چہرے نہیں! نظام بدلو

سعید پرویز  جمعرات 14 نومبر 2019
سانحہ ساہیوال کا فیصلہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔

سانحہ ساہیوال کا فیصلہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔

سیاست دانوں کے نزدیک نظام میں جو خامیاں ہیں، انھیں بدلنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر سارے سیاستدانوں کو ایک ہو جانا چاہیے، یہی وقت کا تقاضا ہے اور یہی پکار ہے۔ سیاستدانوں کو چہرے بدلنے کی روش اب تو چھوڑ دینی چاہیے۔ چہرے بدلنے سے حالات نہیں بدلیں گے بلکہ ’’رات کے بعد اک رات نئی‘ آ جائے گی‘‘ اور اس گھر یعنی پاکستان میں کبھی سحر نہیں ہو گی۔ مختلف چہرے جو حکمران بن بن پھر آتے رہے، ان سب کے ’’عوام دشمن، غریب دشمن‘‘ کارناموں کے نشانات وطن کے چپے چپے پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

کہاں معصوم و بے قصور قتل کیے گئے، کہاں عصمتیں لوٹی گئیں ، کہاں آئین شکن جرگے ہوئے، کہاں اناج بوتے ہاتھوں سے اناج چھین کر داشتائیں اور رکھیلوں کو پالا پوسا گیا، غریبوں کو بنا علاج مرنے دیا گیا، اپنے ڈھور ڈنگر باندھنے اور ڈیرے قائم کرنے کے لیے اسکولوں ،کالجوں کے نام سے عمارتیں بنائی گئیں اور غریبوں کے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھا گیا ، یہی تو چند غیر انسانی، غیر جمہوری حرکتیں ہیں، جنھیں ماضی کے حکمران چہروں نے جاری و ساری رکھا اور اپنے خزانے ’’اندر اور باہر‘‘ خوب بھرے حتیٰ کہ ملک کھو کھلا ہو کر رہ گیا۔

انھی چہروں کا لیا دیا ہے کہ آج ہمارے حال پہ دشمن ہنستے ہیں، ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، مگر افسوس کہ کھوکھلے ملک کے سیاستدان آج بھی ’’چہروں‘‘ پر ہی قربان ہوئے جا رہے ہیں، انھی کی مالا جپ رہے ہیں، کوئی نظام بدلنے کی بات نہیں کر رہا۔ ان کی سوچ کا محور یہی ’’چہرے‘‘ ہیں، یہ بیمار ہیں، انھیں اسپتالوں میں داخل کراؤ، اعلیٰ ڈاکٹروں کو دکھاؤ، اعلیٰ دوائیاں فراہم کرو، اور اگر انھیں کچھ ہو گیا تو حشر برپا کر دیں گے، کاش یہ چہروں کے پجاری، غریبوں کے بلا دوا دارو مرنے پر بھی حشر نشر برپا کر دیتے۔

پچھلے دنوں ظلم کی کیا کیا داستانیں رقم ہوئیں، مگر چہروں کے پجاری چپ سادھے رہے، کوئی کھسکا تک نہیں، اور غریب مرتے رہے۔ یہ کیسا نظام ہے جو ہمارے ملک میں چل رہا ہے، اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب تو ظلم کی انتہا ہو چکی ہے، اب تو بس کر دو بس۔

کیسے کیسے سیاسی کارکن تھے ، ان میں سے اب کچھ سیاسی لیڈر بن گئے ہیں۔ ہم جیسے انھی سیاسی کارکنوں کے ساتھ چلتے رہے، یہ ہمارے پیشوا تھے، مگر آج جب ’’ انھی‘‘ کو چہروں کی پرستش کرتے دیکھتا ہوں تو خود پر ہنسی آتی ہے کہ ہم کیا سمجھتے رہے اور یہ کیا نکلے۔ سب اپنے اپنے قائد ، رہبر کے گرد ہی طواف میں مصروف ہیں اور کروڑوں مظلوموں پر نظر کرنے کی ان کے پاس فرصت نہیں۔ یہ اپنی بات کو آگے بڑھانے کے لیے کیسی کیسی توجیحات پیش کرتے ہیں، کیسی کیسی دور کی کوڑی لاتے ہیں، مگر مظلوم کی سادہ سی داستان کے لیے ان کو فرصت نہیں ، یہ اس عطار کے لونڈے سے دوا مانگ رہے ہیں کہ جس کے ہاتھوں بیماریاں پھیلی ہیں اور اندھیرے گھر گھر پھیلے ہیں۔

ایک اور بات بھی مجھے کرنا ہے ۔ کہتے ہیں ’’خون بولتا ہے‘‘ یہ بات نسل کے حوالے سے کہی جاتی ہے مگر یہ بات سراسر غلط ثابت ہوئی ہے اور صدیوں سے غلط ثابت ہو رہی ہے۔ دیکھ لیں! یہ جو 70 سال سے مختلف چہرے حکمران رہے ہیں ان میں بعض کے باپ تو بڑے نیک نام گزرے ہیں مگر ان نیک نام باپوں کی اولادوں کو دیکھ لیں۔

سب کا اپنا اپنا کردار ہے۔ کیا باپ کا کیا بیٹے کا۔ تو بات ہو رہی تھی کہ نظام بدلو۔ مگر لگتا یہی ہے کہ ہمارے سیاستدان، چہروں کی تبدیلی میں بدلتے نظام کے متلاشی ہیں۔ دو تین روز ہوئے ایک نوجوان نے ایک حدیث سنائی جو حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے حضورؐ نے فرمایا ’’کچھ لوگ دنیاوی مفادات کے لیے مذہب کو استعمال کریں گے اور یہ بہت برے لوگ ہوں گے‘‘ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہمارا نوجوان مطالعے کا شوق و ذوق رکھتا ہے اور غور و فکر بھی کرتا ہے، اس لیے مایوسی کی کوئی بات نہیں اور مایوس تو ہونا بھی نہیں چاہیے۔

خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان آنسو، آہیں اور خوف ہر جگہ موجود ہیں ، انصاف دور دور تک نہیں ہے، ابھی سدھارکے کام کرنے کو بہت ہیں اور سدھار کے کام نوجوان ہی کریں گے۔ نئے زاویے، نئے رجحانات جنم لے رہے ہیں، آج کا نوجوان اپنا مستقبل خود بنائے گا، خود تلاش کرے گا۔ چہروں کے پجاری رستہ روکیں گے، رکاوٹیں کھڑی کریں گے، مگر آگے بڑھنے کا رستہ نکلتا ہی جائے گا۔ مانا کہ راستہ ہے کٹھن مگر ’’مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پرکہ آساں ہو گئیں‘‘ کے مصداق منزل مل ہی جائے گی۔

ابھی تو قدم قدم پر درندے کھڑے ہیں۔ کرپشن ، منشیات ، ملاوٹ ، جعلی اسپتالوں کا جال ، ابھی بہت کچھ ٹھیک کرنے کو ہے۔ ابھی شہر شہر گندگی کے ڈھیر ہیں، صفائی نصف ایمان ہے، اور ہمارا نصف ایمان گندگی کی صورت شہر شہر رسوا ہو رہا ہے۔ یہ سلافین کی تھیلیاں ختم ہو جائیں تو 90 فیصد گندگی ختم ہو سکتی ہے۔ حکومت ہی نہیں عوام کو بھی سوچنا ہو گا۔

ایک انقلاب کی ضرورت ہے اندھیرا بہت گہرا ہے روشنیوں کی بہت ضرورت ہے، اتنی شدید روشنیاں درکار ہیں، جن کا اظہار درویش شاعر ساغرؔ صدیقی نے کیا تھا:

چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں

انھیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے

ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے

صبح کے ماتھے کی کالک دھونے کے لیے بڑے جتن کرنے ہوں گے۔ اس لیے ہر انسان دوست کو نظام بدلنے میں اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا۔ 57 سال پہلے حبیب جالبؔ نے 1962ء میں کہا تھا:

اٹھ کے درد مندوں کے صبح و شام بدلو بھی

جس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدلو بھی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔