آمریت کے باعث آرڈیننس آتے رہے، اب پارلیمنٹ تبدیلی لاسکتی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

ویب ڈیسک  بدھ 13 نومبر 2019
حکومت اور اپوزیشن نے انا بنالی اس لیے اتفاق نہیں ہوتا، اسلام آباد ہائیکورٹ فوٹو:فائل

حکومت اور اپوزیشن نے انا بنالی اس لیے اتفاق نہیں ہوتا، اسلام آباد ہائیکورٹ فوٹو:فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آرڈیننس کے خلاف درخواست کی سماعت میں ریمارکس دیے کہ ملک میں آمریت کے باعث آرڈیننس آتے رہے لیکن اب پارلیمنٹ اس رویے میں تبدیلی لاسکتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت کی جانب سے 8 آرڈیننس جاری کرنے کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

ن لیگ کے وکیل عمر گیلانی نے کہا کہ 30 اکتوبر کو صدر نے 8 آرڈیننس پاس کئے، یہ آرڈیننس جیلوں و قیدیوں سے متعلق رولز، قوانین میں تبدیلی اور دیگر معاملات کے حوالے سے ہیں، آرٹیکل 89 کے مطابق صدر صرف ایمرجنسی میں آرڈیننس جاری کرسکتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹرینز کو یہ محسوس کرنا چاہیےکہ وہ معاملات اسمبلی میں حل کرسکتے ہیں، یہ تواچھے ایشوزپرآرڈیننس ہیں اور پبلک انٹرسٹ کے ہیں، محسن شاہ نواز رانجھا خود ممبر قومی اسمبلی ہیں ان کو وہیں یہ معاملہ اٹھانا چاہیے، جو اچھی چیزیں ہیں ان پر آپ اسمبلی میں بحث کرسکتے ہیں، کیا اپوزیشن نے اسپیکرکے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا؟۔

محسن شاہ نواز رانجھا نے جواب دیا کہ جی ہم نے ان کے خلاف اسپیکر کو لکھا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈیننس ایک خاص وقت کے لیے ہوتے ہیں اس سے آگے نہیں جاسکتے، عدالت نے محسوس کیاکہ اپوزیشن اور حکومت دونوں سخت موقف رکھتے ہیں اور دونوں نے انا بنا لی ہے اس لیے اتفاق نہیں ہوتا، یہاں ڈکٹیٹرشپ رہی ہے اسی وجہ سے آرڈیننس آتے رہے اور ایکٹ بنتے رہے، پارلیمنٹ خود سے اب اس رویے میں تبدیلی لاسکتی ہے، عدالت میں سیاسی نوعیت کے معاملات کونہ لائیں، عدالتوں کے اور بہت سے کام ہیں یہی وقت عام سائلین کو دیا جاسکتاہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھے آرڈی نینسز کو سپورٹ کریں، آپ تو تمام آرڈی نینسز کو عدالت لے آئے ہیں، بدقسمتی سے ڈکٹیٹرشپ دور میں منظور آرڈی نینسز کو پارلیمنٹ نے ایکٹ کی شکل دی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹس جاری کردیے جبکہ سیکرٹری وزیراعظم، سیکرٹری صدرپاکستان، سیکرٹری وزارت قانون، سیکرٹری سینیٹ اور سیکرٹری قومی اسمبلی سے بھی جواب طلب کرلیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔