کراچی سے لاہور، کل اورآج

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 13 نومبر 2019
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

بچپن کی یادیں بڑی انمول اور خوبصورت ہوتی ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہر سال جب اسکول کی گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں تو ہم سب گھر والے کراچی سے لاہور جا کر اپنی چھٹیاں گزارتے تھے۔ راستے کا سفر بہت خوشگوار ہوتا تھا، ٹرین سے باہرکا نظارہ کرتے ہوئے سفر اور بھی خوبصورت اور دلفریب ہو جاتا تھا۔ ہر طرف ہرے بھرے کھیت اور سرسبز باغات دکھائی دیتے تھے۔

لاہور پہنچ کر ٹرین سے اترتے ہی ہم اپنے ماموں جان کو تلاش کرتے، جیسے ہی وہ نظر آتے ہم اور بھی خوش ہو جاتے، پھر ایک قلی ہمارا سامان اٹھاتا اور ہم اسٹیشن سے باہر آکرکسی ٹانگے میں بیٹھ کرگھر پہنچتے۔ پہلے دن آرام کر کے سفرکی تھکاوٹ دور کرتے اور اگلے دن کہیں گھومنے کا پروگرام بناتے، کبھی شالا مار باغ جاتے توکبھی شاہی مسجد، مینار پاکستان اورکبھی شاہی قلعہ جاتے اور اس دوران کبھی کھوئے والی قلفی لیتے تو کبھی ابلے ہوئے بھٹے جس کو وہاں کے لوگ ’’ چھلی‘‘ کہتے ہیں۔ ٹانگے میں زیادہ تر سفرکرتے، کبھی بہت دور تک پیدل چلتے کیونکہ موسم بھی بہت خوشگوار ہوتا تھا، کہیں نہر کے کنارے لگے درخت کا منظر دور تک ہمارا استقبال کرتا محسوس ہوتا۔

اکثر ہم سب کزن صبح صبح حلوہ پوری ، تل والے کلچے لا کر ناشتہ کرتے، شام کو چائے کے ساتھ کھانے کے لیے بہت بڑی گول اور پتلی سی باقرخانی بھی لا کر مزے سے کھاتے۔ مجھے یاد ہے کہ میں جب بھی اپنے کزن کے ساتھ باہر جاتا اور وہ جب اپنے ملنے والوں سے تعارف کراتے کہ میں کراچی سے آیا ہوں تو وہ فوراً آئو بھگت کرنے لگتے، کبھی کوئی لسی کا بڑا سا گلاس لے آتا اور پوچھتا ’’ پائی جان، لسی کے ساتھ پیڑا بھی چلے گا؟ ‘‘

میرا جواب یہی ہوتا کہ ’’ مجھ سے تو یہ لسی کا آدھا گلاس بھی ختم نہیں ہو گا‘‘ اس پر وہ اور بھی ہنستے۔ اب برسوں بعد دوبارہ لاہور جانے کا پروگرام بنا تو میں بہت خوش تھا کہ پھر بچپن کی طرح سیر و تفریح کروں گا، لاہور کی پر فضاء ماحول میں لمبی لمبی سانسیں لونگا۔ اس مرتبہ میں ٹرین کے سفر کے بجائے ایئر لائن سے لاہورکے لیے سفرکر رہا تھا، ایئر پورٹ پر میرے کزن اپنی گاڑی لے کر پہنچ چکے تھے لہذا اب بچپن کی طرح کسی ٹانگے میں بیٹھ کر گھرکی طرف رواں دواں ہونے کے بجائے اپنے کزن کی ایئرکنڈیشنڈ مرسڈیز میں سفر کر رہا تھا اور باہر کے مناظر دیکھ رہا تھا، میں محسوس کر رہا تھا کہ آج کا لاہورکل کے لاہور سے بہت بدل چکا ہے۔

گاڑی کی اسکرین سے باہر کے نظارے دیکھ کر معلوم ہو رہا تھا کہ لاہور اب ایک جدید اور ترقی یافتہ شہر بن چکا ہے، جہاں اب ٹانگوں کے بجائے میٹرو بسیں ہیں، نئی نئی ماڈل کی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں،کسی جدید شہرکی طرح بڑے بڑے شاپنگ سینٹر، ایئرکنڈیشنڈ شاپنگ مال ہیں ، سڑکوں کے کنارے رنگین اور الیکٹرک سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ لال اینٹوں کے بنے ہوئے مکانات کے بجائے ہر جگہ ویسی ہی تعمیرات نظر آ رہی تھیں جیسی کراچی شہر میں ہیں شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب میرے کزن اپنا پرانا علاقہ چھوڑکر لاہورکی ایک بڑی پوش سوسائٹی میں منتقل ہو چکے تھے۔

خیر گھر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ میرے کزن کا گھر بھی اب پہلے جیسا نہیں، ایک بہت بڑا بنگلہ ہے جس میں سیکیورٹی کے لیے کیمرے لگے ہیں جب کہ جس سوسائٹی میں ان کا گھر ہے وہاں چار دیواری کے علاوہ سیکیورٹی گارڈ بھی ہیں اور سی سی ٹی کیمرے بھی جگہ جگہ لگے ہوئے ہیں۔ بہرکیف اب کے لاہور بہت بدلا بدلا لگا خیر اگلے دن گھومنے کے لیے میں اپنے کزن سے مل کر پروگرام بنا رہا تھا اور سامنے ایک بہت بڑی اسکرین پر خبریں چل رہی تھیں۔

اچانک ایک خبر پر میرے کان کھڑے ہو گئے جس میں بتایا جا رہا تھا کہ کل لاہور شہر میں ’’سموگ ‘‘ کے سبب تمام اسکول بند ہیں اور شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں نیز اپنے گھرکے دروازے اورکھڑکیاں بند رکھیں۔ میں نے اپنے کزن سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ’’ بھئی یہ سموگ تو سمجھو کہ اب لاہورکی سوغات بن گیا ہے، اس موسم میں یہاں ایسا ہی ہوتا ہے، گاڑی چلانا تک مشکل ہو جاتا ہے، سانس اور آنکھ کی بیماری لگ جاتی ہے‘‘ خبر میں بتایا جا تا ہے کہ یہ سب بھٹوں کی چیمنیوں سے نکلے والے دھویں اور کسانوں کی جانب سے فصل کے چھلکے یا فضلے کو جلانے کے سبب ہوتا ہے اور حکومت ان کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

میں نے اپنے کزن سے کہا کہ ’’جناب یہ دونوں عمل تو صدیوں سے ہوتے آ رہے ہیں، پہلے توکبھی ایسی آلودگی نہ تھی اس شہر میں، ہاں البتہ اب دنیا کے دیگر شہروں کی طرح یہاں بھی تبدیلی آ گئی ہے، دنیا بھر میں سامان تعیشات مثلاً فریج ، اے سی ، گاڑیوں اور صنعتوں کے سبب آلودگی پھیل رہی ہے، چین میں بھی جس قدر جدید ترقی ہوئی اسی قدرآلودگی پھیلی اور آج وہاں بعض شہروں میں شہری اپنے چہروں پر ماسک لگا کر نکلتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ دنیا کے دیگر شہروں کی طرح لاہور بھی تبدیل ہو چکا ہے اور ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے ، اب یہاں ٹانگے ختم ہونے کو ہیں،کنکریٹ کی عمارتوں کا جنگل آباد ہو رہا ہے، سادگی کے بجائے وہ کلچر اور معیار زندگی اپنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے جس کا نتیجہ صرف اور صرف آلودگی ہے، پہلے میں لاہور پہنچ کر جس گھر میں ٹہرتا تھا اس کے برابر والے گھر کے بڑے صحن میں گھوڑا اور بگی یا ٹانگے کا اگلا حصہ دیوارکے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا تھا اورکوچوان کھلے آسمان کے نیچے چارپائی پر سوتے دکھائی دیتے تھے، ہم سب بچے بھی چھت پر سوتے تھے، صبح سویرے سب اٹھ جاتے تھے، ٹانگے میں سفرکر کے اور پیدل چل کر بھی انجوائے کرتے تھے، مگر اب کی بار میں اے سی مرسڈیز میں سفرکر کے گھر پہنچا، اے سی والے کمرے میں سویا، شاپنگ کے لیے بڑے سے شاپنگ مال میں جا کر شاپنگ کی۔

میرے کزن نے بھی ایک فون کال پر پیزا اور دیگر کھانا منگوا لیا، میری دیگر کزن سے بھی موبائل فون پر بات ہوگئی جو بہت پہلے لاہور شہر سے امریکا اورکینیڈا شفٹ ہو چکے تھے، یہ سب کچھ ترقی اور تبدیلی بہت اچھی لگ رہی تھی مگر میرا پرانا والا، لاہور اب کہیں گم ہو چکا تھا ، وہ لاہور جہاں ہم دو دن ٹرین کا سفرکرکے ایک چھوٹے سے گھر میں جا کر ٹہرتے تھے، کبھی پیدل اورکبھی ٹانگے میں سفرکرتے تھے، محلے دار خواتین صبح وشام ہم سے ملنے آتی تھیں، میرے کزن کے دوست دعوت بھی کرتے اور جہاں سے گزرتا اورکسی جاننے والے کو پتہ چلتا کہ میں کراچی سے آیا ہوں تو وہ فوراً کھانے پینے کے لیے لسی وغیرہ لے آتا۔

ہم روزانہ لاہور شہرکے کسی نہ کسی تاریخی اور تفریحی مقام کی سیرکو چل نکلتے ہمیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ، مگر آج کا لاہور، پرانا لاہور نہیں ایک جدید شہر ہے مگر میں اب کی بار یہاں کی سیر نہیں کر سکتا کیونکہ خبروں میں کہا جا رہا ہے کہ شہری گھر کے دروازے اورکھڑکیاں بندکر کے گھروں میں رہیں، بچے اسکول نہ جائیں۔ آج میں سوچ رہا ہوں کون سا لاہور اچھا ہے آج کا یا کل کا؟ میں کس میں زیادہ آزاد زندگی گزار رہا تھا کل کے غیر ترقی یافتہ لاہور میں یا آج کے جدید لاہور میں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔