جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے لندن اثاثوں کے مالک ہیں، وکیل

ویب ڈیسک  بدھ 13 نومبر 2019
جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں نے لندن اثاثوں کی ملکیت سے کبھی انکار نہیں کیا، بابر ستار فوٹو:فائل

جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں نے لندن اثاثوں کی ملکیت سے کبھی انکار نہیں کیا، بابر ستار فوٹو:فائل

 اسلام آباد: جسٹس فائز عیسی کے وکیل بابر ستار نے صدارتی ریفرنس کے خلاف دلائل میں کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے لندن اثاثوں کے مالک ہیں جن کی ملکیت سے کبھی انکار نہیں کیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر درخواستوں کی سماعت کی۔

بابر ستار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس شہری اور ریاست کے درمیان معاملہ ہے، کوئی شخص کسی دوسرے کے ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا ، انکم ٹیکس قانون کا اطلاق آمدن پر ہوتا ہے اثاثوں پر نہیں، جس رقم پر ٹیکس لاگو نہ ہو اس پر انکم ٹیکس بھی لاگو نہیں ہوتا، ٹیکس قوانین میں منی ٹریل کاکوئی ذکر نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بہتر تھا کہ جسٹس فائز کی اہلیہ کو شوکاز جاری کرکے جواب طلب کیا جاتا، وکیل

بابر ستار نے کہا کہ منی ٹریل کا معاملہ پانامہ کیس میں پہلی بار سامنے آیا، منی ٹریل آف شور کمپنیوں میں سامنے لانا ہوتی ہے جہاں اصل مالک کا علم نہ ہو، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ٹیکس قوانین کے شق 116 کی خلاف ورزی نہیں کی، جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے لندن اثاثوں کے مالک ہیں، انہوں نے کبھی ملکیت سے انکار نہیں کیا، ٹیکس ادا کرنا اور گوشوارے جمع کرانا الگ الگ چیزیں ہیں، قابل ٹیکس آمدن نہ بھی ہو تو بھی گوشوارے جمع کرائے جا سکتے ہیں۔

جسٹس یحیی آ فریدی نے کہا کہ کیس میں ایشو انکم کانہیں اثاثے کا ہے۔ بابر ستار نے کہا کہ اس اثاثے کو ظاہر کرنا کبھی جسٹس قاضی فائز عیسی کی ذمہ داری نہیں تھی، یہ اثاثہ کبھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے رہے ہی نہیں،ٹیکس قوانین میں کوئی شخص کسی دوسرے کا جواب دہ نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2013 میں اپنے گوشوارے جمع کروائے تھے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 2013 کے ویلتھ اسٹیٹمنٹ فارم کے مطابق اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کا علم ہونا لازم ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بیوی شوہر کے زیر کفالت نہ بھی ہوتو اس کے اثاثوں کا علم ہونا ضروری ہے قانون میں اہلیہ کا ذکر ہے زیر کفالت کا نہیں۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔