جمعیت علماء اسلام کے آزادی مارچ کے مقاصد پورے ہو سکیں گے؟

شاہد حمید  بدھ 13 نومبر 2019
اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے معاملات دیوار سے لگ چکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے معاملات دیوار سے لگ چکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پشاور: سب کی نظریں لاہور اور اسلام آباد پر لگی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے پورے ملک کی سیاست جمود کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔

لاہور پر اس لیے کہ کب سابق وزیراعظم محمد نوازشریف علاج کی غرض سے بیرون ملک روانہ ہوتے ہیں،ان سطور کو سپرد قلم کرنے تک کی صورت حال یہ ہے کہ نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر موجود ہے اور وہ علاج کی غرض سے لندن روانہ نہیں ہو سکے البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ جلد ہی ان کی روانگی ہو سکے کیونکہ حکومت کو ان کی روانگی پر کوئی اعتراض نہیں، تاہم بیوروکریٹک چینلزکی پیچیدگیاں ان کی روانگی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے بھی صورت حال واضح نہیں ہو رہی،وہ ’’دھرنا نہیں دینگے‘‘ کا ورد کرتے ہوئے اسلام آباد داخل ہوئے تھے تاہم اب ان کے دھرنے کو دوسرا عشرہ شروع ہو چکا ہے اور وہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ انہوں نے کرناکیا ہے؟ اگرچہ ان کا یہ مطالبہ تو روز اول ہی سے سامنے ہے کہ وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دیں، تاہم وزیراعظم کے مستعفی نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے کیا کرنا ہے؟ شاید وہ خود بھی اس بارے میں تاحال فیصلہ نہیں کر سکے۔

اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے معاملات دیوار سے لگ چکے ہیں، وزیراعظم بڑے واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی طور استعفیٰ نہیں دیں گے اور ان کی ٹیم کا بھی یہی عزم ہے جبکہ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن استعفے سے کم پر آہی نہیں رہے جس کی وجہ سے بات اٹکی ہوئی ہے، یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن بارہ ربیع الاول کے موقع پر دھرنے سے اپنے خطاب میں پلان بی کا اعلان کر دیں گے اور پیر12نومبر سے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا تاہم نہ تو پلان بی جاری کیا گیا اور نہ ہی بات دھرنے سے آگے بڑھ سکی ہے جس کی ممکنہ طور پر وجہ یہ رہی ہو کہ اگر بات دھرنے سے آگے بڑھتی ہے جو بھلے ریڈ زون میں داخلے کی صورت میں ہو یا پھر قومی شاہراہوں کی بندش کی شکل میں، دونوں ہی صورتوں میں حکومت حرکت میں ضرور آئے گی اور بات جو اب تک بغیر کسی تصادم اور تنازعہ کے دھرنے کی صورت چل رہی ہے وہ بگڑ سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ نہ تو پلان بی کا اعلان کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس پر عمل درآمد شروع ہو رہا ہے۔

مولانا فضل الرحمن یا تو بلف گیم کھیل رہے ہیں جس میں ہاتھ میں انتہائی کمزور پتے ہونے کے باوجود مخالف کو ڈرا دھمکا کر میدان چھوڑنے پر مجبورکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یا پھر ان کے ہاتھوں میں پتے تو ہیں لیکن وہ ان پتوں کو چلنے کے حوالے سے واضح نہیں ہیں اور سارے پتے انہوں نے سینے سے لگا رکھے ہیں، یہی شکایت دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی مولانا فضل الرحمن سے ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کے بارے میں ان سے کھل کر بات تک نہیں کر رہے تو بات کیسے آگے بڑھے گی؟

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اسی صورت حال کی وجہ سے رفتہ، رفتہ دھرنے سے غائب ہوگئی ہیں اور اب اسلام آباد دھرنے کے سٹیج پر مولانا فضل الرحمن کے پہلو میں کوئی نظر آتا ہے تو وہ صرف محمود خان اچکزئی ہیں، دیگر تمام رہنما سٹیج چھوڑ چکے ہیں اور وہ منتظر ہیں کہ یا تو مولانا فضل الرحمٰن اپنے سارے کارڈ ان کے سامنے شو کریں تاکہ بات ان کے پلے پڑ سکے یا پھر رہبر کمیٹی کو اتنا اختیار دیا جائے کہ وہ وزیراعظم کے استعفے پر بات نہ بننے کی صورت میں کوئی محفوظ راستہ تلاش کر سکے۔

یقینی طور پر رہبر کمیٹی ہی کی سطح پر یہ تجاویز سامنے آئی تھیں کہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کی بجائے عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جس کے سربراہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج ہوں اور مذکورہ کمیشن کو مخصوص وقت دیتے ہوئے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات حوالے کی جائیں۔

اپوزیشن کو جن حلقوں کے حوالے سے دھاندلی کی شکایات ہیں ان کی نشاندہی کی جائے تاکہ اس سلسلے میں معاملہ واضح ہو سکے جبکہ وزیراعظم کے فوری استعفے کی بجائے وسط مدتی انتخابات کی بات چھیڑی گئی اور تجویز سامنے آئی کہ یہ وسط مدتی انتخابات 2021 ء میں منعقد کیے جا سکتے ہیں کیونکہ تب تک موجودہ حکومت اپنے ڈھائی سال بھی پورے کر چکی ہوگی اس لیے وسط مدتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوگا تاہم مولانافضل الرحمٰن اس پر راضی نہیں کیونکہ وہ 2021 ء کی بجائے2020 ء کو انتخابات کا سال بنانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے شایداب 2021ء کی تجویز بھی پیچھے چلی گئی ہے اور بظاہر معاملات تصادم کی طرف ہی جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

ایسا اس لیے کہ مولانا فضل الرحمن کب تک اپنی پارٹی کے ورکروں کو لیے ایچ نائن اسلام آباد میں بیٹھے رہیں گے، جلد انھیں کسی نئی حکمت عملی کی طرف جانا ہوگا اور جونہی وہ اپنی پوزیشن کو تبدیل کریں گے ان کا حکومت سے ٹکراؤ ضرور ہوگا اور اس ٹکراؤ کے حوالے سے مولانافضل الرحمن تنہا نظر آرہے ہیں کیونکہ دو بڑی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے کنارہ کش ہوکر اپنی،اپنی سیاست کی راہ لینے کے بعد دیگر پارٹیاں بھی اپنی،اپنی راہ پر چلی گئی ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی نے پارٹی کے تھنک ٹینک کا اجلاس بلایا،پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے تمام تر صورت حال پر غور کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ رہبر کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق چلے گی جبکہ یہی صورتحال قومی وطن پارٹی کی بھی ہے اور رہبر کمیٹی کی صورتحال نمائشی بنتی جا رہی ہے کیونکہ رہبر کمیٹی کو فیصلوں کا اختیار ہے نہ ہی وہ معاملات طے کر سکتی ہے، ڈور فضل الرحمن کے ہاتھوں میں ہے جو معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق ہی چلانا چاہتے ہیں جسکی وجہ سے رہبر کمیٹی کا کردار کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔