پنجاب کی پہچان، پنجاب اڑیال

آصف محمود  ہفتہ 16 نومبر 2019
پنجابی اڑیال صرف جہلم و چکوال میں پایا جاتا ہے۔ (تصاویر: غلام رسول)

پنجابی اڑیال صرف جہلم و چکوال میں پایا جاتا ہے۔ (تصاویر: غلام رسول)

میں متعدد بار پہلے بھی چکوال آچکا ہوں۔ سالٹ رینج کے اس خطے میں عجیب کشش ہے۔ شاید ہم لاہور کے میدانی علاقے میں رہنے والوں کےلیے سالٹ رینج کے پہاڑ زیادہ کشش رکھتے ہیں۔ اگر ہم لاہور سے اسلام آباد یا پھر مری کی طرف جائیں تو موٹروے پر سفر کرتے ہوئے ہمیں جو سب سے پہلی تبدیلی محسوس ہوتی ہے، وہ سالٹ رینج کے یہ پہاڑ ہیں۔ جب محسوس ہوتا ہے کہ ہم لاہور سے باہر نکل کر کسی پرفضا مقام کی طرف جارہے ہیں۔

آج ہم یہاں ایک خاص مقصد کےلیے آئے تھے۔ ہمارے اس ٹور کے میزبان پنجاب وائلڈ لائف کے اعزازی گیم وارڈن بدر منیر تھے۔ آج وہ ہمیں یہاں تفریح کےلیے نہیں بلکہ سالٹ رینج میں پنجاب اڑیال دکھانے لائے تھے۔

پنجاب اڑیال، پنجاب کی شان ہے اور پوری دنیا میں یہ صرف اسی سالٹ رینج میں ہی پایا جاتا ہے۔ اڑیال کی اس خطے میں 6 اقسام ہیں پنجابی، بخارا، بلوچی، افغانی، کیپسینی اور لداخی۔ یہ ایران سے قازقستان، پنجاب سے لداخ تک پائے جاتے ہیں مگر پنجابی اڑیال صرف جہلم و چکوال میں پایا جاتا ہے۔ 70 سے 90 سینٹی میٹر قد، قریب 38 انچ لمبے سینگ، سفید پیٹ، سینے پر سیاہ بال اور بڑی بڑی آنکھوں والا یہ جانور بلاشبہ قدرت کا حسیں شاہکار ہے۔

سالٹ رینج کے پتھریلے، بے آب و گیاہ پہاڑوں میں جہاں جہاں پھلاہی، کاہو، کیکر کی جھاڑیاں ہیں، وہیں اس کے مسکن ہیں۔ پنجاب وائلڈ لائف نے مقامی کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشن کی معاونت سے نایاب نسل کے اس ہرن کی افزائش میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج سید بدر منیر ہمیں یہ دکھانے لائے تھے کہ ان پہاڑوں میں کس طرح پنجاب اڑیال آزادانہ طریقے سے پرورش پارہے ہیں۔

پہاڑوں کے بل کھاتے رستوں پر چلتے ہوئے میری نظر اردگرد کے ماحول پر جمی تھی کہ شاید کہیں اڑیال نظر آجائے۔ کبھی کبھی یہ کوشش رنگ لے آتی اور اڑیال گروہ کی شکل میں پرپیچ راستوں، جھاڑیوں، درختوں میں شان بے نیازی سے چلتے پھرتے نظر آنے لگتے۔

ہم نے رات کلر کہار میں ایک گیسٹ ہاؤس میں گزاری اور پھر صبح سات بجے ہم پنجاب اڑیال دیکھنے نکل پڑے۔ سید بدر منیر بتا رہے تھے کہ یہ جانور صبح سویرے چرنے کےلیے باہر نکلتا ہے اور پھر جب زیادہ دھوپ نکل آتی ہے تو پھر یہ درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ کے نیچے بیٹھ کر جگالی اور آرام کرتے رہتے ہیں۔ ایک بڑی پہاڑی کے قریب ہماری گاڑیاں رک گئیں۔ یہاں سے ہم نے اب پیدل اوپر جانا تھا۔ بدر منیر اور ان کے ساتھی چونکہ شکاری تھے اور پہاڑوں میں شکار کےلیے آتے جاتے رہتے ہیں، اس لیے وہ لوگ بڑی تیزی کے ساتھ چڑھائی چڑھتے جارہے تھے لیکن میرا چونکہ پہاڑوں پر چڑھنے کا زیادہ تجربہ نہیں تھا، اس لیے جلدی سانس پھول گیا۔ راستے میں ایک دو جگہوں پر چند لمحوں کےلیے سانس لینے کو رکا اور بالآخر پہاڑ کے اوپر پہنچ گئے۔

جس جگہ ہم کھڑے تھے، ہمارے سامنے دوسری طرف کافی گہری اترائی تھی۔ تین اطراف میں پہاڑ اور درمیان میں درختوں اور جھاڑیوں پر پھیلا جنگل۔ بدر منیر اور ان کے ساتھی دوربین کی مدد سے اس جگہ کا معائنہ کررہے تھے۔ چند ہی لمحوں میں انہیں پنجاب اڑیال نظر آگیا۔ انہوں نے دوربین مجھے دی۔ دور جھاڑیوں کے قریب چار اڑیال نظر آئے۔ لمبے سینگ، خوبصورت جسم، پھرتیلا انداز۔ میں نے دوربین آنکھوں سے ہٹا کر اسی مقام پر اردگردد یکھنا شروع کیا تو دو مزید اڑیال بھی نظر آئے جو پتھریلی چٹان پر ایک جانب چل رہے تھے۔ میں نے پہاڑی علاقے میں اس طرح آزاد ماحول میں کسی ہرن کو گھومتے پھرتے پہلی بار دیکھا تھا۔ ویسے چڑیا گھر اور سفاری پارک میں تو انہیں متعدد بار دیکھ چکا تھا لیکن یہاں اس سالٹ رینج میں دیکھ کر عجیب سی مسرت اور خوشی محسوس ہورہی تھی۔ ویسے بھی اب اگر آپ موٹروے پر سفر کریں اور سالٹ رینج میں کسی پارکنگ ایریا میں رکیں تو آپ کو پہاڑوں میں کہیں نہ کہیں کوئی پنجاب اڑیال نظر آجائے گا۔

پنجاب وائلڈ لائف نے حال ہی میں یہاں پنجاب اڑیال کا سروے بھی کیا ہے۔ اس کے نتائج تو ابھی تک سامنے نہیں آئے لیکن یہ واضح ہوگیا ہے کہ اس علاقے میں پنجاب اڑیال کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کا کریڈٹ بلاشبہ پنجاب وائلڈ لائف اور اس علاقے میں کام کرنے والی سی بی اوز کو جاتا ہے۔ چکوال کا علاقہ پوٹھوہار سی بی او کے پاس ہے جس کے سربراہ بدر منیر خود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ سروے میں محکمہ وائلڈ لائف پنجاب اور زولوجیکل سروے آف پاکستان، منسٹری آف کلائمیٹ چینج اور سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ٹیموں نے حصہ لیا ہے۔ سروے ٹیموں نے 15 یوم میں 5 کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز اور 3 گیم ریزروز رکھ کنڈل، جلال پور اور چھمبی سرلہ کے زیر انتظام ایک لاکھ 7 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے کا سروے کیا۔ محکمہ وائلڈ لائف حالیہ سروے کی روشنی میں سالٹ رینج کی پانچوں کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز کو اڑیال کے تحفظ کے بارے میں نئی ہدایات جاری کرے گا۔

وائلڈ لائف حکام کے مطابق 2004 میں کیے گئے ایک سروے میں پنجاب اڑیال کی تعداد کا تخمینہ صرف ساڑھے چار سو لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد جب 2018 میں ایک سروے کیا گیا تو اس میں اڑیال کی تعداد 3700 کے قریب پہنچ چکی تھی۔ تاہم موجودہ سروے میں اڑیال کی تعداد میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حتمی تعداد سروے نتائج مرتب ہونے کے بعد معلوم ہوسکے گی۔

اس ایریا میں ہر سال پنجاب اڑیال کے شکار کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے ہنٹنگ ٹرافی کہتے ہیں۔ یکم دسمبر سے ہنٹنگ ٹرافی کا نوٹیفکیشن جاری ہوجائے گا۔ ہنٹنگ ٹرافی سے متعلق بتایا گیا کہ ایسے اڑیال جن کی طبعی عمر پوری ہوچکی ہوتی ہے ان کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔ پنجاب اڑیال کی اوسط عمر12۔13 سال ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ بوڑھا ہوجاتا ہے اور پھر خود اپنے ساتھیوں کےلیے بھی خطرہ بنا رہتا ہے۔ یہ اپنے غول میں شامل مادہ اڑیالوں کے پاس بیٹھا رہتا ہے اور بریڈنگ سیزن کے دوران جوان نر اڑیال کو ان کے پاس نہیں جانے دیتا، جس کی وجہ سے بریڈنگ نہیں ہوپاتی۔ 12-13 سال کے بعد چونکہ پنجاب اڑیال کی طبعی موت قریب ہوتی ہے، اس وجہ سے اس کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کےلیے غیرملکی شکاری بھی پاکستان آتے ہیں اور مقامی شکاریوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوتی ہے۔

بدر منیر نے بتایا کہ پنجاب اڑیال ہنٹنگ ٹرافی میں حصہ لینے والے غیرملکی شکاریوں سے 17 ہزار ڈالر فیس جبکہ مقامی شکاریوں سے 5 لاکھ روپے فیس وصول کی جائے گی۔ ٹرافی ہنٹنگ میں ایک جانور اپنی جان دے کر 100 دوسرے جانوروں کی جان بچانے میں مددگارثابت ہوتا ہے۔ ہنٹنگ ٹرافی سے حاصل ہونے والی فیس کا 80 فیصد حصہ مقامی سی بی اوز کو دیا جائے گا، جو پنجاب اڑیال کی افزائش اور ان کے تحفظ کےلیے کام کررہی ہیں۔ اس وقت پنجاب میں پانچ سی بی اوز رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے دو چکوال، دو جہلم اور ایک میانوالی میں کام کررہی ہیں۔ ان سی بی اوز کو ہزاروں ایکڑ رقبہ وائلڈ لائف کی کنزرویشن کےلیے دیا گیا ہے، جبکہ جو ایریا سی بی اوز کی حدود کے باہر ہے وہ سینچریز ہیں، جہاں وائلڈ لائف خود کام کررہی ہے۔

ہم نے تقریباً تین گھنٹے یہاں گزارے، اس دوران کئی نایاب نسل کے پرندے بھی دیکھنے کو ملے، جبکہ پہلی بار انڈین پینگولین بھی یہاں نظر آیا۔ انڈین پینگولین سے متعلق معلومات پھر کسی وقت شیئر کروں گا۔ کیونکہ اس سے متعلق پہلی بار ڈاکومنٹری بھی بنائی گئی ہے۔ ہم لوگ چونکہ یہاں صبح سویرے ہی پہنچے تھے اور بھرپور ناشتہ نہیں کیا تھا اس وجہ سے اب بھوک لگنا شروع ہوگئی تھی۔ ہم ساتھ تھرماس میں چائے لے کر گئے تھے، لیکن پہاڑوں کی چڑھائی جیسا معرکہ سرانجام دینے کے بعد چائے کا ایک کپ اور چند بسکٹ بھلا بھوک کیسے مٹاسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے بدر منیر صاحب نے واپسی کا اعلان کیا اور پھر ان ہی خم کھاتے راستوں سے گزرتے واپس کلر کہار پہنچے، جہاں بھرپور اور مزیدار کھانا ہمارا منتظر تھا، مگر اس کھانے میں ہرن کا گوشت نہیں تھا، کیونکہ ابھی اس کے شکار کا سیزن شروع نہیں ہوا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2000 سے شعبہ صحافت جبکہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے اِس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔