جاوید نامہ: ڈاکٹر تقی عابدی کی نظر میں

زاہدہ حنا  بدھ 13 نومبر 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

نومبر اور دسمبر وہ مہینے ہوتے ہیں جب ہمارے یہاں ادبی محفلوں اور سیمیناروں کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ وہ ادیب اور دانشور جو مختلف براعظموں سے آتے ہیں، ان کی بات ایک طرف رہی، ہندوستان سے آنے والے ادیبوں اور دانشوروں سے ملک اور شہر کی فضا خوشگوار ہوجاتی ہے۔ مختلف موضوعات پر بحث مباحثہ سوئے ہوئے ماحول میں جان ڈال دیتا ہے۔ لوگ منتظر رہتے ہیں کہ اب انھیں کس کی شاعری سننے کو ملے گی اور کس کے خیالات سے وہ استفادہ کریں گے۔

اس برس ماحول پر قدرے سناٹا ہے اور وجہ اس کی سیاست ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سیاسی کشیدگی ادیبوں کی آمد و رفت پر بھی اثرانداز ہوئی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیے تو ڈاکٹر تقی عابدی کی پاکستان آمد باد نسیم کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہ ہم سب کی خوش نصیبی ہے کہ وہ پیدا ہندوستان میں ہوئے، کینیڈا کی شہریت اختیار کی، یہی سبب ہے کہ وہ پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان دنوں وہ پاکستان میں ہیں۔ کبھی کراچی یونیورسٹی میں لیکچر دے رہے ہیں اور کبھی انجمن ترقی اردو کے ’’اردو باغ‘‘ میں افکار اقبال پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور کبھی لاہور کی ادبی محفلوں میں شریک ہو رہے ہیں۔

پیشہ ان کا دل و جگر کے زخم سینا ہے اور شوق انھیں اردو اور فارسی کے شعر و ادب میں اپنے جوہر دکھانا ہے۔ چند دنوں پہلے وہ ’’اردو باغ‘‘ آئے اور وہاں انھوں نے علامہ اقبال کے اہم ترین فارسی کلام ’’جاوید نامہ‘‘ پر ایک توسیعی لیکچر دیا۔ ان کی باتیں پرہجوم محفل نے ذوق و شوق سے سنیں۔ اس سے اندازہ ہوا کہ موضوع کتنا ہی ثقیل کیوں نہ ہو، بولنے والا اگر موضوع کو پانی کردے تو لوگ اس کی بات سننے میں منہمک رہتے ہیں۔

انھوں نے اپنا تحقیقی اور تخلیقی سفر حضرت امیر خسرو کی شاعری کے اسرار و رموز کو سمجھنے اور سمجھانے سے شروع کیا تھا۔ 2010 میں ایسٹ ویسٹ یونیورسٹی، شکاگو میں انھوں نے اقبال کے عرفانی زاویے پر گفتگو کی۔ جامعہ اسلامیہ، دلی میں ان کا توسیعی لیکچر’’ حقوق انساںکلام امیر خسرو‘‘ کے موضوع پر تھا جس کی بہت شہرت ہوئی۔ 2018 میں انھوں نے کراچی اور لاہور میں اقبال اور فیض پر توسیعی لیکچر دیے۔ ساہتیہ اکیڈمی، دلی نے 2018 میں عبدالرحمن بجنوری پر سیر حاصل گفتگو کی۔ حیدرآباد دکن کی مولانا آزاد یونیورسٹی میں انھوں نے برصغیر کے اہم شاعر گلزار کی ’’تروینی‘‘ پر 2018 میں کلیدی خطبہ دیا۔

2018 میں ہی انھوں نے فیض انٹرنیشنل فیسٹیول لاہور میں شرکت کی اور اسی تسلسل میں وہ ہمیں اقبال اکیڈمی لاہور میں ’’مغرب میں اقبال شناسی کی حالیہ روایت‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے سنائی دیتے ہیں۔ انھوں نے غالب کا فارسی کلام مرتب کیا، اسی طرح ہندو شعرا کی منقبت، سوز اور سلام یکجا کیے۔ میر انیس اور مرزا دبیر کی رباعیات کو مرتب کرنا اور ان کا تجزیہ عابدی صاحب کا ایک اہم کام ہے۔ ان کی ضخیم کتاب ’’فیض فہمی‘‘ فیض صاحب کی زندگی اور شاعری پر وقیع اضافہ ہے اور اب وہ فیض کی باقیات مرتب کر رہے ہیں۔

ان کے اس مختصر تعارف سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے زندگی کس طرح حکمت و دانش اور بڑے شاعروں کے اشعار کی گرہیں کھولتے ہوئے بسر کی۔ وہ یوپی میں پیدا ہوئے لیکن 4 برس کی عمر سے حیدرآباد دکن میں رہے۔ وہاں انھوں نے اپنی تعلیم عثمانیہ یونیورسٹی سے مکمل کی اور پھر مغرب کا رخ کیا۔

اگر ہم ’’جاوید نامہ‘‘ پر نظر کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نظم مناجات سے شروع ہوتی ہے اور جاوید (ان کے بیٹے کا نام) سے خطاب پر تمام ہوتی ہے۔ شاعر ایک شام دریائے ِنکر کے کنارے ٹہل رہا ہے اور مولانا روم کے اشعار گنگنا رہا ہے کہ مولانا روم کی روح نمودار ہوتی ہے۔

اقبال اور مولانا روم کا مکالمہ چلتا ہے۔ وہ مختلف افلاک کی سیر کرتے ہیں۔ ان افلاک پر ان کی ملاقات کئی ارواحِ جلیلہ اور ارواح خبیثہ سے ہوتی ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ کا وہ حصہ بہ طور خاص توجہ کا طالب ہے جس میں اقبال کی ملاقات فلک مشتری میں غالب، حسین ابن منصور حلاج اور قرۃ العین طاہرہ سے ہوتی ہے۔ اس سیر میں ’’انا الحق‘‘ پر اور ’’خودی‘‘ پر بحث ہوتی ہے۔ ہمارے دانشوروں نے ’’جاوید نامہ‘‘ کی اس سیر پر خصوصی توجہ دی ہے۔ یہی وہ سیر ہے جس میں اقبال جدید سیاست کے اہم کرداروں کے بارے میں بھی گفتگو کرتے ہیں۔

ڈاکٹر تقی عابدی کا کہنا ہے کہ علامہ نے کبھی صرف ایسی شاعری نہیں کی جو ادب برائے ادب ہو۔ اسی لیے ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے کہ اگر میں خواجہ حسن نظامی کی طرح نثر لکھ سکتا تو کبھی شاعری کو اپنے پیام کا ذریعہ نہیں بناتا۔ علامہ صرف فن برائے فن کے قائل نہ تھے بلکہ فن کی قدرت سے انسانیت کے جوہر منوانے کے قائل تھے۔

علامہ شاعرِ انسانیت ہیں۔ اقبال شاعرِ حیات ہیں، اپنے ایک خط میں سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں: ’’میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔ فنِ شاعری سے مجھے کبھی دل چسپی نہیں رہی، ہاں بعض مقاصد رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کیا ہے۔‘‘ اقبال کا مقصد انسان کو بلندیوں تک پہنچاتا ہے تاکہ وہ نیابتِ الٰہی کا فریضہ ادا کرسکے اور دنیا میں صحیح معنوں میں حکومتِ الٰہیہ قائم ہوسکے۔ اقبال کے پاس انسانی عظمت کا اقرار خدا کی عظمت کے اظہار کے لیے ہے۔ جب جنگ عظیم اول کے بعد کمزور ملکوں کو پامال کیا جارہا تھا، اس وقت یہ اشعار انسانی اقدار کے نقیب بن کر ظاہر ہوئے:

آدمیت احترام آدمی

باخبر شو از مقامِ آدمی

کس نباشد در جہاں محتاج کس

نکتۂ شرع مبیں ایں است و بس

یعنی کوئی دنیا میں کسی کا محتاج نہ رہے اور دین الٰہی کا اصلی پیغام یہی ہے۔ کیوں کہ بقول مولانا روم:

آنچہ شیراں را کند روباہ مزاج

احتیاج است احتیاج است احتیاج

جو چیز شیروں کو لومڑی صفت بنا دیتی ہے، وہ صرف اور صرف ضرورت اور احتیاج ہے۔ اقبال انسان کو کھویا ہوا مرتبہ دلانے کے خواہاں ہیں، وہ انسان کی خودی کو ارتقا کے منازل پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں:

منکرِ حق نزد مُلّا کافر است

منکرِ خود نزد من کافر تر است

یعنی اللہ کا منکر مُلّا کے نزدیک کافر ہے اور اپنی خودی کا منکر اور انکار کرنے والا میری نظر میں بڑا کافر ہے۔ پھر فرماتے ہیں:

آنچہ در آدم بہ گنجد عالم است

آنچہ در عالم نہ گنجد آدم است

یعنی عالم اور کہکشاں میں آدمی سما نہیں سکتا لیکن آدمی میں عالم اور کہکشاں سما دیے جاسکتے ہیں یعنی انسان کے مقابلے میں کہکشاں ناچیز ہے۔ آفاق انسان سے چھوٹے اور کمزور ہیں بشرطیکہ انسان بیداری اور خودی کی بلندی پر ہو۔ علامہ کے نظریے کے تحت بیداری دل اصلی ایمان ہے۔ فرماتے ہیں:

کافری بیدار دل پیشِ صنم

بہ ز دینداری کہ خفت اندر حرم

یعنی ایک کافر بیدار دل کے ساتھ اپنے بت کے سامنے اُس مسلمان سے بہتر ہے جو کعبہ میں سو رہا ہے۔ آگے ’’جاوید نامہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

دین حق از کافری رسوا تر است

زانکہ مُلّا مومن کافر گر است

دین کافر فکر و تدبیر جہاد

دینِ مُلّا فی سبیل اللہ فساد

یعنی دینِ حق کفر و کافری سے رسوا تر ہوچکا ہے کیوں کہ ہمارا مُلّا مومنوں کو کافر بنا رہا ہے۔ انھیں کفر کی تعلیم دے رہا ہے۔ ایک طرف کافر، جہاد اور لڑائی کی فکر اور تدبیر میں مشغول ہیں تو دوسری طرف ہمارا مُلّا مسلمانوں میں اللہ کے نام پر فساد برپا کر رہا ہے۔

’’جاوید نامہ‘‘ کو علامہ مصور کروانے کے بھی خواہش مند تھے، چناں چہ اپنے مکتوب 31 مارچ 1933 میں لکھتے ہیں، ’’اہم کام یہ ہے کہ ’’جاوید نامہ‘‘ کا تمام و کمال ترجمہ کیا جائے۔ مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کرلینا یقینی امر ہے۔ اگر ترجمہ ہوجائے اور اگر اس ترجمے کو کوئی عمدہ مصور بنا دے تو یورپ اور ایشیا میں مقبول تر ہوگا۔ اس کتاب میں تخیلات نئے ہیں اور مصور کے لیے عمدہ مسالہ ہے۔‘‘

پھر علامہ اپنے ایک اور خط مورخہ 25 جون 1935 میں کاظمی کو لکھتی ہیں، ’’میرے خیال میں میری کتابوں میں صرف ’’جاوید نامہ‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصور طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کرسکتا ہے مگر اس کے لیے مہارت فن کے علاوہ الہامِ الٰہی اور صرفِ کثیر کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ چیز ایسی شان کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گی تو دنیا یقینی طور پر اس کو کاظمی اسکول کے نام سے موسوم کرے گی۔ آپ محض مصوری میں اضافہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ دنیائے اسلام میں بحیثیت مصور اقبال ایک زبردست خدمت انجام دے رہے ہیں جوکہ قدرت شاید آپ ہی سے لینا چاہتی ہے۔ پوری مہارتِ فن کے بعد آپ نے ’’جاوید نامہ‘‘ پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔‘‘

اس روز ’’جاوید نامہ‘‘ کے موضوع پر جناب شاداب احسانی، جناب عقیل عباس جعفری اور ڈاکٹر رخسانہ صبا نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ صدر انجمن جناب واجد جواد نے مختصراً گفتگو کو سمیٹا اور ایک یادگار محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔