الوداع بابری مسجد

خرم علی راؤ  جمعرات 14 نومبر 2019
بابری مسجد سے متعلقہ انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بابری مسجد سے متعلقہ انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بابری مسجد سے متعلقہ انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل بھی غیر متوقع نہیں ہے اور بالکل اسی طرح دنیا بھر میں عدالتی فیصلوں پر رائے زنی کرنا کسی طرح سے بھی عدالتی قواعد کی خلاف ورزی نہیں سمجھا جاتا اور ساری دنیا میں عدالتی فیصلوں پر تجزیئے اور تبصرے کیے جاتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے کہا یہ فیصلہ قطعاً غیر متوقع نہیں ہے اور اس پر ہندوستان اور ساری دنیا کے مسلمانوں کا ردعمل بھی کم و بیش الا ماشااللہ متوقع ہی ہے اور ہمارے یہاں پاکستان کے سیاست زدہ مولوی حضرات بھی بڑی صفائی سے اس فیصلے سے کنی کترا گئے ہیں۔ ظاہر ہے وہ بیچارے بھی کیا کریں کہ وہ تو اپنے تئیں بزعم خود ایک ناجائز حکومت کے خلاف تحریک اور احتجاج کی عظیم الشان جدوجہد میں مشغول ہیں اور ان میں بہت سے اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے دیرینہ کینے اور حسد کا حساب کتاب بھی برابر کرتے نظر آرہے ہیں۔ جیسا کہ مولانا طارق جمیل جیسے نستعلیق اور پراثر عالمِ دین اور مبلغ کے خلاف کچھ سیاسی مولویوں کی دریدہ دہنی وغیرہ۔

بہرحال آمدم برسر مطلب کہ اب تو نہ ماننے والوں کو بھی قائداعظم کی بصیرت کا اندازہ ہوجانا چاہیے اور اس دس کروڑ کی تاب و تواں رکھنے والے عبقری لیڈر کی روز و شب کی اپنے مخلص رفقا کے ساتھ محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کردہ اس نعمتِ عظمیٰ یعنی پاکستان کی قدر کرلینی ہی چاہیے کہ خدانخواستہ اگر اس وقت کے مسلم لیگی زعما انگریزوں اور کانگریس کی شاطرانہ چالوں کو سمجھنے میں ذرا سا بھی چوک جاتے اور جمعیت علمائے ہند کے کانگریس نواز علما کی طرح جمعیت علمائے اسلام کے دو وقومی نظریے کے حامی علما بھی ہندوؤں کی شاطرانہ اور خوشامدانہ چاپلوسی کے جال میں پھنس جاتے تو پھر آج کے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں پر جو کڑا اور پیغمبری وقت آتا اور پاکستانی مسلمان بھی آج کے ہندوستانی مسلمانوں کی طرح اپنے دینی شعائر کے تحفظ، مساجد کی بے حرمتی اور اپنی تہذیب کی حفاظت کےلیے جس طرح پریشان ہوتے، وہ کسی سے اب ڈھکا چھپا نہیں رہنا چاہیے۔

تو اے بابری مسجد! ہم تجھ سے شرمندہ ہیں۔ ہم اب ایک امت نہیں رہے ہیں، اس لیے ساری دنیا کے پچاس سے زائد مسلمان ملکوں سے کوئی ایک آدھ ہی مذمتی بیان اس پر دے پائے ہیں۔ اگر ہم ایک امت ہوتے اور اتحاد بین المسلمین اگر عملی شکل میں قائم و دائم ہوتا تو پھر تو یہ معاملہ عدالت تک جا ہی نہیں پاتا۔ پھر تو نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر تیرے انہدام پر ہی ایک ہنگامہ مچ جانا تھا۔ اگر سارے مسلمان ممالک اسی وقت جب مشتعل دھارمک ہندو سیوکوں نے دیدہ دلیری سے تجھے منہدم کیا تھا ایک زبان ہوکر صرف ہندوستان کی حکومت پر ذرا سا ہی دباؤ ڈالتے تو تاریخی طور پرثابت شدہ شاطر اور بزدل ہندو بنیا فوراً ہتھیار ڈال دیتا اور تجھے فوراً سے پیشتر دوبارہ تعمیر کردیا جاتا۔ مگر اب تو خیر یہ ایک خیال است و محال است و جنوں کا مصداق بن کر رہ گیا ہے۔

ویسے ابھی بھی وقت ہے کہ تمام مسلم ممالک اگر مشترکہ دباؤ ڈالیں، جو کہ موجودہ معروضی حالات میں بظاہر ناممکن نظر آتا ہے لیکن بالفرض محال اگر ایسا ناممکن کسی طرح ممکن ہوجائے تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہی باون انچ کی چھاتی والا خود کو مہان سمجھنے والا نریندر مودی خود اینٹیں ڈھو کر تیری تعمیر نو میں اجیت ڈوڈل اور امیت شاہ کے ہمراہ جٹا ہوا نظر آئے گا۔

تو اے بابری مسجد! ہم عام سے مسلمان اس کے سوا اور کر ہی کیا سکتے ہیں کہ جس کا گھر ہے اس سے اپنے اپنے طرز اور طور پر دعائیں کریں کہ ایک دفعہ وہ پھر اسی طرح اپنے گھر کی توہین پر ابابیلوں کا وہی جلوہ دکھا دے۔ تو وہ مجھے یقین ہے کہ سارے عالم اسلام میں بے شمار لوگ دعائیں کررہے ہوں گے۔ تم ہماری مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں بس معاف کردینا۔

بابری مسجد تو ایک معروف اور نمایاں واقعہ اور معاملہ ہونے کی وجہ سے خبروں میں رہا تھا اور اب بھی ہے، لیکن اگر ذرا سی تحقیق کی جائے تو پتہ چلے گا کہ پچھلے 72 سال میں سیکولر اور بظاہر شائننگ انڈیا میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے ساتھ کیسا بہیمانہ سلوک کیا گیا ہے بلکہ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہی کیوں، گردواروں اور گرجا گھروں کے ساتھ بھی کیسے ظالمانہ اقدامات کیے گئے ہیں اور کس کس طرح اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پہلے ایسے کام اور ایسے واقعات ذرا کم کم ہوا کرتے تھے لیکن جب سے آر ایس ایس کی فاشسٹ حکومت ہندوتوا کا نظریہ نافذ کرنے کی دھن میں برسر اقتدار آئی ہے، ایسے واقعات اب معمول بن کر دنیا کو بظاہر سیکولر انڈیا کا اصل چہرہ دکھا رہے ہیں۔

عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں پر عموماً اور مسلمانوں پر خصوصاً ظلم و جبر کے کڑے دستور نافذ کیے جانے میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، جس کی سب سے نمایاں مثال کشمیر کا معاملہ ہے۔ جہاں لاکھوں لوگ سو سے زیادہ دنوں سے محصور تڑپ رہے ہیں اور کیونکہ وہ مسلمان ہیں اس لیے دنیا کو، اس مہذب کہلانے والی دنیا کو، اس انسانی حقوق کا گلا پھاڑ پھاڑ کر پرچار کرنے والی دنیا کو ان لوگوں کی، ان مجبور و مقہور اور محصور مسلمانوں کی کوئی خاص پرواہ بھی اپنی اپنی بہت سی مصلحتوں کے تحت نہیں ہے اور بس نمائشی بیانات پر اکتفا کرنے کو کافی سمجھا گیا ہے۔

تو آج بھی دو قومی نظریے کے خلاف دبے اور کھلے انداز میں بات کرنے والے اور مولانا آزاد (جن کی علمی اور ادبی حیثیت کے لحاظ سے ان کی جوتیوں کی خاک میرے سر پر، لیکن ان کی سیاسی آرا ان کے دیگر ہمنواؤں کی طرح معذرت کے ساتھ بے سر و پا اور معمہ ہی تھیں) کے فرسودہ اور دور ازکار دلائل کو پیش کرنے والے خود ہی دیکھ لیں کہ وقت اس دو قومی نظریے کو صحیح ثابت کرتا چلا جارہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔