ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کیسے روکا گیا؟ 

علی احمد ڈھلوں  بدھ 13 نومبر 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

’’ گزشتہ حکومت نے روپیہ مصنوعی طریقے سے مضبوط رکھنے کے لیے 25 ارب ڈالرخرچ کیے۔‘‘ یہ الفاظ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے ہیں جنھوں نے اگلے  روز پوری معاشی ٹیم کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتائی ، حکومتی عہدیداروں نے جن معاشی اصلاحات کی جانب توجہ دلائی اُن سے تو یہی لگتا ہے کہ معیشت کی پٹری ٹریک پر چڑھ چکی ہے۔

معاشی ٹیم کا ایک ویژن تو سمجھ میں آتا ہے کہ ’’خوشحالی اس وقت ہو سکتی ہے جب ہم ڈالر کمائیں گے‘‘ جب کہ گزشتہ حکومت اس کے برعکس کام کرتی رہی۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر الزام ہے کہ انھوں نے ڈالر کو کیسے مصنوعی انداز سے روکے رکھا ! اس وقت کرنسی ریٹ یا ایکسچینج ریٹ پالیسی کے حساب سے دنیا میں تین طرح کے ممالک پائے جاتے ہیں۔ جو اپنی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں ایک ہی ریٹ یا شرح پر منجمد کر دیتے ہیں۔

جیسے یو اے ای میں ، پانچ سال پہلے بھی ڈالر کا ریٹ 3.675 تھا، اب بھی یہی ہے۔ دوسرے وہ جو اپنی کرنسی کو ایک حد کے اندر (floating ) اوپر نیچے ہونے دیتے ہیں۔ جیسے چین، انڈیا یا پاکستان کرتے ہیں۔ان دونوں قسم کے ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ خزانے میں کرنسی مینجمنٹ کے لیے ریزرو رکھیں اور جب کرنسی کی شرح بگڑنے لگے یعنی ڈیمانڈ زیادہ ہو یا سپلائی زیادہ ہو تو خود کرنسی بیچ کر یا خرید کر مارکیٹ ریٹ کو متوازن کریں۔تیسری قسم کے ممالک وہ ہیں جو اپنی کرنسی ریٹ کو ویسے آزاد چھوڑ دیتے ہیں جیسے مارکیٹ میں دیگر ریٹ ہوتے ہیں۔ امریکا برطانیہ اور یورپی یونین سمیت ترقی یافتہ ممالک یہی کرتے ہیں۔

اس پر ماہرین کے درمیان اختلاف ہے کہ کونسا نظام بہتر ہے اوپر والے دو مصنوعی یا آخری والا آزاد مارکیٹ کا نظام۔ ماہرین کی اکثریت امیر ترقی یافتہ ممالک کے لیے تیسرے نظام کو سپورٹ کرتی ہے کیونکہ ان کی فنانشل مارکیٹ ایک تو بہتر اور ترقی یافتہ ہے دوسرا ان کی مارکیٹ کا حجم اتنا بڑا ہے کہ سینٹرل بینک کنٹرول نہیں کر سکتا۔ یو اے ای اس لیے یہ پالیسی کامیابی سے چلا رہا ہے کہ وہ تیل بیچ کر ٹھیک ٹھاک ڈالر کما لیتا ہے، دوسرا اس کے پاس سرمایہ کا بہاؤ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ اب اگر حکومت اسے مصنوعی طور پر ایک ہی ریٹ پر روکے رکھتی ہے تو یہ زیادہ مدت تک ممکن نہیں کیونکہ مارکیٹ نے خود کو ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے۔ اسحاق ڈار نے ایک عرصے تک ڈالر کو مصنوعی انداز سے روکے رکھا۔

اس نظام کی داغ بیل 70 کی دہائی میں اس وقت پڑی جب امریکا نے ڈالر کے عوض سونا دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے تیل کی تجارت کے لیے جو منڈی قائم کی اس کے تمام تر معاہدوں میں لین دین کی کرنسی امریکی ڈالر میں کرنے کا فیصلہ کیا، یہیں سے ’’پیٹرو ڈالر‘‘کی اصطلاح نے جنم لیا۔ اسی پیٹرو ڈالر نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس وقت دنیا میں بین القطبی نظام موجود تھا، یعنی ایک امریکا کے زیرِ انتظام سرمایہ دارانہ نظام اور دوسرا روس کی زیرِ قیادت اشتراکی نظام۔ روسی اشتراکی نظام کو مستحکم تجارتی نظام میں تبدیل نہ کرسکے اور خود روس میں اشتراکی نظام ختم ہوگیا۔

پاکستان بھی 1982 سے قبل امریکی نظام کا حصہ نہیں تھا۔ 1972 کو ایک امریکی ڈالر پاکستان کے 4 روپے کے مساوی تھا جب کہ ایک پاکستانی روپے کی قیمت 21 امریکی سینٹس تھی، پاکستان میں یہ نظام 1982 تک قائم رہا۔ اس حوالے سے اہم ترین فیصلہ غلام اسحاق خان نے کیا اور جنوری 1982 میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو مستحکم رکھنے کے بجائے فری فلوٹ کی جانب گامزن کردیا۔

اس وقت پاکستان افغان جنگ میں بری طرح اُلجھا ہوا تھا اور بڑی تعداد میں ڈالر پاکستانی معیشت میں آرہے تھے، جس کی وجہ سے روپے کی شرح مبادلہ کو فلوٹنگ کرنے کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا جاسکا۔ اس فیصلے کے بعد سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت پر ڈالر کی چھاپ گہری سے گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کے شرح مبادلہ میں تبدیلی سے ملک کے غریب، پسماندہ ترین یا دوردراز علاقوں میں رہائش پذیر عام پاکستانی بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔

اب آپ سوچیں گے کہ وہ کیسے متاثر ہوتا ہے ، حالانکہ پاکستان تو ایک زرعی ملک ہے لہٰذااس کے باوجود 5 ارب ڈالر سے زائد کی چائے، مصالحہ جات، خوردنی تیل، چینی اور دالیں وغیرہ جیسی مختلف غذائی اجناس درآمد کرتا ہے۔ اب آپ بس، ریل یا کسی اور سواری پر سفر کریں یا پھر گھر میں بیٹھے سوئی گیس پر کھانا پکائیں یہ سمجھ لیں کہ ایندھن کی جگہ ڈالر ہی جل رہے ہیں۔

پاکستانی معیشت کے حوالے حکومتِ پاکستان ’’اکنامک سروے آف پاکستان‘‘ یا اقتصادی جائزہ رپورٹ جاری کرتی ہے۔ ڈالر کی اہمیت کا اندازہ اس رپورٹ کا جائزہ لینے پر ہوجاتا ہے جس میں لفظ ڈالر 38 مرتبہ جب کہ ڈالر کا نشان ($) 300 سے زائد بار استعمال کیا گیا ہے۔

بہرکیف جب تک ہم ڈالر کے زیر اثر ہیں تب تک ہمیں اس کی غلامی میں رہنا ہوگا اور اس غلامی سے نکلنے کے لیے ہمیں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے جیسے حکومت نے حال ہی میں چین کے ساتھ تجارت چینی کرنسی میں ہی کرنے کا عندیہ دیا ہے، یقینا یہ ایک اچھی پیش رفت ہے، ڈالر بھی بظاہر مستحکم ہو چکا ہے،اسٹاک مارکیٹ میں بھی استحکام آچکا ہے، اللہ کرے یہ حکومت معاشی طور پر اس قدر مضبوط ہو جائے کہ حقیقی تبدیلی سب کے سامنے ہو ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔