طالبان سے مذاکرات کے بارے میں حکومتی وضاحت کی ضرورت

شاہد حمید  بدھ 23 اکتوبر 2013
اسراراللہ گنڈا پور کو خود کش دھماکہ کے ذریعے نشانہ بناکر تحریک انصاف کو براہ راست سخت پیغام دیا گیا۔ فوٹو: فائل

اسراراللہ گنڈا پور کو خود کش دھماکہ کے ذریعے نشانہ بناکر تحریک انصاف کو براہ راست سخت پیغام دیا گیا۔ فوٹو: فائل

پشاور: تحریک انصاف کی حکومت کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوتے ہی پشاور سمیت صوبہ کے مختلف اضلاع میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا اور ٹارگٹ کلنگ اور پولیس وسکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بھی بنایا جا رہا تھا۔

یہ ساری کاروائیاں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے لیے ان ڈائریکٹ پیغام تھا، تاہم صوبائی وزیر قانون اسراراللہ گنڈا پور کو خود کش دھماکہ کے ذریعے نشانہ بناکر تحریک انصاف کو براہ راست سخت پیغام دیا گیا ہے کہ وہ عسکریت پسندی کے خاتمے کے حوالے سے اقدامات اور کوششوں سے خود کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتی اور نہ ہی اس معاملہ میں ساری ذمہ داری مرکز پر ڈالتے ہوئے صوبائی حکومت بری الذمہ ہو سکتی ہے، اسراراللہ گنڈا پور پر حملہ کی وجہ کوئی بھی ہو اور کارروائی کسی بھی تنظیم نے کی ہو تاہم یہ حملہ صوبائی حکومت پر ہے کیونکہ صوبائی وزیر کا مطلب حکومت ہی ہوتا ہے ۔

جس کے بعد اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وزیراعلیٰ اوران کی حکومتی ٹیم کے ارکان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے مرکز کی طرف دیکھنے کی بجائے خود قدم آگے بڑھائیں اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک صوبہ کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر خود وزیراعظم سے ملاقات کریں اور ان سے مطالبہ کریں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا وہ سلسلہ اب تک کیوں نہیں شروع کیا گیا جس کے لیے ملک کی سیاسی وعسکری قیادت نے 9 ستمبر کو وزیراعظم کو اختیار دیا تھا کیونکہ اب ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اس عرصہ کے دوران مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے کا عمل بھی مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔

آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی سیاسی قیادت کی جانب سے اس بات پر اتفاق کرنے کے بعد کہ قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور امن کو ایک موقع دینا چاہیے،توقع کی جا رہی تھی کہ وفاقی حکومت اس سلسلے میں ٹیم تیار کرتے ہوئے مذاکرات کی راہ ہموار کرے گی اوراس کے بعد مذاکرات کا باقاعدہ سلسلہ شروع کردیاجائے گا جس کی تفصیلات بھلے سامنے نہ لائی جاتیں تاہم یہ اقرار دونوں جانب سے لازمی تھا کہ مذاکراتی سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کے ساتھ ہی جنگ بندی بھی ہونی چاہیے تھی ۔ مگر اب تک مرکز نے چپ سادھی ہوئی ہے اور جو کچھڑی اندر ہی اندر پک رہی ہے اس کی کسی کو ہوا لگنے نہیں دی جا رہی جبکہ دوسری جانب طالبان کی قیادت متعدد مرتبہ یہ بات کرچکی ہے کہ کوئی مذاکرات نہ تو جاری ہیں اور نہ ہی شروع کیے گئے ہیں۔

اس ساری صورت حال کے تناظر میں ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت متعدد مرتبہ وزیراعظم اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کر چکی ہے کہ مذاکرات فوری طور پر اسی مینڈیٹ کے تحت شروع کیے جائیں جو انھیں اے پی سی میں دیا گیا تھا جبکہ یہ سوال بھی بار، بار پوچھا جا رہا ہے کہ اختیار ملنے کے باوجود مرکز مذاکراتی عمل شروع کیوں نہیں کررہا؟اس بارے میں یقینی طور پر وزیراعظم اور مرکزی حکومت کے دیگر عہدیداروں کو لب کشائی کرتے ہوئے صورت حال کو واضح کرنا چاہیے۔

مرکز کو یہ بتانا چاہیے کہ آیا حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوچکے ہیں یا ابھی ہونے ہیں ؟اور اگر اب تک مذاکرات شروع نہیں ہوسکے تووہ کون سی قوت ہے جو اس عمل کو شروع کرنے سے روک رہی ہے اور کون سی رکاوٹیں اس مذاکراتی عمل کی راہ میں حائل ہیں ؟اور مرکز کو اس بارے میں ملک کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہیے ۔ اگر مرکز اس سلسلے میں وہی رویہ اپنائے رکھتا ہے جو اب تک اپنائے ہوئے ہے تو خیبرپختونخوا حکومت کو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مرکز سے یہ سوالات کرنے چاہئیں ۔

کیونکہ فرنٹ لائن پر ہوتے ہوئے خیبرپختونخوا دہشت گردی کی کاروائیوں کا سامنا کر رہا ہے اورصوبائی وزیر کے خود کش دھماکے میں جاں بحق ہونے کا نقصان بھی خیبرپختونخوا حکومت کو ہی اٹھانا پڑا ہے جبکہ اس سے ہٹ کر خصوصی طور پر پشاور کے ’’محفوظ‘‘ہونے کے بارے میں جو کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں وہ خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ پورا گھنٹا بجارہی ہیں جس میں صوبائی حکومت کی خاموشی کا نقصان صرف اور صرف خیبرپختونخوا اور اس کی عوام ہی کو ہوگا۔

پشاور میں چرچ پر خود کش حملہ اور اس کے بعد کی تمام دہشت گردی کی کاروائیوں میں سے کسی کی بھی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول نہیں کی بلکہ ٹی ٹی پی نے ان کاروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور ٹی ٹی پی کی جگہ جو تنظیمیں ان کاروائیوں بشمول اسراراللہ گنڈا پور پر خود کش حملہ کی ذمہ داری قبول کرتی آئی ہیں وہ ٹی ٹی پی کی ذیلی تنظیمیں ہیں ، یہ صورت حال بھی اس لیے پیدا ہوئی ہے چونکہ اس وقت معاملات رک کر رہ گئے ہیں بلکہ بعض حلقے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اے پی سی میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کے سلسلے میں مرکز اور وزیراعظم کو ملنے والا مینڈیٹ امانتاًدفن کیا جاچکا ہے ۔

جب اسے نکالاجائے گا تب ہی معاملات آگے بڑھیں گے اور جب ایک مرتبہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور دونوں فریقین اپنی بات ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیں گے تو یقینی طور پر اس میں جنگ بندی اور ایسی کاروائیاں جو ہوتی آئی ہیں ان کی روک تھام کی بات بھی زیر غور آئے گی اور جنگ بندی پر اتفاق ہونے کے بعد اگر ٹی ٹی پی کی کوئی ذیلی تنظیم ایسی کوئی کاروائی کرتی ہے تو یقینی طور پر ایک جانب حکومت ایسی تنظیم کے گرد گھیرا تنگ کرے گی تو دوسری جانب خود ٹی ٹی پی بھی ایسی تنظیموں سے جواب طلبی کرے گی جس سے حالات میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے اور ان حالات میں یہ بھی ضروری ہے کہ تحریک انصاف جس نے اپنی ہی اتحادی پارٹی، جماعت اسلامی کی جانب سے دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنے کی غرض سے متفقہ لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے بلائی گئی اے پی سی میں شرکت نہیں کی تھی یا تو صوبہ میں حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے ہونے کی وجہ سے اب موجودہ حالات میں حکمت عملی وضع کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں کو مدعو کرے یا پھر صوبائی حکومت کو یہ کام کرنا چاہیے کیونکہ امن وامان کی بحالی کسی اور کی نہیں بلکہ صوبائی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے اورصوبائی حکومت میں شامل جماعتوں کو اس کا احساس بھی کرنا چاہیے کیونکہ انھیں ووٹ بھی کسی اور نام پر نہیں بلکہ تبدیلی کے نام پر ہی ملا تھا جس میں سرفہرست امن کا قیام تھا۔

اسرار اللہ گنڈا پور کی شہادت کے اگلے ہی روز وزیراعلیٰ کی جانب سے صوبائی کابینہ کا اجلاس بلایا گیا اوراس میں جلدازجلد انسداد دہشت گردی فورس کے قیام کی منظوری بھی دے دی گئی ۔ اسرار اللہ گنڈا پور کی شہادت کے بعد صوبائی حکومت کو نئے وزیر قانون کی بھی تلاش ہے کیونکہ اسراراللہ گنڈا پور کا نعم البدل تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں اوروہ بھی اس صورت میں کہ وزیر قانون پی ٹی آئی ہی سے ہو ، ایسے میں اس عہدہ کے لیے مناسب شخص اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر امتیاز شاہد قریشی ہی ہوسکتے ہیں جن کا نام بطور وزیر قانون زیر غور بھی ہے ، انھیں ان مشکلات کا اندازہ ہے جس میں اسراراللہ گنڈا پور کی شہادت کے بعد پی ٹی آئی اور صوبائی حکومت پھنسی ہوئی ہے جن میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی نے بہت سے ایشوز پر قانون سازی کرنی ہے جس کے لیے زیرک وزیر قانون کی موجودگی نہایت ہی ضروری ہے ، اگر پی ٹی آئی امتیاز شاہد قریشی کو کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیتی ہے تو اس صورت میں نئے ڈپٹی سپیکر کی تلاش بھی ایک الگ مہم ہوگی جس کے حوالے سے قومی وطن پارٹی کی انیسہ زیب کا نام بھی زیر غور آسکتا ہے تاہم ایسا تبھی ہوگا کہ جب تحریک انصاف ڈپٹی سپیکر کا عہدہ اتحادیوں کو دینے پر راضی ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔