پی ٹی آئی کے دو اہم رہنماؤں کی ’’صلح‘‘ فیصلہ مستقبل کرے گا

رضوان آصف  بدھ 13 نومبر 2019
نئے اور پرانے کی جنگ بتدریج شدت اختیار کرتی چلی گئی اور عمران خان کیلئے مشکلات بڑھتی چلی گئیں۔ فوٹو: فائل

نئے اور پرانے کی جنگ بتدریج شدت اختیار کرتی چلی گئی اور عمران خان کیلئے مشکلات بڑھتی چلی گئیں۔ فوٹو: فائل

لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے سیاسی مخالفین سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا کہ خود اپنے رہنماوں کے درمیان جاری’’خانہ جنگی‘‘ سے ہے۔

2011 ء میں مینار پاکستان کے میدان میں تارخ ساز جلسہ سے قبل کی تحریک انصاف ایک محدود جماعت تھی جس میں عمران خان کے بعد گنے چنے افراد کو’’ مرکزی رہنما‘‘ کا لقب حاصل تھا لیکن مینار پاکستان جلسہ گاہ میں سے ایک نئی تحریک انصاف نے جنم لیا جس میں ملکی سیاست کے بڑے بڑے نام شامل ہونا شروع ہوئے اور پھر تحریک انصاف دھڑوں میں تقسیم ہونا شروع ہو گئی، اس دھڑے بندی کی بنیاد یہ تھی کہ پرانے پارٹی ورکر اور رہنماوں نے نئے آنے والوں کو’’اپنا‘‘ نہیں سمجھا اور نہ ہی ان کے استقبال کیلئے اپنے دل کو کشادہ کیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف دو بڑے گروپس میں تقسیم ہو گئی ایک گروپ جس میں نئے آنے والوں کی اکثریت تھی اس نے اپنی قیادت کیلئے جہانگیر خان ترین کو منتخب کیا جبکہ دوسرے دھڑے جس میں چند نئے آنے والے اہم افراد نے مرکزیت حاصل کر لی انہوں نے جاوید ہاشمی کو اپنا گروپ لیڈر بنا لیا جبکہ اس گروپ میں سیف اللہ نیازی اور شاہ محمود قریشی جیسے بڑے نام بھی شامل ہو گئے۔

نئے اور پرانے کی جنگ بتدریج شدت اختیار کرتی چلی گئی اور عمران خان کیلئے مشکلات بڑھتی چلی گئیں۔جاوید ہاشمی کا ’’باغی‘‘ سے’’داغی‘‘ کا سفر دھرنے کے دوران اختتام پذیر ہوا تو شاہ محمود قریشی نے گروپ کی قیادت سنبھال لی اور پھر اس دھڑے بندی میں ایک نئی تیزی آ گئی کیونکہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین دونوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور دونوں رہنما ہی عمران خان کے نزدیک ہیں۔

شاہ جی نے جہانگیر ترین کو’’ہدف‘‘ بنایا اور انٹرا پارٹی الیکشن میں کھل کر مخالفت کی گئی جبکہ ایک مرتبہ تو شاہ محمود قریشی نے لاہور میں ہونے والے ایک تنظیمی اجلاس میں جہانگیر ترین اور چوہدری محمد سرور کے خلاف اتنی سخت تقریر کی کہ عمران خان نے غصہ میں آکر انٹرا پارٹی الیکشن ہی ملتوی کر دیا تھا۔ شاہ جی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو عمران خان کے بعد پارٹی کا سب سے اہم فرد سمجھتے ہیں لیکن عمران خان اپنے بعد جس ساتھی کی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت اور فوقیت دیتے ہیں وہ جہانگیر خان ترین ہیں۔

الیکشن سے قبل ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی شاہ جی کو جہانگیر ترین کے مقابلے میں اپنی بات منوانے کا کم موقع ملا ، جہانگیر ترین کی تکنیکی بنیادوں پر نا اہلی کے بعد شاہ محمود قریشی وزیر اعلی پنجاب کے عہدے کے امیدوار بننا چاہتے تھے لیکن جہانگیر ترین نے عمران خان اور اپنے قابل اعتماد ساتھی عبدالعلیم خان کو امیدوار بنانے کی حمایت کی۔

الیکشن جیتنے کے بعد سے اب تک متعدد مرتبہ شاہ جی عثمان بزدار کی تبدیلی کی صورت میں وزیر اعلی بننے کی خواہش کی آبیاری کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ عمران خان ’’NO ‘‘ کہہ دیتے ہیں اور شاہ جی سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین نے کپتان کو سبق سکھایا ہوگا۔

چند ماہ قبل گورنر ہاوس لاہور میں چوہدری سرور کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھی شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین پر سخت ریمارکس دیئے تھے اور کہا تھا کہ جہانگیر ترین کو کابینہ اجلاس میں نہیں بٹھانا چاہئے لیکن صدر مملکت عارف علوی، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت وفاقی و صوبائی وزراء کی بہت بڑی تعداد اور ملک بھر کے پارٹی رہنماوں کی اکثریت نے اپنے بیانات، ٹویٹس کے ذریعے جہانگیر ترین کی کھل کر حمایت کی جبکہ عمران خان نے بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری صوابدید ہے کہ کسے کابینہ اجلاس میں مدعو کرنا ہے۔ درحقیقت اسی واقعے کے بعد شاہ محمود قریشی کو سنجیدگی سے یہ احساس ہوا کہ وہ عمران خان کو جہانگیر ترین سے دور کر کے ترین کی جگہ نہیں لے سکتے۔

دونوں رہنماوں نے گزشتہ ماہ یہ اعلانات کیئے ہیں کہ ان کے درمیان ’’پکی‘‘ صلح ہو چکی ہے اور اب وہ نہیں لڑیں گے۔ یہ اعلانات ماضی میں بھی ہوتے رہے لیکن ہر دفعہ صلح ٹوٹ جاتی تھی دیکھتے ہیں کہ اس مرتبہ یہ ’’جوڑ‘‘ کتنا پکا لگایا گیا ہے۔

جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان نے اپنی محنت اور قربانیوں کے ذریعے پارٹی میں جگہ بنائی ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان ان دونوں پر بہت اعتماد کرتے ہیں جبکہ شاہ جی بھی کپتان کے مقربین خاص میں شامل ہیں اور خان ہر اہم سیاسی معاملے میں شاہ جی کی رائے کو اہمیت دیتا ہے لہذا اب شاہ جی کو بھی دل صاف کر لینا چاہیئے،کوئی کسی کی جگہ نہیں لے سکتا ہر بندہ اپنی نیت اور محنت کے مطابق اپنی جگہ بناتا ہے۔

شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی باہمی لڑائی نے عبدالعلیم خان کو بھی نقصان پہنچایا،علیم خان نے لاہور اور سنٹرل پنجاب میں پارٹی کیلئے قابل تعریف کام کیا، اپنی جیب سے اربوں روپے خرچ کیئے،کئی امیدواروں کے الیکشن کا خرچہ بھی خود برداشت کیا یہ الگ بات کہ ان میں سے بعض امیدواروں نے علیم خان سے لی گئی رقم الیکشن پر خرچ کرنے کی بجائے نیا گھر خریدنے پر خرچ کر دی۔

علیم خان نے مشکل ترین حالات میں بھی جہانگیر خان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور شاہ محمود قریشی گروپ کی تمام تر مخالفت برداشت کی۔ تحریک انصاف کو اس وقت بہت بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان کی کور ٹیم اپنی باہمی لڑائیوں کو ختم کرے۔

جہانگیر ترین اس وقت حکومتی معاملات میں بالخصوص زراعت اور صنعت وتجارت میں عمران خان کے ساتھ ملکربہت عمدہ کام کر رہے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی نے سفارتی اور پارلیمانی محاذ پر کپتان کا مورچہ بہت اچھے سے سنبھالا ہے، تنظیمی معاملات سیف اللہ نیازی کے سپرد کیئے جا چکے ہیں لہٰذا اب تمام فریق اپنے اپنے میدان میں جوہر شمشیر کا مظاہرہ کریں تو عمران خان اور حکومت کیلئے فائدہ مند ہوگا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔