بارہویں کھلاڑی سے کپتان تک

اشفاق اللہ جان ڈاگئی  جمعرات 14 نومبر 2019

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے موجودہ حکومت کے خلاف آزادی مارچ کے نام سے احتجاجی تحریک شروع کر دی ہے۔ مولانا فضل الرحمان جن کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء مسلسل تضحیک آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کی سیاست کوختم کرنے اور ان کو پاکستانی سیاست کا بارہواں کھلاڑی بنانے کے دعوے کرتے رہتے تھے آج اسی کھلاڑی کے ہاتھوں اپنے اقتدار کے خاتمے سے بچنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ یہ آزادی مارچ یوں تو پوری اپوزیشن کا مارچ ہے۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس مارچ میں اپوزیشن جماعتوں کی حمایت 10% بھی نہیں ہے۔ 90% سے زائد کارکنان مولانا فضل الرحمن کے اپنے ہیں۔ اس مارچ کے لیے مولانا نے الیکشن کے فوراً بعد ہی ہوم ورک شروع کر دیا تھا۔ ملک کے پندرہ بڑے بڑے شہروں میں ملین مارچ  کے نام سے بلاشبہ بہت بڑے بڑے احتجاج کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور نااہلی سمیت 2018کے انتخابات میں دھاندلی اور سلیکشن کے حوالے سے عوام میں آگاہی پھیلائی گئی اور عوام سے وعدہ لیا گیا کہ اگر اسلام آباد جانا ہوا تو کیا وہ جائیں گے۔

مولانا فضل الرحمن نے جب اسلام آباد کی طرف مارچ کا ارادہ ظاہر کیا تو حکمرانوں نے اسے مذاق قرار دیتے ہوئے دیوانے کی بڑ قرار دیا۔ کسی نے کہا کہ وزیراعظم کو مقتدر اداروں کی حمایت حاصل ہے اس لیے مولانا اسلام آباد جانے کی غلطی نہیں کر سکتے۔ مولانا نے حکمرانوں کو 2 ہفتے میں استعفیٰ دینے کا الٹی میٹم دیا اور اعلان کیا کہ اگر استعفیٰ نہیں دیا تو اکتوبر میں وہ اسلام آباد آئیں گے۔

حکمرانوں کی اپنی پالیسیوں اور اعمال کی وجہ سے ملک کے طول و عرض سے احتجاجی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے کشمیر کی صورتحال نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وہ نریندر مودی جس کے الیکشن جیتنے کی خواہش کی اور اس کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار ہمارے وزیراعظم برملا کرتے تھے۔ اس نے اقتدار میں آتے ہی کشمیر کی جداگانہ حیثیت کو ختم کر کے اسے باقاعدہ طور پر انڈین ملکیت قرار دیا اور مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا جو کہ تین مہینے سے جاری ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کو عملاً قید کر دیا گیا ہے۔

اس ساری صورتحال میں ہماری ناکام خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر قرارداد پیش کرنے کے لیے 16 ممالک کی حمایت بھی حاصل نہ کر سکے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے تقریر بہت اچھی کر لی تھی۔ لیکن کیا تقریر اچھی کرنے سے کشمیریوں کی تکالیف میں کوئی کمی ہوگی، یقیناً نہیں۔ پاکستان کے عوام نے شدت سے محسوس کر لیا کہ موجودہ حکمران مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی عملی اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں۔ بلکہ سفارتی محاذ پر بھی کشمیریوں کے لیے حمایت کے حصول میں ناکام ہو چکے ہیں۔

ملک بھر کے ڈاکٹروں نے محکمہ صحت میں عوام دشمن اصلاحات کے خلاف احتجاج کا اعلان کر دیا۔ تاجروں نے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ اسی طرح اساتذہ ہڑتال پر ہیں پیرا میڈیکس بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ آئے دن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ عوام کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔ لوگوں کو دو وقت کی روٹی نہیں مل رہی ہے۔ آٹے کی بوری 1000 روپے سے بڑھ چکی ہے۔ دال سبزی خریدنے کی سکت ختم ہو گئی ہے۔

ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں آئے دن ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ ان تمام عوامل نے پاکستان کے عام شہری کو حکومت سے متنفر کر دیا ہے۔ ایسے میں ان کو ایک لیڈر کی ضرورت تھی۔ اپوزیشن کے تمام رہنما اور قائدین اپنے آپ کو جھوٹے سچے مقدمات سے بچانے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ اور عوام کی کسی کو فکر نہیں تھی۔ ملک میں قیادت  کا ایک خلا پیدا ہو چکا تھا ۔

ایسے میں جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ملک کے اسلامی نظریاتی تشخص کی حفاظت، آئین کے اسلامی دفعات کے تحفظ اور ملک میں حقیقی عوامی جمہوری اقدار کے فروغ اور مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف آواز بلند کی تو عوام نے ان کی اس آواز پر لبیک کہا اور حکومت مخالف تحریک کو بھرپور پذیرائی بخشی۔ مولانا فضل الرحمن جو کہ روز اول سے موجودہ حکمرانوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔

وزیراعظم اور اُن کے حواریوں کی جانب سے مسلسل غیر جمہوری لہجہ اپنانے اور ملک اور عوام کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے اکتوبر میں اسلام آباد آنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ جسے پورے ملک میں سراہا گیا۔ ایسے میں مولانا نے اپوزیشن جماعتوں کو ایک ایسی پوزیشن پر لا کھڑا کیا جہاں وہ مولانا سے پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، عوام کے جذبات کے ساتھ ساتھ وزیراعظم اور ان کے وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات نے مولانا کو 27 اکتوبر کو اسلام آباد آنے کے اعلان پر مجبور کیا۔

حکمرانوں نے اسلام آباد جانے والے تمام راستوں کو کنٹینر سے بند کیا۔ لیکن مولانا اپنے ارادہ کے پختہ نکلے اور 27 اکتوبر کو ملک بھر سے قافلے  یوم سیاہ کشمیر منانے کے بعد اسلام آباد کی طرف چل پڑے۔ مولانا فضل الرحمن خود سہراب گوٹھ کراچی سے ایک بہت بڑے جلوس کی شکل میں اسلام آباد روانہ ہوئے۔ سندھ حکومت نے مولانا کے مارچ کو بھرپور سیکیورٹی دی۔ جگہ جگہ استقبال کیے گئے۔ مولانا فضل الرحمن کا قافلہ ہر شہر سے بڑھتا گیا اور مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا۔ حکومت نے طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں۔ میڈیا پر پابندی لگا دی گئی۔

مارچ کے شرکاء کو گاڑیاں نہ دینے کے احکامات جاری ہوئے۔ جس پر جمعیت علماء اسلام کے کارکنان سراپا احتجاج بن گئے۔الغرض 27 اکتوبر کو کراچی سے روانہ ہونے والا تاریخی قافلہ 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوا۔ بلا شبہ لاکھوں کی تعداد میں زندگی کے ہر مکتبہ فکر کے عوام کا جم غفیر جب ایک ساتھ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا تو ہر شخص حیران تھا کیونکہ اسلام آباد میں بیک وقت کبھی اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا تھا۔ اس تمام صورتحال میں میڈیا کا کردار انتہائی مایوس کن رہا۔

………

اصل بات۔۔۔

لوگوں نے کہا مولانا عمران خان کے خلاف ہے پھر دوسرے ہی لمحے تاثر قائم ہوا مولانا اداروں کے خلاف ہیں لیکن اصل بات کی طرف لوگوں کا ذہن ہی نہیں گیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے مغربی ایجنڈے کو چالیس سال پیچھے دھکیل دیا۔ مغربی ایجنڈا تھا ہی یہی کہ دیندار طبقے کی ایسی تصویر پیش کی جائے کہ لوگ نفرت کرنے لگیں، یاد رہے کہ یہ مغربی ایجنڈے کا پہلا مرحلہ ہے کیونکہ علماء اور دیندار طبقے کی ایک تاریخ رہی ہے جسے بجا طور پر حْریت کی تاریخ کہا جا سکتا ہے۔

مولانا نے پندرہ ملین مارچ کیے پھر 27 اکتوبر کو کراچی سے روانہ ہوئے اور مارچ اسلام آباد پہنچا یہاں آ کے لوگ بیٹھ گئے۔ دنیا نے نظارہ کیا کہ یہ دیندار لوگ کتنے منظم، عام آدمی کے لیے درد دل رکھنے والے پرامن اور انسانیت سے بھرپور ہیں۔ اب لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ جو تصویر ہمارے ذہنوں میں بنائی گئی تھی وہ غلط ہے اور یہی یہودی ایجنڈے کی شکست ہے۔ یہودیت نے اتنے عرصے میں جو محنت اسی ایک کام کے لیے کی تھی مولانا نے اس پر پانی پھیر دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔