل میڈیا کی ایک عام آدمی تک رسائی نے مذہبی اور مسلکی اختلاف کے مباحث کو نجی محفلوں اور گلیوں و محلوں میں جمنے والی بیٹھکوں سے نکال کر اس جگہ پہنچادیا جہاں مخاطب کمپیوٹر اسکرین کی دوسری طرف ہے تو اب نہ رسم و راہ کا لحاظ روا رکھنا ضروری سمجھا جانے لگا اور نہ علم و فہم ذاتی ہے یا گوگل بابا سے مستعار شدہ، یہ پرکھا جانا ممکن رہا۔ لہٰذا اپنی بات کو منوانے کے جوش میں لوگ وہ حدود بھی پار کرنے لگے جو پہلے معیوب سمجھی جاتی تھیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ٹھہری کہ وہ علمائے کرام اور اہلِ علم و دانش جو اختلافِ رائے کے باوجود لحاظ و مروّت، رواداری اور درگزر کا درس دیا کرتے تھے انہوں نے اس پلیٹ فارم کی اہمیت کو قبول کرنے اور اس کے استعمال میں تاخیر سے کام لیا۔ نتیجتاً ان کی جگہ ایسے لوگوں نے لے لی جنہیں اپنے سطحی علم اور شدت پسندانہ سوچ کی ترویج کے لیے ایک ایسے میدان کی ضرورت تھی جہاں ان کی عقل کے اسپِ بے لگام کے راستے میں سرپٹ دوڑتے وقت نہ کوئی رکاوٹ حائل ہو اور تماشائی بھی کثیر تعداد میں میسر ہوں۔ ایسے ہی لوگوں کو جلد قبولِ عام حاصل ہونے لگا۔

نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے، جو پہلے ہی مذہبی بیانیے کی روایتی سخت گیری، سوال اٹھانے پر قدغن اور پیچیدہ ہوتے ہوئے سماجی مسائل کی وجوہات کی بِنا پر اکتاہٹ کا شکار تھی، ایسے لوگوں کا اثر جلد قبول کیا۔ اب آسان ٹھہرا کہ آپ مخالف کی کسی بات کے جواب میں کسی اہلِ علم کی نادر تصنیف سے وقت صرف کرکے دلائل ڈھونڈنے کے بجائے اپنی من پسند رائے سے میل کھاتی کسی گفتار کے غازی، سوشل میڈیا مفتی کی رائے پر مبنی ویڈیو کو بطور دلیل پیش کردیں۔

رفتہ رفتہ لائیک و شیئر اور کاپی و پیسٹ، وہ تیغ و سِپر بن گئے جن سے آپ مخالف رائے کی سرکوبی کےلیے کھلے عام حملے بھی کرسکتے ہیں، بوقتِ ضرورت اپنا دفاع بھی اور سرد جنگ کی صورت میں موزوں ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اب کسی کو بدعتی اور گمراہ قرار دینا یا اپنی دانست کے وضع کردہ دائرہ اسلام میں سزائے خروج یا شرفِ شمولیت بخشنا نہایت آسان ہوا۔

سوچنا یہ ہے کہ اب یہاں سے آگے کا سفر کیسا ہوگا اور ہم اسے کس طرح طے کرنا چاہیں گے؟

دنیا نہایت تیز رفتاری سے جدت کے سفر پر گامزن ہے۔ یہ سفر نہ صرف حیران کن ہے بلکہ اس سے نت نئے سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔ انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے ہماری ذات سے لے کر رجحانات تک، تمام معلومات ڈیٹا کی صورت محفوظ ہورہے ہیں۔ اس ڈیٹا کا استعمال محض انفرادی سطح پر اشتہارات دکھانے تک محدود نہیں بلکہ کسی بھی گروہ یا معاشرے کا اجتماعی رجحان اور اس کے مطابق پالیسی سازی تک کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ آنے والے وقتوں میں کسی ملک کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے تیل اور معدنی ذخائر نہیں بلکہ اس کا ڈیٹا ہوگا۔

مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس)، مشین لرننگ وغیرہ کا استعمال اب اس سطح پر ہونے لگا ہے کہ انسانی رویوں سے لے کر سماجی روایات و اقدار، سب پر نظرِثانی کی ضرورت پیش آنے لگی ہے۔ انسان کی ذاتی ترجیحات سے لے کر طبعی و جسمانی معلومات سے متعلق مشینوں کے ذریعے ڈیٹا کلیکشن اور مشینوں کے ذریعے ہی کسی فیصلے کا لیے جانا، آنے والے وقتوں میں انسانوں کے روبوٹ سے ازدواجی رشتوں کی نوعیت و قبولیت، انسان اور مشین کے ہائبرڈ کا انسانی معاشرے میں مقام اور ان پر موجودہ انسانی قوانین اور حدود کا اطلاق جیسے بے شمار سوالات ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے سائنسی و فکری حلقوں میں زیرِ بحث آنا شروع ہوگئے ہیں۔

ایسی صورت ہمیں فتووں کے ذریعے دوسروں کے عقائد و اعمال کی راست بازی پر فیصلے صادر کرنے کے بجائے یہ دیکھنا ہوگا کہ ان فکری و سماجی مسائل کے تدارک کےلیے ہم اپنی آنے والی نسلوں کےلیے کس طرح کوئی راہ متعین کرپائیں گے۔

لہٰذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے مذہبی، سائنسی اور فکری حلقے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں۔ اپنی سوچ میں کشادگی پیدا کریں اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے نظریات اور ترقی یافتہ دنیا کے رجحانات کو سمجھیں۔ آنے والے وقتوں کے مسائل کا ادراک کریں۔ مذہب کی جدت سے غیر مسابقت جیسی بحث پسِ پشت ڈال کر، ایک دوسرے کو دقیانوسیت اور دہریت کے سرٹیفکیٹ تھمانے کے بجائے مسائل کے حل کےلیے مشترکہ طور پر کوئی لائحہ عمل طے کریں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نوجوانوں کے سوال اٹھانے پر قدغن نہ لگائی جائے، ان کے اذہان میں پیدا ہونے والے اشکالات پر تحمل سے غور کریں اور تدبر کے ذریعے راستہ تجویز کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر عاصم اعجاز

ڈاکٹر عاصم اعجاز

بلاگر میٹریلز فزکس میں پی ایچ ڈی ہیں اور تحقیق کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ تعلیم، ٹیکنالوجی، سماجیات اور ادب سے شغف ہے اور انہی موضوعات پر لکھتے بھی ہیں۔ سوئیڈن میں رہائش پذیر ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔