پانچ روپے کلو والی مٹر اور سفید پوشوں کی عزت سے مذاق

محمد عارف میمن  جمعـء 15 نومبر 2019
وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان نے مٹر 5 روپے کلو کردیے۔ (فوٹو: فائل)

وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان نے مٹر 5 روپے کلو کردیے۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ دنوں ایک اسٹوری کور کرنے کے سلسلے میں ڈیفنس جانا ہوا۔ واپسی پر ہائپر شاپنگ مال سے گزرتے ہوئے ایک اسٹور کی بات ذہن میں آگئی، جہاں سنا تھا راشن سستا مل رہا ہے۔ یہ سوچ کر ایک بلاگ کے سلسلے میں اس اسٹور کی طرف چل دیا۔ اسٹور کے باہر زیادہ رش نہیں تھا، دو چار لوگ ہی موجود تھے جو باری باری گیٹ پر موجود چوکیدار سے معلومات حاصل کررہے تھے۔

’’آپ مجھے بتاسکتے ہیں کہ یہ فارم کب ملے گا؟‘‘ ایک بوڑھے شخص کی کمزور سی آواز سن کر میں کچھ لمحے کےلیے پیچھے ہی رک گیا۔ بابا کے ساتھ ان کی جواں سالہ بیٹی نقاب والا برقعہ پہنے اپنے بابا کا بازو تھامے کھڑی ہوئی تھی۔ اس کی نظر جب مجھ پر پڑی تو اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ اس لڑکی کو شاید اپنی بے بسی پر رونا آرہا تھا۔ شاید یہ ہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے کمزور سے بابا کا بازو تھام رکھا تھا کہ کہیں وہ پھوٹ پھوٹ کر رو نہ دے۔

یہ سب چند لمحوں میں ہوا تھا، جسے میں نے نوٹ کرلیا اور فوراً چوکیدار سے انچارج کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ملیں گے تاکہ یہاں سے چلا جاؤں اور یہ لوگ اپنی بات چیت جاری رکھ سکیں۔ لیکن بابا کی بے بسی انتہا کو چھو رہی تھی۔ وہ بس ایک ہی سوال کیے جارہا تھا ’’بیٹا یہ فارم کہاں سے ملے گا، میں بہت دور سے آیا ہوں، اور کیا راشن مجھے ابھی مل سکتا ہے؟ تھوڑی مہربانی کردو مجھ پر، آپ کا بہت بڑا احسان ہوگا۔‘‘ چوکیدار نے آگے سے جواب دیا کہ بابا جی فارم آپ کو پیر کو ہی ملے گا، آپ وہ بھر کر دیں گے تو آپ کے پاس کال آئے گی کہ آکر راشن لے جاؤ۔ ایسے راشن نہیں دیتے۔ چوکیداربھی اب بیزارہورہا تھا۔ معلوم نہیں کتنی دیر سے وہ یہاں موجود تھے۔ کیوں کہ جب میں یہاں پہنچا تو یہ باپ بیٹی ہی چوکیدار سے بات کررہے تھے۔ باقی لوگ انتظار میں کھڑے تھے۔

چوکیدار کی آواز اونچی تھی اور بابا کا لہجہ انتہائی دھیمہ۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ اپنی سفید پوشی بھی بچانا چاہ رہا تھا، جو اس وقت تار تار ہورہی تھی۔ اور اس کی بیٹی اپنے بابا کا بازو تھامے انتہائی غم زدہ آواز میں کہہ رہی تھی۔ ’’بابا چلو ناں یہاں سے، چلو ناں بابا‘‘۔ یہ آواز بھی کافی دھیمی تھی، جسے چوکیدار شاید ہی سن سکا ہو، مگر چوں کہ میں قریب ہی کھڑا تھا جسے اس لڑکی نے محسوس کیا اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بابا کی عزت نفس پر کوئی داغ نہیں لگانا چاہ رہی تھی، اس لیے ’چلو ناں بابا پلیز‘ کے الفاظ دہرائے جارہی تھی۔

معلوم نہیں کتنی دور سے اور کتنی امید لیے وہ یہاں راشن لینے آئے تھے، لیکن بے بس باپ اس طرح خالی ہاتھ جانا نہیں چاہ رہا تھا، اور بیٹی بابا کی عزت نفس پر کوئی آنچ نہیں آنے دینا چاہ رہی تھی۔ اتنی التجائیں بے کار ثابت ہوئیں اور ان بے بس باپ بیٹی کو مایوس لوٹنا پڑا۔

بے بس باپ کی التجا اور بیٹی کا باپ کی عزت نفس کا خیال، اور چلو ناں بابا کے وہ آخری الفاظ جسے سن کر میری ٹانگوں سے جان نکل چکی تھی۔ کئی بے بس انسانوں کو دیکھ چکا ہوں، کئی مجبور خاندانوں کو آئے روز کسی نہ کسی در پر عزت تار تار کرواتے دیکھتا رہتا ہوں، لیکن اس بے بس لڑکی کی آواز میں بہت درد تھا، جسے چوکیدار نے تو محسوس نہیں کیا، لیکن اس آواز نے جہاں اس باپ کا کلیجہ چھلنی کردیا ہوگا، وہیں ان الفاظ نے میری دنیا بھی بدل کر رکھ دی تھی۔

’چلو ناں بابا، ابھی یہ کچھ نہیں دیں گے۔ آپ چلو پلیز۔ چلو ناں بابا‘۔ یہ آواز میرے کانوں میں گونجتی رہی اور میں سیڑھیاں چڑھ کر اسٹور منیجر سے ملنے چلا گیا۔ اسٹور منیجر سے ملنے والی معلومات کے مطابق اسٹور میں صرف فارم بھرنے والے لوگوں کو کال کرکے بلایا جاتا ہے۔ 350 روپے کے عوض ایک ہزار روپے کا راشن دیتے ہیں۔ منیجر کے مطابق لوگوں کی بھیڑ اتنی ہوتی ہے کہ ہم کنٹرول نہیں کرسکتے۔ ہر دوسرا شخص محتاج اور زکوٰۃ کا حقدار ہے۔ بے شک اسٹور 630 روپے کی مدد کررہا ہے۔ ایک نیک کام میں لگا ہوا ہے اور زکوٰۃ سے غریبوں کی مدد کررہا ہے۔ لیکن غربت اور بے بسی کا عالم اس سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔

سفیدپوشی کا بھرم تو پہلے بھی رکھنا مشکل تھا، مگر اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سفید پوشی کی چادر تار تار ہوکر بہن، بیٹیوں اور ماؤں کے سر سے اتر چکی ہے۔ سفید پوشی کی چادر اب بے بسی کا لبادہ بن کر باپ اور بھائیوں کے گرد تن چکا ہے۔ غریب کی اس چادر میں بھی اتنے چھید لگ چکے ہیں کہ اسے دوبارہ اپنی اصل حالات میں لانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔

کراچی میں گزشتہ دنوں مسجد میں نمازیوں کو لوٹنے کی ویڈیو دیکھ کر پہلے بہت غصہ آیا کہ یہ لوگ جہنمی ہوچکے ہیں جو اللہ کے گھر میں بھی ایسا کام کررہے ہیں۔ لیکن آج جب ان بے بس باپ اور بیٹی کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ واقعی حالات اب نااہل حکمرانوں کے کنٹرول سے باہر جاچکے ہیں۔ جس گھر میں غربت نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہوں، جہاں دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو، بے روزگاری کی وجہ سے ماحول اذیت بن چکا ہو، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہو، ایسے میں بچوں کی بھوک بھوک کی فریادیں کسی بھی اچھے بھلے انسان کو کسی بھی جرم سے نہیں روک سکتیں۔

ہمارے حکمرانوں کو روز نت نئی کہانیاں بنانا اور میڈیا پر آکر عوام کا مذاق اڑانے سے فرصت نہیں۔ پاکستان میں کوئی ایسا اخبار نہیں جس کی مین سرخی حکمران جماعت کے نام ہو اور ایسا کوئی نیوز چینل نہیں جس میں صبح سے رات تک حکمرانوں کی چونچلے بازیوں کے قصے نہ ہوں۔ میڈیا اور حکمرانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی ڈوریں کھینچتے رہتے ہیں۔ صبح سے شام تک میڈیا پر ایک سیاسی جنگ کا ماحول نظر آتا ہے۔ ان ہی کے قصے کہانیاں ہر چینل کی زینت بن چکے ہیں۔ نہ حکمرانوں کو عوام کے مسائل سے کوئی غرض ہے اور نہ میڈیا کو عوام کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرنے کی فرصت۔

دھرنے، جلسے، جلوس، احتجاج، یہ سب عوام کو بے وقوف بنانے اور کرسی کے چکر میں کیے جارہے ہیں۔ نہ عوام کا خیال پہلے کسی کو تھا اور نہ اب کسی کو ہے۔ میری نظر میں آج تک کوئی احتجاج مہنگائی کے خلاف نہیں کیا گیا۔ کوئی دھرنا مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف نہیں دیا گیا۔ جس نے بھی احتجاج کیے اور دھرنے دیے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کےلیے دیے۔

وزیر خزانہ کہتے ہیں ملک میں مہنگائی ہوتی تو ٹماٹر 17 روپے کلو نہ ملتا۔ اگلے روز عوام کا مذاق اڑانے میں پیش پیش وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان جس نے مٹر5 روپے کلو کردیے۔ انہیں تو یہ تک معلوم نہیں کہ ایک عام آدمی آٹا کتنے روپے کلو خرید رہا ہے۔ گھی، تیل، چینی، دالیں کتنے روپے کلو بک رہے ہیں۔ ان شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کو یہ معلوم ہے کہ نوازشریف بیمار ہے، فضل الرحمن دھرنا چھوڑ کر احتجاج پر اتر آئے ہیں، کرتارپور کتنے بھارتی آئے۔ ان باتوں سے عوام کو کبھی غرض نہیں رہی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کبھی حکمرانوں کو بھی عوامی مسائل سے غرض نہیں رہی۔

آج مہنگائی جس انتہا کو چھو رہی ہے اور بے روزگاری کا سیلاب جس تیزی سے طوفان کی شکل اختیار کررہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ عوام کے سینوں میں بننے والا لاوا بہت جلد آتش فشاں کی صورت میں نظر آئے گا، جو ان نااہل حکمرانوں کو تہس نہس کردے گا۔ جس جھوٹی شان وشوکت سے یہ لوگ جی رہے ہیں، وہ وقت اب زیادہ دور نہیں رہا، جب ان کے محلات اور کوٹھیاں ان کے قبرستان بنیں گے۔

یہ ایک چھوٹا سا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے، لیکن ایسے لاکھوں واقعات روزانہ کہیں نہ کہیں رونما ہوتے رہتے ہیں، جہاں بے بسی بھی اپنی بے بسی پر رو دیتی ہے۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ امید کرتا ہوں جلد یہ لاٹھی ان لوگوں پر پڑنے والی ہے جو خلق خدا کو ناحق تنگ کرنے اور اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عارف میمن

محمد عارف میمن

بلاگر سولہ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں؛ اور ایک مقامی اخبار میں گزشتہ آٹھ سال سے اسپورٹس ڈیسک پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا ٹوئیٹر ہینڈل @marifmemon ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔