ہمارے روشن خیال اور حکومتی رٹ

نصرت جاوید  منگل 22 اکتوبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

عید کی لمبی چھٹیوں کے دوران میں اکثر جنرل پرویز مشرف کے بارے میں سوچتا رہا۔ ذاتی طور پر میں کبھی بھی ان کا مداح نہیں رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلکہ میرا اس بات پر ایمان اور بھی زیادہ مضبوط ہوتا رہا ہے کہ فوجی وردی میں منتخب حکومتوں کا تختہ اُلٹ کر نمودار ہونے والے آمر دُنیا کے کسی بھی معاشرے میں کوئی بہتری نہیں لاسکتے۔ میرے اس خیال کے باوجود حقیقت یہ بھی ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کی رات کو جب پرویز مشرف نے پاکستان پر اپنا قبضہ ثابت کر دیا تو ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت بہت خوش ہوئی۔ ان کی خوشی میرے لیے ہرگز پریشان کن نہیں تھی۔

شہری متوسط طبقے کے لوگ پوری عالمی تاریخ میں آمروں کے مداح رہے ہیں۔ یورپ میں اٹلی، جرمنی اور اسپین جیسے ملکوں میں جہاں علم و ادب کی بڑی فراوانی رہی ہے، مسولینی، ہٹلر اور جنرل فرانکو جیسے لوگ وہاں کے متوسط طبقے کو دیوتا کی صورت نظر آتے رہے۔ ہمارے ہاں ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاء تک جو بھی فوجی آمر آیا، اسے الطاف گوہر سے لے کر اشفاق احمد جیسے ’’دانشوروں‘‘ نے دل و جان سے سراہا۔ جنرل مشرف کے ضمن میں مجھے زیادہ حیرت اس وقت ہونا شروع ہوئی جب ہمارے شہری متوسط طبقے کے ایک بہت بڑے گروہ نے جو اپنے کالج کے دنوں میں بائیں بازو کے جیّد انقلابی وغیرہ جانے جاتے تھے، اس آمر کی حمایت کرنا شروع کر دی۔ میں کئی برسوں تک ان کی مشرف سے محبت کی وجوہات جاننے کی کوشش میں بے تحاشہ سوالات کرتا رہا۔ مجھے بس یہی بتایا جاتا کہ ایک فوجی آمر یعنی جنرل ضیاء نے ہمارے سروں پر ’’ملا کو  مسلط‘‘ کیا تھا۔ پاکستان کی نام نہاد سول سوسائٹی کمزور ہے۔

سیاستدان بدعنوان، نااہل اور بزدل ہیں۔ وہ اپنے تئیں ’’ملاازم‘‘ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ صرف ایک فوجی آمر ہی معاشرے کو ’’روشن خیالی‘‘ کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ یہ سب باتیں کرتے ہوئے میرے ’’ترقی پسند‘‘ دوست کبھی اس بات پر غور نہ کرتے کہ ہمارے ملک کی تمام وہ جماعتیں جو مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں، اسی ’’روشن خیال‘‘ کی چھتری تلے اپنے مسلکی اختلافات بھول کر ایم ایم اے میں اکٹھا ہوئیں۔ انھیں خیبرپختون خوا میں حکومت دی گئی۔ قومی اسمبلی میں اکثریت پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اپوزیشن اراکین کی تھی۔ مگر مولانا فضل الرحمن کو قائدِ حزب اختلاف تسلیم کیا گیا۔ ایم ایم اے کی حمایت سے جنرل مشرف کا 12 اکتوبر 1999 والا ٹیک اوور اٹھارویں ترمیم کے ذریعے جائز قرار دیا گیا اور اسے ایک ایسا ’’منتخب صدر‘‘ بھی تسلیم کر لیا گیا جو فوجی وردی پہنے ہوئے ایک ’’آئینی‘‘ اور اپنی سرشت میں ’’سیاسی‘‘ عہدے پر بیٹھا رہے۔

ہمارے ’’ترقی پسندوں‘‘ کو داخلی معاملات سے مگر کوئی زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ وہ جنرل مشرف سے اس بات پر زیادہ شاداں دکھائی دیے کہ وہ ان کی نظر میں بھارت کے ساتھ ’’دیرپا امن‘‘ کے قیام کے لیے ’’سنجیدگی‘‘ سے کوشش کر رہا تھا اور کشمیر کے مسئلے کا کوئی Out of Box حل ڈھونڈ رہا تھا۔ بھارت میں ہندو انتہاء پسندوں کی واجپائی اور ایڈوانی والی حکومت بھی یہی تاثر دیتی رہی۔ اگرچہ میں ٹھوس حقائق کی بنیاد پر یہ بیان کر سکتا ہوں کہ ان کے اطمینان کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ جان چکے تھے کہ وہ اس ’’فوجی آمر‘‘ سے ایسے معاہدوں پر دستخط کرا سکتے ہیں جن کا محض متن کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر شک ہے تو صرف وہ معاہدہ پڑھ لیجیے جو مشرف نے سارک سربراہی کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ اسلام آباد میں کیا تھا۔ اس معاہدے میں پہلی بار حکومتِ پاکستان نے ’’سفارتی زبان‘‘ میں گویا تسلیم کیا کہ اس کی ’’سرزمین‘‘ بھارت کے لیے مشکلات پیدا کرنے والی حرکات کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے اور آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔

ریاض کھوکھر ان دنوں ہماری وزارتِ خارجہ کے سیکریٹری ہوا کرتے تھے۔ وہ ماشاء اللہ آج بھی زندہ ہیں۔ میری اس بات کو نہیں جھٹلائیں گے کہ انھیں اس معاہدے کے متن کی آخری لمحات تک خبر نہ تھی۔ اس معاہدے کی کاپی اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ان دنوں ہمارے وزیر خارجہ خورشید قصوری کی پریس کانفرنس منعقد ہونے سے پہلے میں نے انھیں دکھائی تھی۔ وہ اسے پڑھتے ہوئے اپنا سرپکڑ کر بیٹھ گئے تھے۔

میرے اس کالم کا مقصد جنرل مشرف کی مذمت کرنا ہرگز نہیں۔ میں یہ کام اس وقت کافی شدت سے کر چکا ہوں جب وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ اس ملک پر حکمرانی کر رہے تھے۔ سچی بات تو ہے کہ عید کی چھٹیوں کے دوران ان کے بارے میں سوچتے ہوئے مجھے غصہ اپنے ان ’’روشن خیالوں‘‘ پر آتا رہا جو ان کے مدح سرا ہوا کرتے تھے۔ جنرل مشرف ان دنوں اگرچہ اپنے کافی کشادہ اور آرام دہ فارم ہائوس میں ’’قید‘‘ ہیں۔ مگر ان کے خلاف مقدمات تو ہیں اور یہ مقدمات کافی سنگین الزامات کے تحت قائم ہوئے ہیں۔ ان کا بالآخر نتیجہ کیا نکلتا ہے،  میں اس بارے میں عدالتی عمل کے احترام کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور ہوں۔ مگر اس بات پر حیرت کا اظہار کرنے پر خود کو مجبور محسوس کرتا ہوں کہ جنرل مشرف جیسا ’’کمانڈو روشن خیال‘‘ آج کل اپنے دفاع میں یہ بیان کیوں دے رہا ہے کہ اس کا لال مسجد آپریشن سے کوئی تعلق نہ تھا۔

جنرل صاحب کو سنا ہے شعر و شاعری سے کافی دلچسپی ہے۔ غزلیں بڑے شوق سے سنا اور خود بھی گا دیا کرتے ہیں۔ فیض احمد فیضؔ کا نام بھی شاید انھوں نے سن رکھا ہو۔ تو فیضؔ کا ایک مصرعہ ہے: جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔ اس مصرعہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا غور کر لیں۔ کہہ ڈالیں کہ ہاں لال مسجد آپریشن کا حکم انھوں نے ہی جاری کیا تھا۔ اپنے دفاع میں انھیں اور کسی چیز کی نہیں بس ہمارے ٹی وی چینلوں پر چلنے والے ان ٹاک شوز کی ضرورت ہے جن میں میرے جیسے اینکر حضرات لال مسجد کے لاٹھی برادروں کو دکھا دکھا کر فریادیں کر رہے تھے کہ ’’حکومتِ پاکستان کہاں ہے؟‘‘ نام نہاد Writ of The State کی دہائی وغیرہ وغیرہ۔ جنرل صاحب کے ساتھ یہ پوزیشن لینے کے بعد جو ہو سو ایک بات تو واضح ہو جائے گی اور وہ یہ کہ پاکستان کے ’’روشن خیال‘‘ Writ of The State کے لیے سیاپا تو بہت فرماتے ہیں۔ مگر جب کوئی حکومت یا حکمران اس کام کے لیے آگے بڑھے تو اس کے واقف تک نہیں بنتے۔ مشکل کی گھڑی میں اسے تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور مشرف آج کل لال مسجد کی وجہ سے جو اذیت و تنہائی بھگت رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے نواز شریف یا عمران خان کو کسی بائولے جانور نے کاٹا ہے کہ وہ شدت پسندوں سے مذاکرات کے بجائے کسی اور چیز کے بارے میں سوچیں؟!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔