اردو کی جگہ ہندی

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 14 نومبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کشمیر 72 سال سے ہندوستان اور پاکستان میں بٹا ہوا ہے، اس عرصے سے کشمیر کی دفتری زبان اردو تھی لیکن پچھلے ماہ جب مودی نے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا توکشمیر میں تبدیلیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔

ہندوستان کے نقشے میں کشمیر کو ہندوستان کا ایک حصہ بتا دیا گیا۔ یوں اس کی متنازعہ حیثیت کو ختم کردیا گیا اس پر ہی بس نہیں بلکہ کشمیر کی زبان (دفتری) اردو تھی اس کو ختم کرکے کشمیر میں ہندی کو نافذ کردیا گیا۔ ظاہر ہے اس فیصلے سے کشمیری مسلمان بری طرح ڈسٹرب ہوں گے۔ یہ تو ابتدا ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

ہمارے کرہ ارض یعنی دنیا کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں جو اشرف المخلوقات ہیں انھیں جانور بناکر رکھ دیا گیا ہے اور جو ایلیمنٹ جانور سے بدتر ہے انھیں قوموں کی تقدیرکا مالک بنادیا گیا ہے۔ مودی حکومت جو فیصلے کر رہی ہے وہ دنیا میں سخت انتشار اور نفرت پیدا کر رہے ہیں۔ اگر کم ظرف مودی انسان بن کر سوچتا کہ وہ جو فیصلے کر رہا ہے وہ انسانوں کے لیے کتنے مہنگے اور نفرت و انتشار کا باعث بن رہے ہیں تو شاید وہ یہ فیصلے نہ کرتا۔

دنیا کو انسانوں نے جہنم بناکر رکھ دیا ہے۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی، بدھ غرض بے شمار ٹکڑوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ مذہبی تقسیم کے علاوہ قومیت سمیت بے شمار ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس طرح ایک دوسرے سے برسر پیکار کر دیا ہے کہ انسان انسان نہیں رہا حیوان سے بدتر بن گیا ہے اور کرہ ارض کی جنت کو جہنم میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے رائج الوقت نظاموں نے آدم کی اولاد کو تقسیم در تقسیم کا شکار کرکے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے۔

بھارت پر ایک ہزار سال تک مسلمان حکومت کرتے رہے، اس طویل دورانیے میں اس قدر خون خرابا نہیں ہوا جتنا صرف موجودہ ایک صدی کے دوران ہوا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کا انسان مہذب ہے ایسا نہیں کہ دنیا میں اچھے اور بلاتفریق مذہب و ملت انسانوں سے محبت کرنے والے موجود نہیں بلکہ ہوا یہ ہے کہ ایسے سیاسی سماجی اور اقتصادی نظام رائج کر دیے جو انسان کو حیوان تو بنا سکتے ہیں حیوان کو انسان نہیں بنا سکتے۔ ان نظاموں میں اعلیٰ قسم کے محبت و رواداری کے اعلیٰ انسانوں کو بے دست و پا بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور بد خصلت صفت انسانوں کے ہاتھوں میں ملکوں کی باگ ڈور دے دی گئی ہے۔

دنیا میں مذاہب کی ایک طویل تاریخ ہے جو ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کا شمار دنیا کے قدیم مذاہب میں ہوتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم انسان جاہل ناخواندہ اور عقل و فہم سے محروم انسان تھا۔ بے شک انسان کو زندگی گزارنے کے لیے ایک اعلیٰ پائے کی با اختیار ہستی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسان بہت سارے معاملات میں مجبور محض ہے اور یہ مجبور محض انسان اپنی ذہنی تسکین کے لیے جو جو کوششیں کرتا ہے ان میں مافوق الفطرت اجسام کا وجود بھی شامل ہے ہندو مذہب کے متعارف کرانے والوں کی جہالت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی ذہنی تسکین کے لیے جو اہتمام کیا وہ اس قدر احمقانہ اور غیر فطری ہے کہ ان پرکھوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

ایک انسان پتھر کو تراش کر بھگوان بناتا ہے اور اپنے تراشے ہوئے بھگوان کے سامنے سر ٹیکتا ہے اسے بھگوان کا نام دیتا ہے اور اسی بھگوان کا نام لے کر مخالفین سے جنگ کرتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے نفرت کرنا سکھاتا ہے ،آج ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو خلیج حائل ہے اس میں سب سے بڑا کردار اسی مذہب کا ہے جو قدیم مذہب کہلاتا ہے۔

بھارت کا وزیر اعظم اور اس کے ساتھی رہ تو رہے ہیں اکیسویں صدی میں، مگر ذہنی طور پر اب بھی ماضی بعید میں زندہ ہیں ۔ کشمیرکے عوام صدیوں سے اردو بولتے آ رہے ہیں اردو ایک بڑی اور آسان زبان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت میٹھی زبان کے علاوہ ساری دنیا میں بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے کیونکہ اردو بولنے والے دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں، اور پھر زبان تو صرف ذریعہ اظہار ہے کوئی عقیدہ نہیں ایسی غیر متنازعہ باتوں کو آج کا ترقی یافتہ انسان متنازعہ بنا دیتا ہے اور انسانوں کے ذہن میں نفرت بھر دیتا ہے۔

پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں متعصب لوگ موجود ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہاں محبت کرنے والے بھی بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ آج کرتار پور میں بابا گرو نانک کے جنم دن پر جو ہزاروں سکھ بھارت سے آئے ہیں ان کے ساتھ ہمارے پاکستانی بھائیوں کا سلوک بالکل بھائیوں جیسا ہے۔ اگر قاتل اور متعصب مودی کشمیر کی دفتری زبان اردو ہی رکھتا تو ناراض کشمیریوں کے دلوں میں نفرتوں کا اضافہ نہ ہوتا بلکہ رواداری کے جذبات پیدا ہوتے۔ کاش ہندوستان کے متعصب مودی کو اس حقیقت کا ادراک ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔