معاشی استحکام کے مثبت اشاریے

ایڈیٹوریل  بدھ 13 نومبر 2019
برآمدات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور 4 فیصد اضافہ ہوا، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فوٹو: فائل

برآمدات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور 4 فیصد اضافہ ہوا، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فوٹو: فائل

مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے معاشی صورتحال پر ایک رجائیت پسندانہ اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت استحکام کی جانب گامزن جب کہ ڈالر کے ذخائر بڑھ رہے ہیں ، روپیہ مستحکم ہوا ہے، حکومت نے اسٹیٹ بینک سے گزشتہ 4 ماہ سے کوئی قرض نہیں لیا بلکہ سابق حکومت کا لیا گیا2.1 ارب ڈالر قرض واپس کیا ہے۔

پیر کو اسلام آباد میں معاشی ٹیم کے ارکان وفاقی وزیر اقتصادی امور حماد اظہر، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مشیر خزانہ  نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال بعد پاکستانی برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا۔

بلاشبہ مشیر خزانہ کی جانب سے معاشی صورتحال کا خوش آیند منظر نامہ پیش کیا گیا ہے اور جو اشاریے جاری کیے گئے ہیں ان سے یہی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ ملکی معیشت کی بحالی کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اقتصادی سمت سازی اور معاشی روڈ میپ کی طرف مراجعت کے امکانات امید افزا ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کے استحکام کی اطلاعات کو جو بھی حقیقت پسندانہ بنیاد ہو اسے زمینی معاشی حقائق سے منسلک ہونا چاہیے، اور جن اشاریوں اور اقدامات کے نتیجہ میں معاشی کایا پلٹ ہونے والی  ہے اس کا اثر عام آدمی کی زندگی پر بھی پڑتا نظر آتا چاہیے۔

مبصرین کے مطابق بعض انگریزی معاصر اخبارات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملک میں پیدا شدہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں حکومت عوام کو ایک دل خوش کن سینارنیو سے خوش رکھنا چاہتی ہے، اور ایسے تخمینے، اقدامات اور کارروائیوں کے نتائج سے آگاہ کر رہی ہے جو کسی معجزہ کا نتیجہ ہی ہو سکتے ہیں۔

ان تجزیوں کی بنیاد اس اصولی استدلال پر ہے کہ اگر ڈالر کے ذخائر بڑھ رہے ہیںِ پاکستانی پیسے کی قیمت مستحکم ہو گئی ہے، قرضہ نہیں لیا جا رہا، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی ہے، مہنگائی میں کمی بھی لائی جا رہی ہے، تو عوام ان تبدیلیوں کو رونما ہوتے دیکھ کر ہی یقین کریں گے کہ ان کے مسائل اور مصائب کم ہونے لگے ہیں جب کہ اس تبدیلی کی عکاسی ملنے والے اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں فی الفور کمی سے ہونا ناگزیر ہے۔

مہنگائی میں کمی کا کوئی امکان اگر پیدا ہوا ہے تو اس کا عملی تجربہ عوام کو سبزی مارکیٹ میں خریداری کرتے ہوئے ہو جانا چاہیے، مگر مشاہدے میں آیا ہے کہ ملک کی تقریباً تمام سبزی منڈیوں اور تھوک مارکیٹوں میں سبزیوں، دالوں ، گھی ، خوردنی تیل ، پھلوں اور دوائیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ٹماٹر پاکستان بھر کی مارکیٹوں میں دو سو روپے سے تین سو روپے فی کلو بک رہا ہے، شملہ مرچ 70 روپے پاؤ ، اچھی پیاز 80 روپے فی کلو سے 120 اور مٹر 280  فی کلو دستیاب ہے، کوئی شہری سبزی، دالیں، گھی، تیل، مصالحے، مچھلی اور گوشت و چاول اور آٹے کی تھیلی گھر لے جانا چاہے تو قیمت سن کو سر چکرا جائے۔ پھلوں کے دام آسمان پر پہنچ گئے ہیں۔

ادھر مشیر خزانہ کے مطابق ایف بی آر کے محصولات میں بھی 16 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ تجارتی خسارے میں بدستور کمی ہو رہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ کئی ہفتوں سے بہتری آ رہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کے لیے کوشاں ہیں۔ آئی ایم ایف نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے وعدے پورے کیے اور45 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط دینے کی سفارش کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کے صدر نے بھی پاکستان میں اقتصادی اصلاحات کو سراہا۔

انھوں نے بتایا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے 30 ارب روپے اضافی مختص کیے۔ گھروں کی تعمیر کرنے والے اداروں کو ٹیکس چھوٹ دی جائے گی۔ برآمد کنندگان کے لیے قرض کی مد میں100 ارب مزید رکھے گئے ہیں۔ ٹیکس ریفنڈ کی مد میں 30 ارب جب کہ گردشی قرضوں کی مد میں 250 ارب روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔مشیر خزانہ نے بتایا کہ خوشحالی اس وقت ہوسکتی ہے جب ہم ڈالر کمائیں گے۔

برآمدات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور 4 فیصد اضافہ ہوا، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے، اسٹیٹ بینک کے قرض دینے کی حد میں بھی 100 ارب روپے کا اضافہ کیا جارہا ہے، گردشی قرضوں کی مد میں 250 ارب روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاجروں کو مراعات دینے کے مثبت اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ برآمد کنندگان کو 200 ارب روپے اضافی دیں گے، بزنس مینوں کو فوری طور پر30 ارب روپے نقد دیں گے وفاق اور چاروں صوبوں میں این ایف سی پر بات چیت چل رہی ہے۔

امید کی جانی چاہیے کہ بیان کردہ معاشی اشاریوں اور عوامی امنگوں اور ضروریات کے درمیان گیپ کم سے کم ہو، ضروی اشیا کی قیمتوں میں استحکام ہو اور اور شہریوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہو۔ کیونکہ  بیروزگاری تو مہنگائی میں عوام کو جمہوری ثمرات سے محرومی کو عذاب بنا دیتی ہے۔ پرائس کنٹرولنگ نام کی کوئی شے ملک میں موجود نہیں، حکومت اقتصادیات کے بنیادی نظام کو ٹھیک کر دے تا کہ عوام سکون کا سانس لے سکیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔