سفر ایک وجدانی وادی کا

ندیم اکرم جسپال  جمعرات 14 نومبر 2019
میں سوچ رہا تھا کہ وادی زیادہ حسین تھی یا کمراٹ کے لوگ۔ (تصاویر: بلاگر)

میں سوچ رہا تھا کہ وادی زیادہ حسین تھی یا کمراٹ کے لوگ۔ (تصاویر: بلاگر)

سورج اب پہاڑوں کے پیچھے چھپ رہا تھا۔ کبھی کبھی پہاڑوں کی اوٹ سے اپنا دیدار کرواتا مگر اس کی رنگت اور روشنی کی شدت بتارہی تھی کہ یہ بھی بھاگ بھاگ کر تھک چکا ہے اور اب پہاڑوں کی آغوش میں رات کی چادر اوڑھ کر سونے کی تیاری میں ہے۔ سورج کی دیکھا دیکھی ہم بھی رات گزارنے کےلیے کسی آغوش کی تلاش میں تھے۔ وادی کمراٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھل بازار میں ہمیں ایک قیام گاہ ملی۔

تھل کمراٹ سے پہلے آخری قصبہ ہے جہاں ضروریاتِ زندگی کی تقریباً تمام چیزیں مل جاتی ہیں۔ 13گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد ہماری دو ہی ضرورتیں تھیں، کھانا اور سونا۔ رات گزاری کےلیے جگہ کے انتخاب کے بعد اگلا مرحلہ کھانے کی تلاش تھا۔ یہ مرحلہ ذرا سا کٹھن ضرور تھا، کیوں کہ تھل بازار سرِشام ہی بند ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اس وقت رات کے 10 بج رہے تھے۔ کھانے کےلیے ایک ڈھابہ ملا۔ یہ موٹروے کے سروس ایریا جیسا تو نہ تھا، مگر ہم ”دیوانوں“ کےلیے کسی نعمت کدے سے کم نہ تھا۔

کھانے کے بعد اگر چائے نہ ملتی تو ان الفاظ کو کاغذ پر کیسے اتارتا؟ چائے کی ترکیب اگر آپ خود ہوٹل والوں کو بتادیں تو بہت اچھا، ورنہ جو مل جائے شکر بجا لائیں۔ چائے کے بعد کچھ دوستوں نے نیند کے بستر میں عافیت جانی اور ہم سے دیوانے تھل بازار میں پنجگور کی پل پر بادلوں اور چاند کی آنکھ مچولی کا لطف لیتے رہے۔ چاند کی بارہویں تاریخ تھی، بادل بھی خوب مستی میں تھے۔ دریائے پنجگور میں لگے درخت بھی پانی کے سُروں پر رقص میں مگن تھے۔ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ یوں لگا جیسے پانی کا شور کوئی وجدانی قوالی ہے اور درخت سارے وجد میں ہیں۔ چاند کا بادلوں سے جھگڑا زندگی کے مدوجزر سمجھا رہا تھا کہ کبھی چاندنی بادلوں پر بھاری ہے اور کبھی گہرے بادل چاند پر حاوی۔ اور ایسے میں وقت جیسے تھم سا گیا ہو۔ یہ حسن میرے روم روم میں سما رہا تھا اور میں پنجگور دریا میں لگے اونچے لمبے درختوں کی طرح مبہوت کھڑا تھا۔

رات کب نیند آئی، کب ہم بستر میں آ لیٹے، کچھ خبر نہیں۔ صبح ناشتے کےلیے جب کمراٹ جانے کےلیے جیپ ڈھونڈنے نکلے تو راز یہ کھلا کہ اگر ہم صبح 7 سے پہلے تھل سے نکلیں تو کرایہ 1500ہوگا اور جتنی دیر کی، اسی حساب سے یہ کرایہ 5000 تک بھی جاسکتا ہے۔ ہم کرایہ طے کرکے جنت نظیر وادی کمراٹ کی طرف چل نکلے۔ معزز لوگ جیپ کے اندر بیٹھے جبکہ ہم نے جیپ کی چھت کو منتخب کیا (یہ کسی طرز بھی چھچھورا پن نہیں تھا) ڈر یہ تھا کہ ہم اندر بیٹھ گئے تو اس حسینہ کی کسی ادا سے محروم نہ رہ جاٸیں۔ ہمارا انتخاب درست مگر خراب راستے کی وجہ سے پُرخطر تھا۔ خیر اس حسینہ کی اداٶں کو دیکھنے کے بعد خطرے کی طرف دھیان کس کا جاتا؟

جوں جوں گاڑی وادی کے اندر جارہی تھی مجھے اپنے کمتر تخیل پر شرمندگی سی محسوس ہورہی تھی۔ میرے تخیل کی حدود سے بھی باہر کا حسن، ایسے نظارے کہ خالق پر ایمان لانے کو جی چاہے۔ گاڑی ڈیڑھ گھنٹہ خراب بلکہ خستہ حال راستوں پر چلتی رہی۔ کبھی دریا کنارے اور کبھی جنگل میں بنے آڑے ترچھے راستوں سے ہوتے ہم کمراٹ جنگل کے مرکز میں پہنچے۔

یہاں ایک طرف آبشار اور دوسری طرف کالا چشمہ ہیں۔ طے یہ پایا کہ ہم پہلے آبشار جاٸیں گے اور پھر کالا چشمہ۔ یہاں تک موبائل فون کام کرتے ہیں، اس سے آگے بس سکون۔

جنگل کے اس مقام سے 10 منٹ کی مسافت پر کمراٹ آبشار ہے۔ یہ 10 منٹ ایسے سحر انگیز کہ آدمی اپنے آپ سے بے خبر ہونے لگے۔ آبشار سے ایک ندی کے ذریعے پانی نیچے جاکر دریائے پنجگور میں گرتا ہے اور ہم پانی کی مخالف سمت اس ندی کے ساتھ ساتھ آبشار کی طرف چل رہے تھے۔ سورج اور بادلوں کی آنکھ مچولی جاری تھی۔ آسمان کو چھوتے چیل کے درخت ان کے اوپر اٹھکیلیاں کرتے بادل اور نیچے مدھر آواز میں سرگم گاتا پانی دیوانوں کی دیوانگی بڑھا رہا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں آبشار نے جیسے نقاب اتار دیا ہو، حسن کے لشکارے اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ آبشار تھا کہ دودھ کی کوئی نہر، جو خدا نے سیدھی آسمان سے اتاری ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ نور برس رہا ہو یا کوئی بہت ملائم سی سفید چادر پہاڑ سے لٹک رہی ہو۔

ہم شہر کے باسی ہمیشہ جلدی میں ہوتے ہیں، مستقبل میں جانے کے خواہاں، مگر اس خیرہ کن حسن نے مجھے ماضی اور مستقبل سے بری کر رکھا تھا۔ حال ہی واحد زمانہ تھا جو میری آنکھوں کے سامنے تھا اور ہر خیال پر حاوی۔ شومیٔ قسمت کہ وقت میرے تابع نہیں تھا، اور مسافروں کو جانا ہی ہوتا ہے۔ ہم بھی چاہتے نہ چاہتے وہاں سے نکل پڑے۔ اگلی منزل کالا چشمہ تھی۔

آبشار سے کالے چشمے تک جانے کی دو صورتیں تھیں، کسی گاڑی کا سہارا لیا جاتا یا پھر پیدل۔ یہ تقریباً 12 کلومیٹر کا راستہ ہے۔ کمزور دل دوستوں کو بہرحال 4 کلومیٹر ہی بتایا تاکہ لمبے راستے کے سامنے ہتھیار نہ ڈال دیں۔

آبشار کے حسن کے نشے میں ایک گھنٹہ تو بہت آسانی سے گزر گیا مگر منزل ابھی بہت دور تھی۔ کچھ نازک طبعیت دوستوں کو گھر کی شدت سے یاد آنے لگی۔ ان کے سر پر آرام کا بھوت سوار تھا، اور ایسا سوار کہ وادی کا حسن بھی انہیں متاثر نہیں کر پارہا تھا۔ جابجا دائیں اور بائیں اونچے پہاڑوں سے بہتی چھوٹی چھوٹی آبشاریں بھی ان کی توجہ حاصل نہیں کرپارہی تھیں۔ بادلوں کا پہاڑوں کی اوٹ سے مکھ دکھانا، سورج کے ساتھ مستی کرنا اور پھر پہاڑوں کے سر سے پرے سرک جانا بھی ان کو مسحور نہیں کر پارہا تھا۔ بادل پہاڑوں سے ایسے سرک رہے تھے جیسے کسی دوشیزہ کی مخمل کی چادر شانوں سے گرے اور وہ اسے پھر سے اٹھائے شانوں پر رکھے۔

کالا چشمہ سے آتی ایک گاڑی والے صاحب سے پوچھا ”صاحب راستہ کتنا باقی ہے؟“ جواب ملا بس 20 منٹ۔ یہ سن کر احباب کے مرتے حوصلوں نے ذرا جنبش دکھائی اور انہیں بھی وادی کا حسن نظر آنے لگا۔

دریا ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، بل کھاتا، شور کرتا اور چٹانوں پر سر مارتا دریا، ایسا لاجواب نظارہ پیش کر رہا تھا جو نہ الفاظ میں بیان ہوسکتا ہے اور نہ وہ تخیل میں آئے۔ دریا کنارے چیل کے قد آور درخت اور ان کے اندر سے بہتی ندیاں جو دریا میں شامل ہورہی تھیں، عجب دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔

دیوانوں نے دریا کنارے جنگل میں کیمپ لگا رکھے تھے۔ باربی کیو اور طرح طرح کے کھانے پاس سے گزرنے والوں کی بھوک میں اضافہ کررہے تھے۔ ہم پیدل چلتے چلتے کبھی کبھی دریا کنارے پہنچ جاتے، کبھی دریا کی سطح سے بہت اونچے ہوجاتے۔ دریا کا حسن لاجواب تھا۔ کہیں دریا بہت شور کررہا تھا، کہیں خاموشی سے گزر رہا تھا، کہیں راستے میں آنے والی چٹانوں سے سر ٹکراتا، کہیں گہری چھوٹی ندی میں بدل جاتا اور کہیں چوڑا اور شوخ ہوکر گزر رہا تھا۔ ہر نظر میں پنجگور الگ نظارہ پیش کر رہا تھا۔ کہنے کو یہ ایک دریا ہے مگر اتنے رنگ؟ اتنے جلوے؟ ایسا رنگ؟ ایسا شاہکار؟

ہمیں پیدل چلتے دو گھنٹے سے زیادہ وقت ہوچکا تھا، کچھ دوستوں کو رہ رہ کر وہ گاڑی والا یاد آرہا تھا جس نے کہا تھا بس 20 منٹ۔ یار لوگ منزل کی تلاش میں سفر کا مزہ بھول رہے تھے۔ ایسے ہی جیسے ہم زندگی میں بڑی کامیابی، بڑے کام، انقلابات کے رسیا ہوتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے تجاہل برتتے ہیں۔ اللہ اللہ کرکے 3 گھنٹے پیدل مسافت کے بعد ہم کالا چشمہ پہنچ چکے تھے۔

کالا چشمہ پر جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا کوئی عجیب سی کشش محسوس ہورہی تھی۔ ہم نے بھی ایک کرسی اٹھائی اور دریا کنارے جا بیٹھے۔ دریا کا ٹھنڈا پانی بار بار پاٶں کو چھو کر واپس دریا میں جارہا تھا اور مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت مانوسیت سے خوش آمدید کہہ رہا ہو۔ یہاں کمراٹ جنگل کی نسبت رش کم تھا اور شوروغل بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ چند ایک چائے پکوڑے کے ڈھابے تھے۔ یہاں کی ”عصر“ ایسی پرسکون، گویا جنت کا باسی اپنے اصل مقام لوٹ گیا ہو۔

ایک پہر یہاں گزارنے کے بعد واپس کمراٹ جنگل کی راہ لی کہ کچھ دوستوں کو موبائل کے بغیر سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ مغرب کے ذرا بعد واپس جنگل میں پہنچے۔ اگلا مرحلہ رات گزاری کے بندوبست کا تھا، خوش بختی کہ دریا سے محض 10 فٹ کے فاصلے پر 2 کمرے مل گئے۔ دریا کا وہ حصہ نہ شور کرنے والا تھا، نہ بڑے پتھروں پر سر مار کر راستے بدلنے والا، بلکہ ایک پرسکون میانہ رو دریا، جیسے کسی ادھیڑ عمر شخص نے زندگی کے اصول سیکھ لیے ہوں اور اب وہ اپنی چال اور اپنے حال میں مست ہے۔ لہجے کی شوخی کی جگہ شائستگی آگئی ہو اور نوعمری کے شباب اور جنون اب رعب میں بدل گیا ہو۔

رات کے کھانے کا فیصلہ یہ طے پایا کہ مرغ پلاٶ بنوایا جائے، لہٰذا ساتھ والے ہوٹل پر جاکر آرڈر دے آئے۔ پلاٶ کی تیاری کےلیے ڈیڑھ گھنٹے (مقامی لوگ جسے ساڑھے ایک گھنٹہ کہتے ہیں) کا وقت تھا، لہٰذا ہم ذرا کمر سیدھی کرنے کمرے میں لیٹ رہے۔

یہاں کے لوگوں کی انوکھی بات یہ دیکھی کہ وہ ہماری طرح فٹ سے کاروباری نہیں بنتے، کھانے کا بل ہو یا کمرے کا کرایہ، پیسے مانگتے عجب سی جھجھک محسوس کرتے ہیں۔ 2 گھنٹے بعد پلاٶ بن کر آیا تو میں نے بٹوا سنبھالا کہ بل ادا کردوں۔ کھانا لانے والے نوجوان کو جب پیسے دینے چاہے تو وہ یہ کہہ کر چل دیا ”بعد میں دے دینا، کوئی بات تو ہے نہیں“۔ ہم کھانا کھا چکے تو دریا کنارے ڈیرے ڈال لیے۔ زندگی میں کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ من چاہتا ہے وقت کا کوئی وجود نہ ہو، آدمی زماں کی قید سے آزاد ہو۔

دریا کنارے، اس ماحول میں عجب دیوانگی نے جنم لیا، جیسے کوئی درویش کسی مزار پر بیٹھا کوئی وجدانی قوالی سن رہا ہو اور اپنے وجود سے بے خبر ہوجائے اور زماں و مکاں سے اوپر اٹھ جائے۔ رات گئے تک محفل جمی رہی، پہلے پیار کے تذکرے، چھوڑ گئے یار کے تذکرے، مولوی اور سیکولر کے انتشار کے تذکرے اور خدا جانے کیا کیا تذکرے چھڑتے ہی چلے گئے۔

صبح ہوئی تو ناشتے کے بعد ہمیں واپس تھل کےلیے نکلنا تھا۔ میں ساتھ والے ہوٹل پر رات کے پلاٶ کا بل دینے گیا۔ مالک سے بل پوچھا تو کہنے لگا ”میں رات بہت شرمندہ ہوگیا، کھانا دیر میں پہنچا ناں؟“ میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ کھانے کی تعریف کی اور دوبارہ بل پوچھا تو کہتا ہے ”بل پھر دے دو، کوئی بات تو ہے نہیں“۔ مجھے وہ گھڑی والا بھی یاد آرہا تھا جس نے گزشتہ دن میری گھڑی میں پن ڈالی اور پیسے لینے سے انکاری تھا کہ میں ان کا مہمان ہوں۔ عجیب مہمان نواز اور پرخلوص لوگ۔ 10 بجے کے قریب ہم تھل بازار میں تھے جہاں سے اپنی گاڑی لے کر واپسی کی راہ لی۔ ہماری گاڑی کتنے ہی قصبے پار کرچکی تھی، مگر میں ابھی اسی وادی میں تھا اور دعا کررہا تھا کہ خدا کرے کوہستان کو مری اور ناران کی ہوا نہ لگے۔

ہماری گاڑی باب کمراٹ سے نکل کر دیر چترال روڈ پر آچکی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ وادی زیادہ حسین تھی یا کمراٹ کے لوگ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ندیم اکرم جسپال

ندیم اکرم جسپال

بلاگر پنجاب یونیورسٹی سے انتظامی امور میں ماسٹر ڈگری حاصل کرکے ایک غیر سرکاری ادارے میں بطور ہیومن ریسورس پروفیشنل کام کررہے ہیں۔ لکھنے کا آغاز فقط شوق کی تسکین کےلیے چند سال قبل سوشل میڈیا سے کیا تھا، اور قوی امید ہے کہ یہ شوق مستقبل قریب میں پیشے کی شکل اختیار کرلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔